Skip to content

سیاسی اپڈیٹ

آج خیبر پختونخوا کے ڈاکٹرز کے لئے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا گیا۔

ایوب میڈیکل کالج کے سیمینار ہال میں‌تمام ڈاکٹروں کی ایک جنرل باڈی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ اس جنرل باڈی میٹنگ کے لئے ہمارے دوستوں نے کافی محنت کی۔ ایبٹ آباد اور اس کے قریبی اضلاع کے بڑے ہسپتالوں کے دورے کئے، وہاں‌اپنے سینئرز سے ملاقات کی اور انھیں اس جدو جہد کے بارے میں‌بتایا۔

ہمارے ٹیچنگ ہسپتال کی اپنی سیاست بہت گندی سیاست ہے، اس کی طرف میں‌پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں۔ یہاں اجتماعی مفاد کی بات کرنے سے پہلے یہ سوچا جاتا ہے کہ اپنا فائدہ کتنا ہوگا۔ ایسے میں اصولوں‌کی بنیاد پر کوئی نئی بات کرنا تقریبا نا ممکن ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹرز کی نمائیندہ تنظیم پی ڈی اے گو کہ ایبٹ آباد میں موجود ہے، مگر اس کی حالیہ کابینہ سے کافی لوگوں کو شکائت رہی ہے اور یہ شکائت جائز بھی تھی۔ اس یونٹ کی سستی اور ناہلی نے پھر ہمیں‌مجبور کیا کہ ہم اٹھیں اور زمام کار ہاتھ میں لے کر آگے بڑھیں۔ ہماری نا تجربہ کاری، مگر اخلاص اور ہمت نے ہمیں بہت کچھ سکھایا۔

پی ڈی اے کے متوازی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بنا ڈالنا اور پھر اسے چلانا ایک مشکل کام تھا، مگر ہمارے پنجاب کے ساتھیوں نے لمحہ بہ لمحہ ہماری رہنمائی کی۔ بعض اوقات تو انگلی پکڑ کر بھی چلایا۔ پشاور میں موجود تجربہ کار دوستوں نے بہت مفید مشورے دیئے۔

متوازی تنظیم ہونے کے ناتے سے ہمارا کردار ایک پریشر گروپ کا سا رہا ہے، مگر ہم نے کبھی بھی اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں‌کی۔ پھر بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں‌خدشات تھے۔ کبھی ہمیں‌جماعت اسلامی کا ہراول دستہ قرار دیا گیا، کبھی پیپلز پارٹی کے ایجنٹ اور کبھی محض شرپسندی پر آمادہ ڈاکٹرز کے ایک گروہ کے طور پر ہمارا تعارف کروایا گیا۔ ان سب باتوں‌میں‌کبھی کوئی صداقت نہیں‌رہی۔ ہم نے ہر تنقید کا یہی جواب دیا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر کام کر سکتا ہے تو وہ آئے اور ہماری قیادت کرے۔ ہم بخوشی کسی کی قیادت میں‌کام کر لیں‌گے، کہ ہمیں‌کام سے غرض‌ہے ، قیادت سے نہیں۔ مگر ، آگے کوئی آتا نہیں‌تھا، کام کوئی کرتا نہیں‌تھا، اور تنقید مسلسل کی جاتی تھی۔ حتی کہ ہمیں‌اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی تصور کیا گیا۔ اور ان حالات میں آٹھ جون 2010 کا واقعہ پیش آیا ، جب بد تمیزی بھی ہمارے ساتھ ہوئی، دھمکیاں بھی ہمیں‌دی گئیں اور پھر ہماری ہی ٹریننگ کے اختتام کی سفارشات پشاور بھیجی گئیں۔
اس مرحلے پر بہت سے دوستوں‌نے مدد کی۔ جاپان سے سید یاسر شاہ صاحب نے سب سے زیادہ محبت کا اظہار کیا۔ ان سے میری ملاقات شائد ہی ہو سکے مگر ان کے حوالے سے جن سے بھی بات ہوئی، گو کہ ہم ان کو زحمت نہ دے سکے، انھوں‌نے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ قیصر بھائی کو ہم نے زیادہ تکلیف پھر نہیں‌دی کہ یہ توپ سے مچھر مارنے والی بات ہوتی۔

مگر دل کو یہ اطمینان رہا کہ “ہمارا بھی کوئی ہے” الحمدللہ کسی کو تکلیف دیئے بغیر ہی ہمارا وہ مسئلہ حل ہو گیا۔ اس کے بعد ہمارے سامنے بڑا مقصد تھا۔ گزشتہ برس کی ہڑتال حکومت کے اس وعدے پر ختم کی گئی تھی کہ حکومت صرف چار ہفتوں میں ڈاکٹرز کے لئے سروس سٹرکچر منظور کر لے گی، مگر
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو

10 ماہ گزر گئے، ہمارے دوست ہم سے پوچھتے تھے کہ ہم نے کیا کیا اور ہمارے پاس جواب نہ ہوتا تھا۔ مذکورہ بالا ربط اسی سروس سٹرکچر کے ڈرافٹ کا ہے جو حکومت سے مذاکرات کے بعد ایک اتفاق رائے سے طے پایا تھا۔ اور فیصلہ یہ ہوا تھا کہ اسے ایک ماہ میں نافذ کر دیا جائے گا۔ گو کہ اس میں‌ابھی بھی بہتری کی گنجائش ہے مگر یہ دستاویز کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔
آخر پشاور کے پی ڈی اے یونٹ نے اس کام کو مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور صوبے میں‌تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ اس میں‌بھی مذاکرات کا لالچ دے کر روڑے اٹکائے گئے۔ مگر یکم جولائی 2010 کو صوبے کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں میں‌ہڑتال کا اعلان تبدیل نہ ہوسکا۔

آج ہماری جنرل باڈی میٹنگ اسی سلسلے میں‌ہوئی کہ آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ پشاور سے پی ڈی اے کے نمائیندے بھی مدعو تھے۔ خؤشی کی بات یہ ہوئی کہ ینگ ڈاکٹرز اور پی ڈی اے کے درمیان بات چیت مثبت ماحول میں‌ہوئی اورپی ڈی اے ایبٹ آباد کی موجودہ منتخب قیادت نے اس تحریک کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ یوں ذمہ داری مجھ اور ڈاکٹر حفیظ سے ہٹ کر سب پر آ گئی۔ میں‌اور ڈاکٹر حفیظ تو ایسے ہی نظروں میں‌آ گئے ہیں، ورنہ ہم سے بھی اچھے اور فعال ڈاکٹر یہاں پر موجود ہیں۔
آج کی جنرل باڈی میٹنگ کسی دنگے فساد کے بغیر ختم ہو گئی۔ کچھ فریق اپنی بد نیتی کے ساتھ کھل کر سامنے آ گئے اور سب کو علم ہو گیا کہ کون ڈاکٹرز کے لئے کتنا مخلص ہے۔ پی ڈی اے کے موجودہ صدر نے پشاور کے ڈاکٹرز کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر کل یکم جولائی 2010 کوایوب ٹیچنگ ہسپتال کو ایک دن کے لئے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ ایمرجنسی سروس موجود ہو گی۔

ہمیں‌خود بھی ہڑتالیں‌کرنا پسند نہیں مگر جب آپ کو حکومت کا ایک وزیر مذاکرات کے دوران یہ کہہ دے کہ “خدا کی قسم جب تک تم لوگ ہڑتال نہیں‌کرو گے، میں‌تمہاری بات نہیں سنوں‌گا” تو پھر آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں‌رہ جاتا۔۔

6 thoughts on “سیاسی اپڈیٹ”

  1. عباسی صاحب۔۔۔۔
    ڈاکٹر لوگ سیاست کے چکروں میں کہیں مریضوں کو ہی آفاقی جلاوطنی پر تو نہیں پہنچا دیتے؟ اب وہاں سے تو کوئی ٹیلی فونک خطاب بھی نہیں‌ کیا جا سکتا۔
    .-= عثمان´s last blog ..تکلفات =-.

  2. شکر ھے جی۔حقوق ڈاکٹراں کیلئے کچھ پیش رفت ھوئی۔ہم سے کیا ناراضگی جی؟کہ شاید ہی ملاقات ھو لکھ دیا!!ایسے لگا جیسے ملاقات کر نا ہی نہیں چاھتے۔کوئی بات نہیں جی ہم حقوق مریضاں بنائیں گئے اور آپ کے خلاف احتجاج کریں گئے۔
    .-= یاسر خوامخواہ جاپانی´s last blog ..معاہدہ گند صفائی =-.

  3. عثمان :: جی نہیں، اب سیاست کے نئے انداز متعارف ہو رہے ہیں۔ جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ ہماری آج کی ہڑتال آغاز سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ گزشتہ شب حکومت نے خود رابطہ کیا، اور سروس سٹرکچر سمیت ستر فیصد سے زائد مطالبات تسلیم کر لئے۔ اس وقت پشاور میں اسی سلسلے میں پریس کانفرنس ہو رہی ہے۔

    یاسر:: جناب ناراضگی وغیرہ کچھ نہیں، وہ اس لئے کہا تھا کہ آپ نے خود ہی کہہ دیا ہے کہ آپ کی قبر اب شائد جاپان میں ہی بنے۔ اور میرے مستقبل کے منصوبوں میں جاپان دور دور تک نظر نہیں آتا۔

  4. لو پہلے ہی مريضوں کا بيڑا غرق ہوا ہوا ہے اب ڈاکٹروں کے حقوق کی جنگ شروع ہو گئی ہے اور ان چيزوں ميں آپ پيچھے ہی رہيں يہ نہ ہو کہ مريض کسی دن کسی اور نے پڑُکھايا ہو اور مار آپ نے اور حفيظ نے
    .-= پھپھے کٹنی´s last blog ..دودھ کی تاثير =-.

  5. بعض لوگ اپنے مریضوں کا علاج انڈر ٹریننگ ڈاکٹروں سے کروانے میں‌ کتراتے ہیں۔ کم از کم لاہور میں تو میں‌ یہی دیکھتا رہا ہوں۔ اچھے بھلے بندے کا کیس بگاڑ دیا کرتے تھے۔ اللہ کرے آپ کے ذریعہ شفا ہی عطا ہو۔
    .-= عثمان´s last blog ..تکلفات =-.

  6. منیر عباسی

    عثمان میں‌آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ ایک انڈر ٹریننگ ڈاکٹر ہونے کے ناتے سے میں‌خود کوئی بھی ایسا کام نہیں‌کروں‌گا جس میں مجھے کامیابی کا یقین نہ ہو، مگر ، اگر آپ میری گزشتہ گزارشات پڑھیں جو کہ اس بلاگ میں‌جا بجا بکھری نظر آئین گی تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ میں‌نے جابجا اس امر کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ اگر صحت کے شعبے کو پاکستان میں‌ایک قابل اعتبار شعبہ بنانا ہے تو پھر سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ذمہ داری صرف ڈاکٹروں‌پر ڈالنے سے باقی سب بری الذمہ نہیں‌ہو جاتے۔

    اسلام آباد میں‌وینٹی لیٹر نہ ملنے سے ایک ایم این اے کی ہلاکت ہوئی تو ڈیوتی پر موجود ڈاکٹروں کو معطل کر دیا گیا۔ حال آنکہ وینٹی لیٹر کی دستیابی ان کا درد سر نہیں‌تھا۔ وہ صرف ڈیوٹی ڈاکٹر تھے۔ انتظامیہ صاف صاف بچ نکلی۔
    اگر آپ چاہتے ہیں‌کہ انڈر ٹریننگ ڈاکٹر آپ کے مریض‌کا علاج نہ کریں‌کوآپ کو ، معاشرے کو ایک بھر پور مہم چلا کر حکومت کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ ایک ایسا جامع پروگرام بنائے کہ 22 سال پڑھنے والے سپیشلسٹ ڈاکٹر جب نوکری کریں‌ تو انھیں اپنا معاشی احساس کمتری ختم کرنے کے لئے رات ایک ایک بجے روزانہ تک دیہاڑی نہ لگانی پڑے۔ جب ایسا نہ ہوگا تو وہ ہسپتال میں‌موجود ہوں‌گے اور انڈر ٹریننگ ڈاکٹر مریضوں‌سے دور رہیں‌گے۔ ہمارے پاس ہسپتالوں‌میں بس ٹائم پاس پالیسی چلائی جا رہی ہے۔ اس بارے میں‌کافی عرصے سے لکھنے کا ارادہ تھا۔ انشا ء اللہ تفصیل سے جلد لکھوں‌گا۔

    ہمارے ہسپتال میں‌تو روزانہ کی اجرت کی بنیاد پر اب گریڈ 17 میں‌ڈاکٹر بھرتی کئے جا رہے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں‌کہ میں‌جانتا ہوں‌کہ ان کا ایم بی بی ایس ہوا ہی نہیں مگر وہ میڈیکل آفیسر کی پوسٹ پر بیٹھے ہیں۔
    کس کس کو الزام دیں‌گے ہم؟ سارا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے۔

    پھپھے کٹنی ::‌جی نہیں۔ اب ہم نے یہ سب ختم کر کے اپنے پیپر کی طرف توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ میرے خلاف صرف اتنا ہوا ہے کہ ماہانہ وظیفہ کسی بہانے سے بند کروا دیا گیا ہے۔ وہ مسئلہ بھی انشا ء اللہ حل ہو جائے گا۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں