Skip to content

دی گریٹ گیم

صبح جاگنے کے بعد جب حواس قابو آتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے ہی  سہی مگر، میں، جب  بھی ممکن ہو کمپیوٹر پہ حالت حاضرہ سے متعلق اپنے مطلب کی چیزیں ضرور دیکھ لیتا ہوں۔ یہ چیزیں کسی ایک خبر کی صورت میں بھی ہو سکتی ہیں، یا پھر کسی تصویر، بلاگ پوسٹ یا کالم کی صورت میں۔

مکمل غیر جانبدار انسان تو دنیا میں کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ درمیانی جنس کے انسان بھی زنانہ پن دکھاتے ہیں، درمیانہ پن نہیں۔ اس لئے اگر میں کہوں کہ میں بھی بالکل غیر جانبدار نہیں رہ سکتا تو یہ کسی حد تک درست بات ہو گی۔

انتخابات کے عمل سے میں مایوس ہوں۔ میں نے کئی مواقع پر اس مایوسی کا ا ظہار کیا ہے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں تنظیم الاخوان یا حزب التحریر کی طرح نظام خلافت کے چکر میں رہوں۔ میں در اصل ان سب  یعنی جمہوریت یا خلافت یا کچھ اورکے درمیان فیصلہ نہیں کر پایا کہ کس کی مواققت کروں۔ کم از کم مغربی جمہوری نظام تو میری پسندیدہ چیزوں میں نہیں ہے۔

مگر چونکہ ملک میں انتخابات ہو چکے تھے اور نئی حکومت کچھ انقلابی اقدامات اٹھا رہی تھی لہٰذا میں خاموش رہا۔ رموز مملکت خسرواں دانند کے مصداق ان کو اپنا کام کرنے دیا اور میں اپنے کام میں مصروف رہا۔  پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ اس ملک میں امن قائم ہو۔ ہم دوبارہ سے اپنے ملک میں بلا کسی روک ٹوک کے آزادی سے گھوم پھر سکیں اور ہمیں کوئی ڈر نہ ہو۔ مگر یوں لگتا ہے کہ وہ دن اب شائد ہی آ سکیں۔ اللہ نہ کرے !!!۔

آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ایسا لگا کہ شائد اب امن ممکن ہو سکتا ہے۔ مگر میں بھول گیا تھا کہ روس کی زارینہ کیتھرینہ کی وسطی ایشیا کی جانب روسی اثر کے پھیلاؤ کی مہم کے آغاز کے بعد سے جس گریٹ گیم کا آغاز ہوا تھا اس کا اختتام 14 اگست 1947 کو ہرگز نہ تھا۔  نہ ہی 1989 میں اس داستان کا تتمہ لکھ دیا گیا تھا۔ بلکہ یہ تو شطرنج کی مختلف چالیں تھیں  جس کے مہرے عام انسان ہوتے ہیں جن کی اہمیت بادشاہوں کے نزدیک کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اصل چیز سلطنت کا استحکام ہوتا ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس کے بعد کچھ ہی دنوں میں ۔ اس ماہ، یعنی ستمبر 2013 میں،  اپر دیر میں ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا جانے کے بعد پاکستانی فوج  کے ایک میجر جنرل کی ہلاکت ہو گئی۔ آپ اگلے مورچوں کے معائینہ کے بعد بذریعہ سڑک واپس آ رہے تھے کہ سڑک پر مبینہ طور پر دہشت گردوں (انھیں اگر طالبان پڑھا جائے تو آپ کی حب الوطنی متاثر نہیں ہو گی) کی بچھائی گئی ایک بارودی سرنگ سے گاڑی ٹکرا جانے کے بعد ، ہلاک ہو گئے۔ ان کے ساتھ  ہلاک ہونے والوں میں دو اور فوجی اہلکار بھی تھے۔ مجھے تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔  آپ قارئیں میں سے اکثر اس خبر کی تفصیل سے واقف ہوں گے کیونکہ اس واقعے کے بعد مذاکرات کے خلاف ایک رد عمل آنا شروع ہو گیا جس کے بعد حکومت بھی مجبور ہو گئی کہ وہ مذاکرات بارے اپنی سوچ پر نظر ثانی کرے۔

واقعی، ایسا دشمن جو مذاکرات مذاکرات بھی کرے اور اس کے بعد چھپ چھپ کر بزدلوں کی طرح وار کرے، اس سے جنگ کرنا اچھا۔ طاقت کے استعمال سے ان کو دبا دیا جائے تو بہتر۔ دہشت گردوں کی شرائط پر ان سے بات چیت کرنے کا مطلب ریاستی رِٹ کا کمزور ہونا ہے اور ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ مگر ریاستی رِٹ ہے کہاں؟

ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

یہ واقعہ وزیر اعلٰی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کی جانب سے سوات اور مالا کنڈ کے باقی علاقوں سے فوج کی مرحلہ وار واپسی کے اعلان کے ایک روز بعد پیش آیا ہے۔ ابھی ایک ہفتہ قبل ہی اسلام آباد میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں متعلقہ فریقوں اور عسکریت پسندوں کے بعض نمائندوں نے ملک میں امن قائم کرنے کے طریقوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی منتظم سینیٹر حاجی محمد عدیل نے کہا کہ دیر حملے میں جنرل ثناء اللہ اور دیگر فوجی افسران کا قتل قابل مذمت ہے۔ اس حملے سے شورش پسندوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل متاثر ہو گا۔

سینئر وزیر خیبر پختونخواہ اور جماعت اسلامی کے نائب سربراہ سراج الحق نے بھی قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سینئر فوجی افسران کا قتل عسکریت پسندوں کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنے کی سازش لگتی ہے۔

مندرجہ بالا اقتباس کو یہاں سے اخذ کیا گیا۔

 امریکی حکومت کے ڈیجیٹل آوٹ ریچ پرگرام کے ایک ترجمان فواد کی جان سے یہ بیان پیش کیا گیا:

ہماری دلی تعزیت اور نيک دعائيں ان بہادر افسران اور اس سپاہی کے سوگوار خاندانوں اور دوستوں کے ساتھ ہيں جو خیبر پختونخواہ صوبے کے اپر دیر علاقے میں بم دھماکے میں جان بحق ہوئے۔ ہم اس حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہيں۔ یہ واقعی نہايت پریشان کن ہے کہ اس ظالمانہ بم حملے ميں پاک فوج کے بہادر افسران فرض کی راہ ميں جان بحق ہوئے جو ان غير انسانی درندوں کيخلاف ملک کا دفاع کررہےتھے۔ اس طرح کی سفاکانہ کارروائیوں سے ان کا حقيقی سیاہ چہرہ، پراگندہ ذہنیت، اور دہشت گردی سےپاکستان کو لاحق سنگین خطرہ واضح ہوجاتا ہے ۔

پاکستان بھر میں يہ باقاعدگی سے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معصوم عوام کيخلاف کی جانی والی دہشتگرد کارروائیاں واضح طور پر دہشتگردوں کی فساد،قتل اور دھمکیوں کے ذریعے پاکستان ميں اپنے سیاسی طاقت کے حصول کے ایجنڈے اور عزائم کو ظاہر کرتے ہيں ۔ امریکی حکومت ان غير انسانی شدت پسند عناصر کيخلاف پاکستانی افواج کیطرف سے دی گئی زبردست قربانیوں کا دل سے احترام کرتی ہے، جو انسانيت کی تمام حديں پار کرچکے ہيں ۔ ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہيں کہ پاکستانی عوام کے ساتھ ان غیر انسانی درندوں کے خلاف جاری جنگ ميں ان کے ساتھ کھڑے ہیں،جو جان بوجھ کر معصوم لوگوں کو بلامتياز قتل کررہے ہيں۔

مکمل بیان یہاں ملاحظہ کیجئے۔  

دنیا نیوز پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق، مندرجہ ذیل نکتہ قابل غور ہے۔ یہی نکتہ میں نے کہیں اور بھی پڑھا تھا۔

معلوم ہوا ہے کہ میجر جنرل ثناء اللہ نیازی نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سرحدی علاقہ سے واپس آنا تھا لیکن موسم خراب ہونے کے باعث انہیں گاڑی کے ذریعے آنا پڑا اور ان کی گاڑی اس بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی اور وہ حادثہ کا شکار ہو گئے۔

یہ دہشت گرد اتنے تیز ہیں کہ ان کو علم ہو گیا تھا کہ جنرل ثناءاللہ اب ہیلی کاپٹر کے ذریعے نہیں بلکہ براستہ سڑک واپس جائیں گے۔ اور کب جائیں گے اور کس گاڑی میں جائیں گے۔ باقی معانی اور مفاہیم آپ خود نکال سکتے ہیں۔

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے

اگے بڑھنے سے پہلے ایک اور اقتباس مطالعہ کیجئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت2007کے بعد طالبان کی سب سے بڑی کارروائی تھی اس واقعے نے نواز اور فوج کے درمیان تناو پیدا کیا۔میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت نے پاکستانی عوام اور خصوصاًپنجاب میں غم و غصے کی لہر پید اکی۔چرچ حملے نے پاکستانی قوم کو شدید رنجیدہ کردیا ہے،20کروڑ کی آبادی میں صرف دو فی صد عیسائی کمیونٹی ہے لیکن اس سانحے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ان کے ساتھ کھڑی نظر ا ؤئی۔پشاور دھماکے کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ نواز شرف فوج کو شمالی وزیر ستان میں کارروائی کا حکم دیں۔

شائد نواز شریف حکومت کو دباؤ میں لانے کے لئے یہ  حملہ کافی نہیں تھا۔ اس لئے  کچھ دنوں بعد پشاور میں ایک چرچ پر خود کش حملہ کیا گیا۔ اور جس کے نیتجے میں بہت بے گناہ غیر مسلم مارے گئے۔ اس حملے سے جہاں نواز حکومت دباؤ میں آئی کونکہ وزیر اعظم نے امریکہ جانا تھا، وہاں تحریک انصاف کی حکومت بھی دباؤ میں آ گئی۔ کیونکہ عمران خان کافی عرسے سے طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں۔  گویا ایک تیر سے دو شکار۔

ڈھکے چھپے الفاط میں کافی مبصرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ اپر دیر کا حملہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ایک سازش تھی مگر کس کی سازش تھی؟ یہ کوئی نہیں بتا پاتا۔ کیونکہ ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اُس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔  قصہ ختم۔

اب مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ جنگ ہی واحد حل ہے۔ ایسے بدمعاشوں سے جنگ ہونی چاہئے جو ہمارے معصوم ہم وطنوں کو مذہب کے نام پر موت کی نیند سُلا دیتے ہیں۔ یہ ہماری جنگ بن چکی ہے۔ اور اب ہمیں اس جنگ کو لڑنا ہی ہوگا۔

مگر میرے جیسے بزدل اور غیر محب وطن لوگ کیا کریں جب ان کو مندرجہ ذیل قسم کی اخباری رپورٹیں پڑھنے کو ملتی ہیں؟

1stimage2

یہ خبر روزنامہ ایکسپریس کے لاہور ایڈیشن  کے آخری صفحے پر شائع ہوئی ہے۔ آج مورخہ 27 ستمبر 2013 کو۔ روزنامہ امت بھی نہیں کہ یار لوگ اسے سنسنی خیزی کا ایک شاہکار قرار دے کر چھوڑ دیں۔

یہ سب سوچیں، یہ خیالات کی دوڑ ، بقول عمر بنگش، کانسپیریسی پکوڑے ہو سکتے ہیں۔ کیوں نہیں۔ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔  مگر ایک چیز ہوتی ہے پیٹرن ریکگنیشن۔ جس کی مدد سے آپ اندازے لگانے کے قابل ہوتے ہیں۔

پھر ہم نے اخباروں میں پڑھا کہ نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے درمیان نیو یارک میں ملاقات ہونے والی ہے، یا امکان ہے اس ملاقات کا۔  اچھی بات۔ جیو والوں کی امن کی آشا سے قطع نظر، محذ آرائی دونوں ملکوں میں سے کسی بھی ایک کے حق میں مفید نہیں۔ حال آنکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہندو کبھی بھی مسلمان کا فائدہ نہیں چاہے گا۔   بہر حال اس موقع پر ایسا کیا ہو سکتا تھا کہ جس سے مذاکرات ملتوی ہو جائیں؟ انڈین پارلیمنٹ پر حملہ؟؟ نہیں وہ پرانا طریقہ ہے۔ ممبئی حملوں کی طرح کے حملے؟؟ نہیں وہ کچھ زیادہ ہی نمایاں اتفاق ہوگا۔ بہر حال کرنے والوں نے وہی جگہ چُنی جو پہلے سے آزمودہ تھی۔ یعنی مقبوضہ کشمیر۔

مطالعہ کیجئےروزنامہ ایکسپریس لاہور کی شہ سرخی کا، سر دُھنیئے اور مجھے اجازت دیجئے۔

2ndimage12ndimage11

detail

دی گریٹ گیم

1 thought on “دی گریٹ گیم”

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں