Skip to content

سیاست

آج دن بھر سونے کے بعد شام کو آوارہ گردی کا وقت مِلا تو دوبارہ کالج کی طرف جا نکلا۔
دوست کے ساتھ کیمپس کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے میں نے مُختلف جگہوں پر شامیانے آویزاں دیکھے۔ وہاں جا کر پوچھنے پر علم ہوا کہ سوات، دیر، اور بونیر کے مہاجریں کےلئے ایوب میڈیکل کالج کے طلباء نے امدادی رقوم اور سامان جمع کرنے کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ وہاں موجودطلباء سے بات چیت کے بعد اندازہ ہوا کہ ماشاءاللہ ہم لوگوں میں نیکی کا جذبہ اب بھی موجود ہے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ کہ عطیات کی وصولی کی رفتار قابلِ ستائش ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مختلف آراء بھی سُننے کو ملیں۔ کچھ لوگوں کا ۲۰۰۵ کے زلزلے کے بعد کی صورت حال کے حوالے سے بہت تلخ تجربہ تھا اور وہ یقین کرنے کو تیار ہی نہ تھے کہ یہ سب کچھ واقعی مستحقین تک پہنچ پائے گا۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام بھی کافی کچھ ہوتا نظر آیا ہے، مگر بات وہی، کہ ‘ اس بات کی کیا ضمانت کہ یہ سب کچھ وہاں پہنچ پائے گا’۔ حالانکہ میرے خیال میں اگر ہم کچھ عطیہ کر رہے ہیں تو ہم اس چیز کے مستحق تک پہنچنے کی ذمہ داری سے اس وقت سبکدوش ہو جاتے ہیں جب کوئی اس بات کی ذمہ داری خود پر لے لے۔
یہی بات یہاں منطبق ہو سکتی ہے۔ ایک شخص ذمہ داری لے رہا ہے، آپ جو کچھ ممکن ہو سکتا ہے، عطیہ کر دیں اور باقی اللہ پر چھوڑ دیں۔ امانت میں خیانت اس شخص اور اللہ کا معاملہ ہے۔
بہر حال ایک بات جو مجھے بُری طرح کھٹکی ، وہ یہ تھی، کہ اگرچہ مقصد ایک تھا، ادارہ ایک تھا، عطیات کی منزل بھی ایک نظر آتی تھی ، مگر طلباء کی تنظیموں نے اپنے اپنے طور پر علیحدہ کیمپ بنائے ہوئے تھے۔ ہر ایک تنظیم کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد مجموعی طور پر کوئی اچھا تائثر نہیں چھوڑ رہی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایک ہی جگہ پر ایک مرکزی کیمپ لگایا جاتا، اور سب عطیات وہاں جمع کیئے جاتے؟
ہم لوگ، اتنے بے حِس ہو چکے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں بھی اپنی سیاست چمکانے سے باز نہیں آتے۔ ہر جگہ اپنے مفاد کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور یہ انتشار اور مفاد پرستی ہماری قوم کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہے۔

5 thoughts on “سیاست”

  1. خورشیدآزاد

    اپنے ہم وطنوں کی امداد میں تو ہم پیش پیش ہیں اس میں کوئی شک نہیں. لیکن مسلہ کریڈٹ کا آجاتا ہے.

    ہماری قوم کی یہ ایک پیچیدہ بیماری ہے کہ ہم سب کچھ بانٹ سکتے ہیں لیکن کریڈٹ.

  2. ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مشکل وقت میں ہماری قوم نے اپنے ہم وطنوں کی بھر پور امداد کی ہے ۔ چاہے کوئی غریب ہے یا امیر جتنا ہو سکا دیا اللہ پاک دینے والے کے جزبے کو قبول فرمائے اور ہم سب کو کچھ نا کچھ دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین

  3. افتخار اجمل بھوپال

    جب تک نیل کی وادی سے کاشغر تک مسلمان ایک نہیں ہو جاتے ۔ حرم کی پاسبانی نہیں ہو سکتی ۔ یہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ایک ایسی بیماری ہے جو ہمیں نیچے ہی نیچے دھکیلتی جا رہی ہے

  4. DuFFeR - ڈفر

    میرے اور بھائی صاحب کے دفتر والوں نے پیسے اکٹھے کئے کہ متاثرین کی امداد کرنی ہے. میں نے پوچھا کہ کیسے کرو گے؟ پیسےلے لو گے تو کیا جا کر بانٹ دو گے یا چیزیں لے کر دو گے؟ اور بانٹنے کا کیا طریقہ ہو گا؟
    بھائی صآحب سے پوچھا تو کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا بڑا ایماندار بندہ ہے. میں نے کہا ایمانداری پر شک نہیں لیکن مدد کا طریقہ کیا ہو گا؟ اور وہی سوال پھر دہرائے
    کسی نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا
    میں کہتا ہوں کہ ایسا مربوط نظام بنایا جائے کہ سب کی امداد سے سب کو فائدہ ہو
    کوئی انہونی بات نہیں لیکن کرے کون؟
    حکومت کو الگ چندہ چاہئے
    این جی اوز کو الگ
    سیاسی جماعتوں کو الگ
    اور جہاں 4 بندے ہوں انہوں نے الگ ہی کام کرنا ہے
    نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو کام بہترین ہو سکتا ہے وہاں ہم کیڑے ڈال دیتے ہیں
    اور ہاں
    مجھے کریڈٹ چاہئے
    کم از کم 100 روپے والے غیر استعمال شدہ کارڈ کا نمبر ہر ایک پڑھنے والا بھیج دے

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں