Skip to content

سب مایا ہے – 2

گزشتہ اظہاریے میں میں نے کوشش کی تھی کہ انسانی اعصابی نظام کے ایک حصے، یعنی سینسری سسٹم کا ایک مختصر تعارف پیش کیا جائے۔ بہت سی وجوہات کی بنا پر میں اس نظام کی تفصیل میں نہیں گیا مگر میں نے یہ جتانے کی کوشش کی کہ ہمارا اپنے آس پاس کی دنیا سے رابطہ اس اہم نظام کی بدولت ہے، جو ہمیں بہت سے مواقع پر درست فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔
موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے، میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ گزشتہ اظہاریے میں میں نے جن متضاد منظر ناموں کا ذکر کیا تھا، دراصل وہ ایک ہی نظام کے دو رُخ ہیں۔ ہماری زندگی کی تمام خوشیاں اور غم ہماری حسیات پہ انحصار کرتی ہیں۔
ایک جملہ آپ نے اکثر سنا ہوگا، محفلوں میں کسی کا شکوہ اکثر ان الفاظ میں کیا جاتا ہے کہ ” فلاں بہت بے حس ہے” گویا حس کا نہ ہونا ، شخصیت کے ایک منفی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔

ہم یہاں فی الحال طبعی حسوں کی بات کریں گے۔ کسی کی بصارت زائل ہو، یا قوت سماعت، توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت کھو جائے یا چکھنے کی حس، ہر صورت میں زندگی بے معنی اور ادھوری سی ہو جاتی ہے۔ ہماری یہ تمام خوشیاں ان برقی اشاروں کی محتاج ہیں جو کسی حس سے متعلقہ عضو کے کام کرنے کے دوران پیدا ہوتے ہیں۔ یہ برقی اشارے اعصابی نظام میں سفر کرتے ہوئے دماغ تک جاتے ہیں اور دماغ کے متعلقہ حصے کو “جگا” دیتے ہیں، یوں ہم زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

دائیں ہاتھ دی گئی تصویر اس ساری بات کا خلاصہ ہے۔ یہ تصویر ہمارے بصری نظام کے کام کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں، وہ برقی اشاروں کی صورت میں آپٹک نرو کے ذریعے آکسپٹل کارٹیکس تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہ کارٹیکس دماغ کے عقبی حصے میں واقع ہے، اور جیسا کہ آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا، اکثر ہیرو کی بصارت سر کے پچھلے حصے میں چوٹ لگنے سے زائل ہو جاتی ہے۔ ویسے ہی یہ حصہ در حقیقت بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ حصہ کام کرنا چھوڑ دے تو چاہے دنیا کی سب سے خوبصورت آنکھیں کیوں نہ ہوں، کبھی دیکھ نہ پائیں گی۔
ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا/

آپ نے شیزو فرینیا جیسی بیماری کا نام سنا ہوگا۔ اس کو جنون ، پاگل پن، اور غالبا مالیخولیا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس مرض کی علامات تو کافی ہوتی ہیں، مگر سب سے جانی پہچانی علامات میں مریض کو آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ مریض کو اپنے آس پاس جانی پہچانی چیزیں یا انسان بھی نظر آ سکتے ہیں جو کہ دوسروں کو نظر نہیں آتے۔

اس بات کی تحقیق کے لئے کہ کیا یہ آوازیں، یا بصری معاملات واقعی ان مریضوں کے ساتھ پیش آتے ہیں یا ان کو کوئی غلط فہمی ہوتی ہے، طبی ماہرین بہت عرصے سے جستجو میں لگے ہوئے تھے۔ پازیٹران ایمیشن ٹوموگرافی یا پی ای ٹی سکین کے ذریعے بالآخر کسی حد تک اس سوال کا جواب مل گیا ہے۔


یہ تصویر شیزو فرینیا کے ایک مریض کے دماغ کا پی ای ٹی سکین ہے۔ جو کہ اس وقت کیا گیا جب اسے آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس تصویر میں دماغ کے ان حصوں میں رنگ برنگی روشنیاں نظر آ رہی ہیں جو کہ سننے اور دیکھنے سے متعلق ہیں۔ اس کا مطلب گویا یہ ہوا کہ اگرچہ ہم نہیں سُن پا رہے، مگر یہ مریض واقعتا سُن رہا ہے۔ اور اس کے سننے کا ثبوت دماغ کے متعلقہ حصوں کا یہ سکین ہے جو ان حصوں میں کچھ کام ہوتا دکھا رہا ہے
۔ مگر مریض تو کو شیزو فرینیا ہے؟ وہ تو بیمار ہے اور ان آوازوں کو سننے کا دعوی کر رہا ہے جو صحت مند انسانوں کو سنائی نہیں دے رہیں۔ تو یہ سب کیا ہے؟

اگر کسی صحت مند انسان کا بات چیت کے دوران دماغ کا پی ای ٹی سکین کیا جائے تو کم و بیش یہی تصویر سامنے آئے گی۔ تو پھر بیمار کون ہوا؟

دیکھنے میں تو یہ ایک مشکل سوال ہے مگر، ایک صحت مند انسان کے دماغ میں سننے اور دیکھنے کی حس کے برقی اشارے وصول کرنے والے حصے کام اسی وقت کریں گے جب کوئی برقی اشارہ بیرونی دنیا سے کوئی اثر قبول کرے گا۔
شیزو فرینیا میں یہ حصے ایک لحاظ سے خود ہی متحرک ہو جاتے ہیں اور مریض کو آوازیں سنائی دیتی ہیں یا بصری واہمے نظر آنے لگتے ہیں۔

اس ربط پر آپ شیزو فرینیا کے کچھ مریضوں کے انٹرویو سُن سکیں گے۔

یہاں تک کی گفتگو کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ، ہمارا جسم اپنے آس پاس کے ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ یہ اثر بیک وقت مفید بھی ہے اور مضر بھی، مگر بیرونی دنیا سے تعامل اس جسم کے لئے ناگزیر ہے۔ کیونکہ اسی تعامل کے نتیجے میں جسم اپنے مستقبل کے اہداف کا تعین کرتا ہے۔ اسی تعامل کے نتیجے میں مختلف کیفیات پیدا ہوتی ہیں جن کو ہم خوشی، بھوک، رجا، یاس، خوف ، امید اور اطمینان کا نام دیتے ہیں۔

جاری ہے۔

حوالہ جات:

http://www.nytimes.com/interactive/2010/09/16/health/healthguide/te_schizophrenia.html
http://www.healthline.com/galeimage?contentId=gend_02_00310&id=gend_02_img0093

4 thoughts on “سب مایا ہے – 2”

  1. معلوماتی تحریر کا بہت بہت شکریہ۔
    اس موضوع کے بعد ہو سکے توکچھ خود کلامی پر بھی لکھئے۔کوئی مشہور غزل بھی ہے کہ دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔۔۔
    دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض افراد خود کلامی کرتے ہیں۔عموماً ذہین ہوتے ہیں۔
    نہ دکھائی دینے والے فرد سے گفتگو کرتے ہیں،غصہ کااظہارکرتے ہیں ہنستے مسکراتے بھی ہیں۔ہاتھوں سے اشارے وغیرہ بھی کرتے ہیں
    جب اس حالت میں انہیں پکار کر حقیقی دنیا میں کھینچا جاتا ہے تو کچھ شرمندہ شرمندہ سے کسی صحت مند کی طرح بات چیت کرتے ہیں۔

  2. آپ بُہت اچھی آگہی دے رہے ہیں ۔اسکو جاری رکھیں ۔بُہت شُکریہ ۔” خلوص کا طالب ۔ایم۔ڈی” ۔

  3. اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین۔
    اردو زبان میں یہ نہائت معلوماتی تحریر ہے ۔
    شیزوفرینیا پہ ایک دلچسپ مووی اے بیو ٹی فل مائنڈ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جونوبل انعام یافتہ ریاضی دان جان فوربیس ناش کی حقیقی زندگی پہ بنائی گئی ہے۔ جو “پیرا نوئیڈ شیزو فرینیا” کے مریض ہونے کے باوجود انیس سو چورانوے میں نوبل انعام حصے دار ٹہرائے جاتے ہیں ۔
    فلم دیکھے جانے کے لائق ہے اور اس سے عام آدمی کو اور شیزو فرینا اور پیرا نوئیڈ شیزورینیا کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
    John Forbes Nash
    A Beautiful Mind
    schizophrenia
    paranoid schizophrenia
    اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔
    اللہ تعالٰی آپکو جزائے خیر دے۔ آمین

  4. یاسر:: ابھی تو میں اس سلسلے کو شروع کر کے افسوس کر رہا ہوں کیونکہ اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ اس موضوع سے انصاف کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ اور دیگر مصروفیات میں سے اکثر وقت تو کاپی پیسٹ پہ گزر جاتا ہے۔

    ایم ڈی:: بلاگ پر آنے کا شکریہ۔ تحریر کو پسند کرنےے پر آپ کا ممنون ہوں۔

    جاوید گوندل:: جی جناب، یہ ایک بہت پیاری مووی ہے، اور مریضوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی بہت اچھی منظر کشی کی گئی ہے۔ شیزو فرینیا کی کئی اقسام ہیں، کچھ تو بہت بے ضرر قسم کی ہیں اور کچھ میں مریض اپنے لواحقین یا آس پاس کے لوگوں کو نقصان بھی بہنچا سکتا ہے ۔ بہر حال، جیسا کہ انشا ء اللہ آپ اگلی قسط میں پڑھیں گے، میرا مقصد اس وقت شیزو فرینیا پہ گفتگو کرنا نہیں ہے، یہی صرف ایک مثال کے طور پر سامنے آ گیا ہے۔ میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں ، اور امید ہے اپنے خیالات کو مجتمع کر کے اگلی مرتبہ کہہ ڈالوں گا۔ بلاگ پر تنقیدی نظر ڈالنے کا شکریہ۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں