Skip to content

رعایتی فیس

جب حضرت علامہ مرحوم نے کہا کہ “ثبات ہے تغیر کو زمانے میں” تو یقینا انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر ہی کہا ہوگا۔ ہمارے آس پاس وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حالات کی تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہو چکی۔ کبھی کبھی یوں گمان ہونے لگتا ہے کہ اس تبدیلی کی دوڑ میں شامل ہونے کے بعد شائد انسان اپنے اوپر اپنا اختیار کھو بیٹھتا ہے۔
گزشتہ ایک عشرے میں ہمارے معاشرے میں تبدیلی بھی کچھ اسی رفتار سے آئی۔ اور اس تبدیلی کی رفتار پرویز مشرف کے دور میں کچھ تیز ہو گئی۔
موبائل فون کو عام آدمی کی پہنچ میں اس طرح رکھ دیا گیا کہ آج پاکستان میں ستر فیصد آبادی کے پاس کم از کم ایک موبائل فون ہے۔ جن لوگوں نے ایک سے زیادہ سمیں رکھی ہوئی ہیں وہ اس شمار میں نہیں ہیں۔ اسی طرح تیز رفتار انٹرنیٹ کی پاکستان میں آمد نے لوگوں کے مشاغل کی تصویر ہی بدل کے رکھ دی ہے۔
مجھے یاد ہے زمانہ طالبعلمی میں ہمارے پاس کوئی موبائل فون نہیں تھا، اور نہ ہی انٹر نیٹ۔ شام کو سب لڑکے ہاسٹل سے باہر ایک دوسرے سے ضرور ملتے۔ ہاسٹل فور کے پاس رکھے ٹرانسفارمر پر ایک عدد بیٹھک ہوتی اور دن کے احوال سنائے جاتے، کسی نہ کسی کو ٹارگیٹ بنایا جاتا اور ہنسی خوشی وقت گزرتا۔ گرلز ہاسٹل کے پاس واقع باسکٹ بال کورٹ میں باسکٹ بال کھیلنے والے لڑکوں کا رش لگا رہتا ہاکی گراؤنڈ میں کرکٹ اور فٹ بال ، اور فٹ بال گراؤنڈ میں کرکٹ کے کئی مقابلے بیک وقت چل رہے ہوتے۔ آج بھی جب میری ملاقات اس وقت کے طالب علموں سے ہوتی ہے، جن میں سے کئی میرے سینئر اور کئی مجھ سے جونیئر تھے تو اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔

اب صورت حال شائد بدل چکی ہے۔ انٹرنیٹ اور پھر سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ ہماری زندگی کی بہت سی جہتوں پر اثر انداز ہوا ہے۔ اور میں چونکہ کافی عرصہ سوشل میڈیا پر موجود رہا ، لہذا میں یہ بات محض تنقید برائے تنقید نہیں کہہ رہا۔ ہم سوشل میڈیا کے باعث بہت سے لوگوں سے ملاقات کر پاتے ہیں۔ ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور معلومات کا تبدالہ ممکن ہو پاتا ہے۔ مگر اسی سوشل میڈیا نے ہمارے درمیان دوریاں بھی پیدا کر دی ہیں۔ ہم حقیقی زندگی کی نسبت اس مجازی سوشل لائف میں کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گئے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے ایک دوست کو گلہ کرتے سُنا کہ فلاں فیس بک پر آنلائن تھا مگر اس نے برف باری کے دوران کھینچی گئی کسی تصویر پر تبصرہ نہیں کیا تھا۔
سوشل نیٹورکس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے دیگر لوازمات نے بھی ہماری روز مرہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ یو ٹیوب کی مثال لے لیں۔ جب تک یو ٹیوب کو بآسانی استعمال کیا جا سکتا تھا، غالبا اس سے بڑا معلومات کا ذخیرہ کہین اور نہ تھا۔ اب بھی یار لوگ مختلف طور طریقوں سے یو ٹیوب تک رسائی حاصل کرتے رہتے ہیں، مگر وہ مزہ کہاں جو اس پابندی سے پہلے اسے استعمال کرنے میں تھا۔ یو ٹیوب نے موسیقی تک رسائی اور بھی آسان بنا دی ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے پاس موجود موسیقی کے ذخیرے کا بیشتر حصہ یوٹیوب پر موجود موسیقی کی ایم پی تھری شکل میں ہے۔ فائر فاکس، ایک پلگ ان اور لینکس، ان سب نے میرے لئے یو ٹیوب کے کسی بھی وڈیو کو ایم پی تھری شکل میں محفوظ کرنا بہت آسان کر دیا ہے۔ اب شائد مجھے آڈیو کیسٹ نہ خریدنا پڑے۔ اور واقعی کافی عرصہ ہوا مجھے کوئی آڈیو کیسٹ خریدے۔

جدید قسم کے موبائل فونوں نے اب اس موسیقی کو اپنی جیب میں ساتھ پھرانا اور بھی آسان کرڈالا ہے اور جب ہم اس صورت حال کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو پھر اس اخباری رپورٹ میں کیا گیا واویلا کچھ کچھ درست نظر آنے لگتا ہے۔
پاکستانی موسیقی کی صنعت کچھ خاص ترقی یافتہ تو تھی نہیں، پاپ موسیقی نے کچھ عرصہ شور ڈالے رکھا۔ اور اب شائد وہ بھی ختم ہونے کو ہے۔ جنید جمشید کو توبہ کئے کافی عرصہ ہو گیا۔ گزشتہ دنوں شیراز اپل نے بھی تائب ہونے کا اعلان کیا۔ ابرارالحق نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سہارا ٹرسٹ کے زیر انتظام ایک ہسپتال بنایا تو شہزاد روئے نے تعلیم کے میدان میں کوششیں شروع کر دیں۔ ظاہر ہے ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم اپنا بھلا سوچے۔ اگر ان سب نے یہ کیا تو بُرا نہیں کیا۔
جب متذکرہ بالا رپورٹ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو کچھ باتیں سامنے آتی ہیں۔ وہ یہ کہ کیسٹ انڈسٹری چرائے گئے میوزک کو فروخت کر کے اپنا پیٹ بھرتی تھی۔ دوسرا یہ کہ کیسٹ انڈسٹری نئے گلوکاروں کی تشہیر، ان کے کام کو سامنے لانے میں کافی متحرک تھی ، اور کیوں نہ ہوتی کہ ان کے کام سے انڈسٹری ہی کو فائدہ ہوتا۔ لہذا جب تک عوام ان کے محتاج تھے، ان کا کام چلتا رہا۔ جیسے ہی ان پر انحصار ختم ہوا، ان کا کاروبار خراب ہونے لگا۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ پر ویز مشرف دور میں ہوئی کسی قسم کی قانون سازی نے انڈسٹری کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔ شائد کسی حد تک ایسا ہوا بھی ہو ، مگر میرا خیال ہے کہ انڈسٹری کو نقصان موسیقی تک پہنچ کے متبادل ذرائع نے پہنچایا ہے۔
یہ نقصان صرف پاکستان میں نہیں ہوا بلکہ ساری دنیا میں اس کے اثرات محسوس کئے جا رہے ہیں۔ کاپی رائٹ قوانین کی خلاف ورزی کے نام پر بڑی مشہور ویب سائٹیں بند ہوئیں۔ نیپسٹر کا مقدمہ اس سلسلے کی اولین کڑی تھا۔ حال ہی میں میگا اپ لوڈ کی بندش، فائل سانک کی محدود سہولیات اور گیگا پیڈیا وغیرہ کا کام چھوڑ دینا اسی سے مربوط ہیں۔
دیکھا جائے تو میوزک انڈسٹری پر آیا ہوا بحران عالمی نوعیت کا ہے۔ تمام ممالک میں موجود مقامی میوزک انڈسٹری اپنے اپنے طور پر اس بحران کا مقابلہ کر کے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور پاکستان کی میوزک انڈسٹری؟ اگر آپ نے متذکرہ بالا ربط پڑھا ہو تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ پاکستانی انڈسٹری کے کرم فرماؤں کی سوچ کیا ہے۔
“رعایتی فیس” ایک ایسے طرز فکر کا نام ہے جس میں اس سوچ کا حامل طبقہ اپنی محنت کی کمائی کھانے کی بجائے بھیک مانگ کر زندہ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ ایسی موسیقی ترتیب دی جائے کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں، موسیقار اپیلیں کر رہے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے اور ان کو ٹی وی پر مناسب وقت دیا جائے۔ ملاحظہ ہو اس رپورٹ میں سے ایک اقتباس:

فنکاروں نے پرائیویٹ ٹی وی چینلز سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستانی میوزک کوبچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اورصرف نیوز انڈسٹری کو فلم انڈسٹری کا درجہ نہ دیں۔پرائیویٹ سیکٹر کو پاکستانی میوزک کے لئے سلاٹ (وقت) اور ایسی پروگرامنگ کرنا چاہیے جس سے میوزک زندہ رہ سکے ۔

یہ سادہ دل لوگ یہ نہیں جانتے کہ ٹی وی پر وہی دکھایا جاتا ہے جس کی کمرشل ویلیو ہو۔ اپیلیں کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ محنت کر لی جائے۔

1 thought on “رعایتی فیس”

  1. ایک چیز جب مفت میں دست یاب ہو اور غیر قانونی ہونے کے باوجود کوئی پکڑ دھکڑ نہ ہو تو پھر اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے، اور پھر ہمارے ہاں تو پائریسی کا یہ حال ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔۔۔ ونڈوز آپریٹنگ سسٹم ہی کا استعمال دیکھ لیں۔ پھر مجموعی طور پر معاشی حالات کچھ ایسے ہیں کہ ضروریاتِ زندگی پوری نہیں ہوپاتیں، عیاشیوں پر “خرچا” کیسے کریں۔ ہاں، کراچی میں، میوزک کی بڑی بڑی دکانیں اب بھی نظر آتی ہیں جہاں میوزک سی ڈیز وغیرہ فروخت ہوتی ہیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں