Skip to content

سرعام, تحقیق , اور سنسنی خیزی کی دوڑ.

سرعام, تحقیق , اور سنسنی خیزی کی دوڑ.

تصویر وکی پیڈیا سے لی گئی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عنوان کا اس تصویر سے کیا تعلق ہے؟ وہ بھی میں آپ کو بتا دوں گا۔ پہلے آپ ایک وڈیو کو دیکھ لیں۔ امید ہے 5 اکتوبر 2013 کو اے آر وائے ٹی وی پر نشر ہونے والا “تحقیقاتی ” پروگرام سرعام آپ نے دیکھا ہوگا۔ اس کی میزبانی ایک جوان العمر صحافی اقرار الحسن کرتے ہیں۔ جو کہ مجھے کسی بھی طرح سے “نوجوان” نہیں دکھائی دیتے۔ میرا مقصد آپ کی توجہ اس طرف دلانا تھا کہ نازیہ مسرت المعروف حسن شاہ المعروف مریم کے بارے میں سر عام کی ٹیم نے جو تحقیق کی ہے وہ ایک طرح سے کم رہ گئی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو شائد میں یہ تحریر نہ لکھ رہا ہوتا۔

پروگرام کی متذکرہ بالا قسط آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ اس تحریر کے ساتھ ہی لگا دوں مگر اپنی کسی غلطی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پارہا۔

تین یا چار ہفتے کی کوشش کے بعد ٹیم نے اس کردار کا پردہ چاک کیا ہے جو بظاہر تو مرد ہے مگر عورت کے روپ میں پھرتا ہے۔ میں نے پہلے سوچا کہ شائد یہ ہیجڑا ٹائپ کیس ہو، مگر ہیجڑے تو زنا بالجبر نہیں کر سکتے۔ پھر؟

یادداشت پر ذرا زور ڈالا تو یاد آیا کہ ایمبریالوجی کی کلاس میں ٹیسٹیکولر فیمینائزیشن سنڈروم کے بارے میں پڑھا تھا۔ ایسے افراد بظاہر تو بالکل ایک مکمل عورت ہوتے ہیں، مگر ان کا جینیاتی سانچہ مردوں کا ہوتا ہے۔ اور یہ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ دوران حمل کسی پیچیدگی کی وجہ سے بچے کے جسم میں پیدا ہونے والے مردانہ ہارمون جن سب کو انڈروجن کہا جاتا ہے اور جن میں ٹیسٹو سٹیرون سب سے زیادہ مشہور ہے، بچے کے جسم پر اپنا عمل کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں اور یوں جنین کی نشوونما ایک لڑکی کی صورت ہوتی ہے۔

آج کل اس سنڈروم کا نام بدل کر انڈروجن اِنسینسٹوِٹی سنڈروم رکھ دیا گیا ہے۔ نام چاہے کچھ بھی ہو، ہمیں تو اس سنڈروم کے نتائج سے غرض ہے۔

تحریر کے آغاز میں جو تصویر ہے، اس کے سب شرکا کا جینیاتی ڈھانچہ مردو ں کا ہے، مگر اس سنڈروم کی وجہ سے یہ سب عورتوں کے روپ میں پلے بڑھے ہیں۔

بقول شاعر ، ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ۔۔

اس سنڈروم میں انڈروجنز کے اثرات کی جانب یا تو مکمل مزاحمت ہوتی ہے یا پھر نا مکمل مزاحمت۔ معاملہ اگر مکمل مزاحمت کا ہے تو نتیجہ ایک ایسی لڑکی کی صورت نکلے گا جو بظاہر تو ایک نارمل عورت ہے، مگر وہ بانجھ ہوگی۔

اور بعض اوقات یہ نامکمل نتیجہ جو نکلتا ہے اس کے سات درجات ہیں۔

پہلا درجہ تو یہ ہے کہ بچہ پیدا بھی مرد ہوتا ہے اور بانجھ ہوتا ہے۔

دوسرا درجہ یہ ہوتا ہے کہ مرد تو ہوتا ہے، مگر اس کے اعضائے تناسل کی نشوونما اس کے باقی جسم کی مناسبت سے نہیں ہوتی۔

اور اسی طرح آخری درجہ یہ ہوتا ہے کہ متآثر فرد ایک عورت کی شکل میں اپ کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ اس بارے اگر آپ کو زیادہ تفصیل درکار ہے تو یہاں مطالعہ کیجئے۔

میڈیکل کی عمیق اصطلاحات کا حوالہ دے کر میں اس تحریر کو ناقابل مطالعہ نہیں بنانا چاہتا کیونکہ اس تمہید کا خلاصہ یہی ہے کہ سر عام کی ٹیم نے جس جنونی ہوس پرست کو اتنی خوشی سے بے نقاب کیا ہے وہ شائد اس کیفیت کا ، اس مرض کا شکار ہو۔ شائد اس کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہو۔ شائد اس کو علاج کی ضرورت ہو۔

مگر سنسنی خیزی اور ریٹنگ کی اس جنگ میں سب جائز ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ سر عام کی ٹیم بجائے اس شخص کے شکاروں کے انٹرویو کے، جس میں اتنی زیادہ معلومات دی گئی تھیں کہ میں بھی اگر چاہوں تو منڈی بہاؤالدین پہنچ کر ان لڑکیوں کو ڈھونڈ نکالوں، اس  صورت حال کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتی اور ایک مناسب ، قابل قبول حال ناظرین کے سامنے پیش کرتی۔  اُلٹا اس قسط کی اتنی بُری ایڈیٹنگ کی گئی اور  ان لڑکیوں کے بارے میں اتنی معلومات افشا کی گئی ہیں کہ الٹا ان کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

مجھے خوشی ہوتی کہ سر عام کی ٹیم ڈاکٹروں سے ملاقات کے وقت ذرا کچھ معلومات اور حاصل کر لیتی، ان سے ذرا تفصیلا بات چیت ہو جاتی۔  اِس کردار کی ممکنہ تشخیص اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بات ہوتی۔ دیکھا جاتا کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر اس عورت نما مرد، یا مرد نما عورت کو یہ سب کرنا پڑا۔ دیکھا جاتا کہ قانون اس معاملے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ کیا ایسے لوگوں کے لئے، جنھیں اپنی شناخت کرانے میں مسئلہ ہے، ہمارے ملک میں ممکنہ قانون سازی ہو سکتی ہے؟ اور اگر ہوگی تو اس کے قابل عمل پہلو کیا ہوں گے۔

میں اس کردار کو مکمل بے گناہ بھی قرار نہیں دینا چاہتا مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس پر لگے الزامات کی سنگین نوعیت کے باعث غیر جانبدارانہ تحقیق (ہاہاہاہا) ہو بھی سکتی ہے کہ نہیں۔  زنا بالجبر کے ان الزامات کی مکمل تفتیش ہو تو اس کردار کو بے گناہ ثابت ہونے پر علاج کی پیش کش کی جائے۔

دو سال قبل بھکر کے دو بھائیوں کا قصہ منظر عام پر آیا تھا۔ انھوں نے ایک مردہ لڑکی کو قبر سے نکال کر  اس کا گوشت کھایا تھا۔ میڈیا میں، اخبارات میں بڑی ہاہاکار مچی تھی۔ ان بھائیوں کو موت کی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ مگر اس بات کی طرف بہت کم لوگوں کا دھیان گیا کہ ایک صحیح الدماغ فرد کبھی بھی ویسا کام نہ کرے گا جو اُن بھائیوں نے کیا۔ ان کا دماغی معائنہ ہونا چاہئے تھا۔ اور پھر اس کے نتائج کی مناسبت سے ان کے ساتھ سلوک کیا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ کسی نی یہ بیان بھی داغا تھا کہ پاکستان پینل کوڈ یعنی دفعہ تعزیرات پاکستان کے تحت اس قسم کی حرکت، یعنی مردہ انسانوں کے گوشت کے کھانے پر کسی قسم کی کوئی سزا تحریر نہیں ہے۔ اب یہ تو وکیل لوگ ہی بتا سکتے ہیں کہ ایسی بات درست ہے بھی کہ نہیں۔ ہم تو بیانات کو دیکھ کر یقین ہی کر سکتے ہیں۔

اب تو شائد ہی کسی کو علم ہو کہ اُن بھائیوں پہ کیا بیتی۔ بہر حال اِس تحریر کے پیش نظر میرے کچھ مقاصد تھے۔

اول: ہمارے صحافی حضرات کو کسی  بھی قسم کا تحقیقاتی چھاپہ مارنے سے پہلے ذرا سی ریسرچ کر لینی چاہئے۔

دوم: سنسنی خیزی پھیلانے سے اُس وقت تو فائدہ ہوتا ہے مگر یہ فائدہ وقتی ہی رہتا ہے۔

سوم:: مجرم کو  بے نقاب شوق سے کریں، بسم اللہ۔ مگر کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ذرا دیکھ لیں کہ اُس کے جرم کے ارتکاب کے کیا ممکنہ محرکات ہو سکتے ہیں۔

چہارم:: بحیثیت ایک معاشرے کے، ہمیں بہت سارا کام کرنا ہے۔ ایسے لوگ جو نہ مرد ہوتے ہیں نہ عورت۔ یا جو اس سنڈروم کے شکار ہوتے ہیں، بظاہر مکمل عورتیں تو ایک طرف، نا مکمل قسم کے شکار جو یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ وہ کیسے زندگی بسر کریں۔ بحیثیت ایک مرد کے یا عورت کے؟ اِ ن لوگوں کے لئے ہمیں کام کرنا ہوگا۔ ایسا کام کسی بھی طریقے سے غیر اسلامی نہیں ہے۔

البتہ ہمارے معاشرتی سٹینڈرڈز کے لحاظ سے اچھا کام نہیں ہے۔  وجہ آپ سب جانتے ہیں۔ لوگ کیا کہیں۔ ناک نیچی ہو جائے گی۔ مجھے سے پہلے تو کسی نے نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔

اس سے پہلے میں نے قانون سازی کا ذکر کیا، مگر میں سمجھتا ہوں کہ قانون سازی سے زیادہ معاشرتی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کی سوچ کو ایک نئے زاویے سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوگیا اور لوگوں نے ، معاشرتی حیوانوں نے ، تسلیم کر لیا کہ نازیہ مسرت جیسے لوگ مدد کے مستحق ہیں، نفرین کے نہیں تو شائد قانون سازی کی بھی اتنی ضرورت نہ ہو اور معاشرے کے ایسے کردار جُرم کرنے سے بھی بچ جائیں۔  جہاں تک قانون سازی کی بات ہے تو پاکستان پینل کوڈ میں اس قسم کی صورت حال سے دو چار افراد کی شناخت اور اگر وہ ایسے کسی مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں، تو ظالم اور مظلوم دونوں، خواہ وہ کوئی بھی ہو، کی داد رسی کا خاطر خواہ بندو بست ہوناچاہئے۔

2 thoughts on “سرعام, تحقیق , اور سنسنی خیزی کی دوڑ.”

  1. آپ نے ایک نہائت اہم پہلو پر بات کی ہے ۔ جہاں تک ہمارے میڈیا کا تعلق ہت وہ تو صرف سنسنی پھیلانا چاہتے ہیں فرد بلکہ قوم جاگر بھاڑ میںجائے تو اُن کی بلا سے ۔ آپ نے زنا بلاجبر کی بات کی ۔ میرے علم میں کچھ واقعات ہیں کہ پہلے موج میلا کر لیا جب ظاہر ہو گیا تو اسے زنابالجبر کہہ دیا ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دشمنی میں کسی بے قصور لڑکے یا مرد کو مرتکب قرار دیا جاتا ہے

  2. ایک عمدہ تحریر ہے!
    ٹی وی پروگرام خاص کر جرم و سزا سے متعلق عام پروگرام جن میں ایف آئی آر کی کہانی کو ڈرامے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے یا جن میں پروگرام کے شروع سے آخر تک کسی ایک کو مجرم اور دوسرے کو مظلوم بتایا جاتا ہے عدالتی فیصلے آنے سے قبل ہی قابل گرفت ہو سکتے ہیں۔ مگر احباب میڈیا سے ٹکرانے سے ڈرتے ہیں!

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں