Skip to content

داستان گو

غالبا یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا. سرکاری سکول میں اپنے ہم جماعتوں پر ایک ہی لحاظ سے برتری حاصل تھی کہ پڑھائی میں ان سے آگے تھا. اور اس کی وجہ بھی تھی.
ابو نے ہم سب بہن بھائیوں کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر، اپنی زمینیں کسی اور کے حوالے کر کے اس لئے شہروں میں سرکاری ملازمت کے حوالے سے سختیاں جھیل رہے ہیں کہ انھیں ہماری تعلیم کا خیال ہے. اگر ہم نے نہیں پڑھنا تو پھر واپس گاؤں….

الحمدللہ ان کی اولاد نے ان کو پریشان نہیں کیا، سوائے میرے. اپنے علاقے کا نام لوں تو جاننے والے ضرور چونک جائیں گے کہ جہاں مردوں کی تعلیم کا رواج نہیں، وہاں میری بہنوں نے گریجویشن کی. غالبا ہمارا گھرانہ ہمارے علاقے میں واحد گھرانہ ہے جس کی لڑکیوں تک نے گریجویشن کی. لڑکے تو خیر بعد کی بات.

بہر حال، میرا ایک ہم جماعت ہوا کرتا تھا موٹا سا، چرب زبان تو میں شائد نہ کہہ سکوں کہ اس وقت کی یادیں اب دھندلا سی گئی ہیں، مگر بہت بولتا تھا. اور آدھی چھٹی میں تو اس کے بولنے کی رفتار تیز ہو جاتی تھی. آدھی چھٹی میں وہ اپنے دوستوں کے درمیان ایک نمایاں انداز میں بیٹھا کوک یا پیپسی پیتے ہوئے بولتا نظر آتا تھا. اس وقت پیپسی 2 یا تین روپے کی آتی تھی، اور پھر بھی بہت سے لوگ ایک بوتل کا موازنہ ان بہت سی چیزوں سے کرکے جو کہ اسی رقم سے خریدی جا سکتی تھیں، پیپسی نہیں لیتے تھے.
اس کا نام اشفاق تھا. اشفاق کے ساتھ حسن، عظیم، سید آصف ، عمران جو اب آرمی میں لیفٹنٹ کرنل ہوگا، اور دوسرے لڑکے بیٹھا کرتے تھے. سوائے عمران کے باقی سب پشاور کے مقامی تھے، جن کو خاریان بھی کہا جاتا ہے.
مجھے یا د ہے اشفاق بہت اچھا داستان گو تھا. ہر وقت اس کے لبوں پر ایک داستان رہتی تھی جس ما مرکزی کردار اکثر اشفاق خود ہوتا تھا. اور سُننے والے مبہوت بیٹھے اس کے چہرے کو تکے جاتے تھے. داستان میں کسی ڈرامائی موڑ کے داخلے کے ساتھ ہی اس کی آواز بلند ہو جاتی، اس کے ہاتھوں کی حرکت اور تیز ہوجاتی، اور پھر ایک خاص لمحے پر وہ داستان ایسے ختم کرتا کہ ہمارا دل کرتا کہ مسز سادات ، اللہ ان پر رحم کرے بہت اچھی استاد تھیں اسلامیات کی، کبھی بھی کلاس کے لئے نہ آئیں اور ہم یہ داستان سنتے رہیں.

میں اکثر اشفاق سے حسد کرتا. میرے خیال میں وہ بہت خوش قسمت تھا کہ اس کے ساتھ اکثر وہ واقعات پیش آتے جو ہم کہانیوں میں ہیروز کے ساتھ پیش آتے دیکھتے اور کس طرح وہ اپنی ذہانت سے ان کو حل کر کے نکل جاتا. مگر تعلیمی میدان میں معاملہ دوسرا تھا. میں اول آتا، سید آصف دوم اور اسی طرح مدارج گرتے جاتے. اشفاق کا نمبر سب سے آخر میں آتا تھا. مجھے یاد نہیں اس نے پرائمری میں بورڈ کے امتحان میں کتنے نمبر لئے اور پھر کس سکول میں گیا مگر اتنا ضرور علم ہوا کہ اس کی محفل کے باقاعدہ حاضرین میں سے کوئی ٹیکسہی چلاتا ہے، تو کوئی ویلڈنگ کی دکان پہ بیٹھا ہوا ہے.

2003 میں ایک مرتبہ میں پشاور صرف اسی مقصد کے لئے گیا کہ میں اپنے ان دوستوں سے مل سکوں. بہت سوں کے گھروں تک پہنچ گیا، کچھ سے ملاقات ہوئی، کچھ سے نہ ہو سکی اور یوں اشفاق کے بارے میں علم نہ ہو سکا کہ اس کا کیا بنا.
اشفاق کے بعد بہت سے ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور میں نے آہستہ آہستہ محسوس کرنا شروع کیا کہ ان سب کی داستانیں قدرے مشترک ہیں. ان کے تخیل کی اڑان کی اساسی قدریں تو ایک جیس ہی ہیں.
ایک افسانوی ماحول، داستان گو کی ذات اتنی اہم کہ فریق مخالف کے چھکے چھوٹ جائیں، اور بڑی سے بڑی قانون شکنی پر بھی کوئی انھیں کچھ نہ کہہ سکے.

شائد اشفاق نے مجھے اتنا متاءثر کیا تھا کہ میں ہر داستان گو میں اس کی جھلک ڈھونڈنے پر مجبور ہوجاتا تھا.

یہ تو بہت بعد میں علم ہوا کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے. لوگ یہ سب کچھ کسی نفسیاتی گرہ کے زیر اثر کرتے ہیں.
بہت سے لوگ کسی احساس کمتری کے زیر اثر یہ سب کچھ کرتے نظر آتے ہیں. کچھ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لئے، کچھ شائد دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ، اور کچھ نفسیاتی بیمار ہوتے ہیں.

تصویر کا یہ دوسرا پہلو اتنا اچھا نہیں ہے مگر بغور دیکھا جائے تو ہم میں سے بہت کم لوگ حقیقت کو تسلیم کر پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اکثریت حقیقت سے فرار کا کوئی نہ کوئی راستہ نکا ل ہی لیتی ہے. اس فرار کے وقتی فوائد تو بہت اچھے ہوتے ہیں، مگر یہ کامیاب کوشش اکثر ایک ایسی مستقل حالت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے جس میں مریض اپنی کاہلی اور بے عملی پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود دوبارہ خواب دیکھتا رہتا ہے.

اس کا حل ممکن ہے؟ میرا خیال ہے ، ان لوگوں کے علاوہ جو کہ واقعی کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں اور ان کا علاج موجود ہے، اس کا حل قناعت پسندی اور اللہ پر توکل میں ہے. جتنا جلد اگر مریض اس بات کی تہہ کو پا لے کہ دن میں خواب دیکھنے سے نہیں بلکہ مسائل ہاتھ پیر ہلانے سے حل ہو ں گے ، اتنا ہی اچھا ہے.

پس نوشت:: سوائے میرے اور مسز سادات کے، تمام لوگوں کے نام تبدیل کر دئیے گئے ہیں.

11 thoughts on “داستان گو”

  1. ميں اشفاق اور ديگر اشفاقيوں کی حالت کی ايک وجہ اور بھی سمجھتی ہوں کہ ہر بچے کو گھر ميں شروع سے ہی ہمارا بيٹا سب سے اعلی ہمارا بيٹا تو پائلٹ بنے گا ڈاکٹر بنے گا سکھايا جاتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو سپرمين ٹائپ چيز سمجھنے لگتے ہيں اور سب سے ذيادہ سپر مين ادھر پائے جاتے ہيں جس کو ارض پاک پاکستان آکھتے ہيں خوشی ہوئی آپ کے ابا کی سوچ لبرل تھی آپ ان کے جيسے کيوں نہيں؟
    .-= پھپھے کٹنی´s last blog ..180 ڈگری =-.

  2. وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن اس تحریر کا شان نزول سمجھ نہیں‌ آسکا۔

    ایک اور بات۔۔
    نیچے کوڈ لگانے کا مسئلہ ہے۔ اگر بغیر لگائے غلطی سے “شائع کریں” کا بٹن دبا دیں تو لکھا ہوا سب صاف ہو جاتا ہے اور نئے سرے سے لکھنا پڑتا ہے۔ اسکا کچھ کریں۔
    .-= عثمان´s last blog ..ہوزے ساراماگو۔۔۔ایک عہد کا خاتمہ! =-.

  3. کیا آپ ابھی تک اشفاق سے جیلسی محسوس کرتے ہیں؟ اگر آپ اشفاق کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجاتے اور آپ کو پتہ چلتا کہ اشفاق ایک بہت کامیاب زندگی گزار رہا ہے اور ابھی بھی اس کی داستانیں ایسی ہی دلچسپ ہیں تو پھر آپ کیسا محسوس کرتے؟ کیا آپ کو احساس کمتری محسوس ہوتا تھا کہ آپ اشفاق جیسے مقبول اور دلچسپ نہیں؟

  4. تو اب نیٹ پر بہت سارے اشفاقوں کی اشفاقیاں پڑھ تو رہے ہیں۔امید ہے پرانی یادیں تازہ ھو جاتی ھوں گی اور پرانے دوست یاد نہ آتے ھوں گے۔ویسے نفسیاتی مرض والی بات سوفیصد درست ھے۔
    .-= یاسر خوامخواہ جاپانی´s last blog ..کوا چلا ہنس کی چال =-.

  5. پھپھے کٹنی:: میرے ابا لبرل ہیں‌تبھی تو انھوں نے ہمیں زبردستی لبرل نہیں‌بنایا۔ اپنی اپنی سوچ بنانے کی آزادی دی۔

    میرا پاکستان:: میرے خیال میں احساس کمتری سے زیادہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش زیادہ کارفرما نظر آ تی ہے۔

    عثمان:: کوڈ لگانے کی بدعت ڈفر نے شروع کی تھی۔ آپ کو جتنی تکلیف ہوئی ، اس کی کچھ ذمہ دادی ڈفر پر بھی جائے گی۔ یہ صرف سپیم کمنٹ روکنے کے لئے ہے۔ میں‌معذرت خواہ ہوں‌آپ کو پریشانی ہوئی۔
    اس تحریر کا شان نزول کچھ یوں‌ہے کہ میٹرک کے زمانے کے دوستوں سے ملاقات ہو گئی تھی اور ہم نے دل کھول کر اپنے کلاس فیلوز کو یاد کیا تھا۔ بس وہیں یہ دوست بھی یاد آ گئے۔
    🙁

    نعمان:: 1: جی نہیں۔ اب نہیں، اب مجھے بھی کچھ کچھ داستان گوئی کا سلیقہ آ گیا ہے۔
    😛
    2: میں کچھ کہہ نہیں‌سکتا میرا رد عمل کیا ہوتا۔ شائد مجھے مایوسی ہوتی۔ شائد میں اسے مبارکباد دیتا اور اس کی خوشی کو اپنی خوشی جانتا۔
    3: در اصل اشفاق کو جتنی توجہ ملتی تھی، اور وہ جتنا مقبول تھا، میں‌اس کا کچھ بھی نہیں‌تھا۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ کیا آپ نہیں‌چاہیں گے کہ آپ کی تعریف کی جائے، لوگ آپ کے گرد بیٹھے آپ کے اقوال زریں‌سنتے رہیں اور یوں وقت داد و تحسین میں‌گزرتا جائے؟

    یاسر ::‌ 🙁

  6. داستان گو عام طور پر عملی زندگی ميں کامياب نہيں ہوا کرتے تھے ليکن پچھلی تين دہائيوں سے ديکھ رہا ہوں کہ جو باتيں بہت اور برمحل بناتے ہيں مگر کام کچھ نہيں کرتے وہ ہر ادارے ميں ترقی بلکہ تيز ترقی پاتے ہيں چاہے اُن کی ہر بات من گھڑت يا جھوٹ ہو ۔ ہمارے سياستدانوں کو ديکھئے ۔ صحافيوں کو ديکھئے ۔ سرکاری دفاتر ميں جا کر ديکھئے ۔ ايسے ہی لوگ بہت اُونچی جگہ نظر آئيں گے ۔ ليکن آپ کا اندازہ بالکل درست ہے کہ عملی دنيا ميں ايسے لوگ کچھ نہيں کرتے سوائے اپنے خود تعريفی کے ۔ ايسے لوگوں کا اُوپر چڑھ جانا صرف ناکام قوموں ميں ممکن ہوتا ہے ۔ آپ موجودہ حالات پر پريشان رہتے ہيں ۔ آج آپ نے خود ہی اس کی وجہ بيان کر دی ہے
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..لطيفے شعبہ انجنئرنگ کے =-.

  7. ایک ایسی ہی شخصیت سے میری بھی جان پہچان ہے۔۔۔
    اور وہ آج بھی وہیں ہے، جہاں‌آج سے بیس سال پہلے تھا۔۔۔
    اور آج بھی وہی باتیں سناتا ہے
    جو ہمیں سناتا تھا
    تو مورل آف دی سٹوری میرا بھی تقریبا وہی ہے، جو آپ نے برآمد کیا ہے۔۔۔۔
    .-= جعفر´s last blog ..فوٹوسٹیٹی دانش =-.

  8. بہت خوب تحریر۔ میں نے دیکھا ہے کچھ لوگ جو اپنے ارد گرد کے لوگوں کے مقابلے میں خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں، وہ اس حکمت عملی کو اپنا لیتے ہیں اور پھر ۔۔۔۔۔ سب کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ احساس برتری دراصل احساس کمتری کی بدترین شکل ہے۔

  9. ڈفر – DuFFeR: جاپانی صاحب خوامخواہ ہی اتنی اچھی اور سچی بات کر گئے ہیں
    جس کا کسی نے نوٹس ہی نہیں‌لیا

    اس پہ زیادہ زور نہ دیں، بڑے بڑے پردہ نشین رگیدے جائیں گے۔
    آہو۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں