Skip to content

زنجیریں

آج ایک پیچیدہ صورت حال سے گزرنے کا موقع ملا۔ شائد اللہ کو اس میں میرے لئے کوئی بہتری منظور ہو، مگر میں سارا دن بہت بے چینی محسوس کرتا رہا۔ غصہ بھی تھا۔ میں چاہتا تو ایک جملہ کہہ کر صورت حال سے نکل جاتا مگر شائد طویل مدتی نتائج اچھے نہ ہوتے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان اتنا آزاد نہیں رہتا جتنا اوائل عمر میں محسوس ہوتا ہے۔ نوجوانی کے دنوں میں زمہ داری کا احساس انسان کو ایک خوشی سے سرشار کرتا ہے۔ بڑا ہوجانے کا علم، اور کندھوں پر پڑی ذمہ داریاں فخر سے سینہ پھلا دیتی ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی ذمہ داریاں، والدین کی خدمت، گھر کا کام، دفتری امور میں سنجیدگی اختیار کر لینا، وغیرہ وغیرہ انسان کی غیر مرئی زنجیریں بن جاتی ہیں۔

آج میں بہت تنگ ہوا۔ دل کیا کہ بس جان چھڑا کر نکل جاؤں مگر پھر میں نے جبر کیا۔ اپنے آپ کو گالیاں دیں، تنہائی ملنے پر صورت حال کو گالیاں دیں، فیصلہ کیا کہ بس اب اور نہیں۔ مگر غصہ ٹھنڈا ہونے پر اسی طرح اپنے اوپر ہنسا بھی۔ یہ تو مردوں کا طریقہ نہیں ۔ میل شاونزم۔ عورتوں کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ نہیں پتہ۔
مرد ہوں، مردوں کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔

پہلے تو ہما رے پاس ایک بہانہ ہوتا تھا کہ پنجاب میں تنخواہیں زیادہ ہیں اس لئے جگہ بدل لی۔ اب تو آج کی حکومتی اعلان کے بعد سے ایک جیسی ہو گئی ہیں، اب جانے کا فائدہ؟

ایک بات میں نے سیکھی وہ یہ کہ جب کسی سے اپنی کسی کمزوری پہ پردہ ڈالنے کی درخواست کرنی ہو تو اس کو اپنا غلام سمجھ کر کام نہیں لینا چاہئے۔

پیپل ٹیک یو فار گرانٹڈ۔ مگر آپ کبھی کبھار انکار بھی نہیں کر سکتے۔
آج وہ دن یاد آئے جب کسی بھی فصلے سے قبل سوچ بچار کی عادت نہ ہوتی تھی۔ پل بھر میں فیصلہ کرنے کے بعد پھر اس پہ قائم رہنا اور بعد میں افسوس بھی نہ کرنا کچھ ایسی خوبیاں تھیں جو ذمہ داریاں بڑھنے پر قربان کرنا پڑتی ہیں۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں