معروف صحافی سلیم صافی نے اپنے تاثرات کو پچھلے دنوں یوں بیان کیا:
میرا مؤقف شروع سے کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ مگر نقار خانے میں شور ہی اتنا رہتا ہے کہ کوئی سُن نہیںپاتا۔
میں نے خیبر پختونخوا ، ہزارہ کے عنوان تلے اپنے گزشتہ مراسلات میںسے ایک میں یہ خڈشہ ظاہر کیا تھا کہ 12 اپریل کو ایبٹ آباد میں ہونے والے سانحے کی ذمہ دار مسلم لیگ ق ہے اور اس پارٹی کی مہم کا ایک ہی مقصد ہے ، وہ یہ کہ مسلم لیگ ن کو سیاسی زک پہنچائی جائے۔ اب تک کے حالات سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ کافی حد تک کامیاب بھی وہ چکے ہیں، مگر سلیم صافی کا متذکرہ بالا کالم پڑھ کر خوشی ہوئی کہ اور لوگ بھی ہیںجو غیر جذباتی انداز میںسوچتے ہیں۔
میرے ان خیالات پر میرے ایک بہت ہی عزیز اور مہربان سینئر ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے باقاعدہ قطع تعلق کا اعلان بھی کر دیا ۔ اور وہ اب بھی اس پر قائم ہیں۔
بہر حال، سلیم صافی کے کالم کی باز گشت ایک مقامی اخبار میں 17 مئی 2010 کی اشاعت میں مجھے نظر آئی اور اس کی ویب سائٹ سے میںان خبروںکی تصاویر لے کر آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ بہت دلچسپ خبریںہیں۔
تھیم پر مکمل عبور نہ ہونے کی وجہ سے شائد متن اور تصاویر گڈ مڈ ہو جائیں۔ اس کے لئے معذرت۔
ایک خبر جو اخبار کے پہلے صٍحے پر تھی:
اخبار کا اداریہ جو اسی تاریخ کے اخبار میںشامل تھا، براہ مہربانی اسے غور سے پڑھیں: اسے مکمل پڑھنے کے لئے اس تصویر کو دایاںکلک کر کے اپنے کمپیوٹر پر اتار لیں۔
سلیم صافی کے کالم کی ایک ملفوف تردید جو اخبار کے آخری صفحے پر تھی:
سلیم صافی کے کالم، اور اخبار سے لی گئی ان تصاویر سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ صؤبہ ہزارہ کی تحریک ایک جلد بازی میںکیا گیا فیصلہ تھا۔ عوام کے لمحاتی رد عمل کو لے ایک ایسا فیصلہ کیا گیا جس پر عمل بہت مشکل ہے۔ مسلم لیگ ق کی سیاسی پوائینٹ سکورنگ تو ہو گئی، اب کیا ہوگا؟ نتیجہ یہ ہے کہ مناسب لائحہ عمل نہ ہونے کی صورت میںاور پیش بندی کے فقدان نے یہ دن دکھا دئے ہیںکہ اب ہر ایک دھڑا اپنی تحریک ہزارہ صوبہ چلانے کے چکر میںہے۔ اور عام لوگ اپنی نوکری مزدوری کو بھول کر ان کی لفاظی میں آرہے ہیں۔
اللہ ہمارے حال پہ رحم کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایوب فیملی کب اس تحریک سے جان چھڑاتی ہے، کیونکہ یہ معاملہ لمبا ہی ہوتا چلا نظر آ رہا ہے۔
اور ایک خاص خبر::
یہ تحریک متحدہ پاکستان کے آخری دنوںمیںکافی عروج پر تھی، اور مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد اس کے ایک رہنما ،جن کا نام داؤد شاہ تھا اور وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے ساتھی بھی تھے، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور کوہستان کے علاقوں میںیہ تحریک کافی زور و شور سے چلائی تھی۔ ان کے بعد یہ تحریک پر اسرار طور پر خاموش ہوگئی۔ واضح رہے کہ سوات میں گوجروںکی تعداد بہت زیادہ ہے اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیںکہ والئی سوات کا تعلق بھی ایک گوجر خاندان سے تھا۔ اس تحریک کے نزدیک صوبہ گوجرستان کا صدر مقام مینگورہ ہوتا جو کہ آج کل سوات کا ایک بڑا شہر ہے۔
دیکھئے اب اور کونسے گڑے مردے اکھاڑ کر عوام کو مصروف رکھنے کے لئے ان کے سپرد کئے جاتے ہیں۔
ہمارے صرف سياستدان ہی مداری نہيں صحافی بھی مداری ہيں اور دفتروں ميں بيٹھے بہت سے افسران بھی ۔ ورنہ مُلک کا يہ حال نہ ہوتا جو اب ديکھ رہے ہيں ۔ انگريزوں اور بھارت کی تمام زيادتيوں کے باوجود اچھا خاصہ خود کفيل ملک تھا 1965ء تک ۔ 1980ء ميں پھر ايک بار کروٹ لے کر اُبھرا تھا
.-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..ڈرامہ اور حقيقت =-.
Comments are closed.