Skip to content

خیبر پختونخوا، ہزارہ ، کچھ بھی نہیں۔

تقریبا اس سے ملتے جلتے عنوان کے تحت میں نے گزشتہ مراسلے میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ کل وہی ہوا۔

مسلم لیگ نواز نے صوبہ ہزارہ تحریک سے متعلق بحث کے لئے ایک کنونشن بلا رکھا تھا۔ کل اسی جگہ اور اسی مقام پر اسی وقت مسلم لیگ ق نے بھی جلسے کا اعلان کر دیا۔

یہاں عمومی طور پر نواز شریف کا ووٹ بینک ہے، مگر نواز شریف کی پالیسی سے اس مرتبہ یہ لوگ متفق نہ ہوئے اور اکثر کی یہ سوچ تھی کہ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے لئے ہزارہ کے عوام کو بیچ ڈالا ہے۔ اس صورت حال پر کئی سیاسی جماعتوں کی نظر تھی۔ مسلم لیگ ق نے تو غالبا کچھ دن پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ ہزارہ میں تحریک چلائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گھاگ سیاستدانوں نے عوام کی نبض پہ ہاتھ رکھ کر اس تحریک کو وقتی طور پر قیادت فراہم کر دی۔
ہزارہ قومی محاذ کے نام سے ایک تحریک کافی عرصے چلتی رہی ہے۔ اس تحریک کے اہم رہنما آصف ملک ایڈووکیٹ مرحوم آخر اللہ کو پیارے ہو گئے مگر ہزارہ صوبہ نہ بنوا سکے۔ اس مرتبہ ہزارہ صوبہ تحریک کی قیادت جن سیاست دانوں نے کی ان میں بابا حیدر زمان جو کہ ایبٹ آباد ضلع کی سابق ناظم رہے، مسلم لیگ ق کے مشتاق غنی، ڈاکٹر اظہر جدون جو ایک میڈیکل کالج چلا رہے ہیں اور سیاسی میدان میں کافی جان پہچان رکھتے ہیں، اور دوسرے لیڈران اور وہ لوگ جو گزشتہ انتخابات میں شکست خوردہ تھے، کر رہے تھے۔ ان سب لوگوں کو انتخابات میں مسترد کیا جاچکا تھا، مگر اس تحریک میں شامل ہو کر انھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں کچھ جان ڈال دی۔

حکومت کے بقول مسلم لیگ ق کے جلسہ کےعزائم کا علم ہونے کے بعد دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی گئی تھی اور امس کا اعلان بھی باقاعدہ طور پر کردیا تھا۔ اس کے باوجود بھی یہ لوگ صبح فوارہ چوک پر جمع ہوئے۔ اب کیا ہوا، یہ بات تو کوئی عینی شاہد ہی بتا سکتا ہے، مگر ۱۲ بجے دن کے آس پاس ہمیں اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی ہے۔ اس کے بعد توحالات گویا خرابی کی طرف بڑھتے ہی چلے گئے۔ یہ سطور لکھتے وقت بھی، فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔

۷ قیمتی جانوں کے ضیاع کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ ان ہلاکتوں سے بچا جا سکتا تھا اگر سیاسی قائدین بصیرت کا مظاہرہ کرتے، اگر لوگوں کو اشتعال دلا کر قانون کی خلاف ورزی پر نہ اکسایا جاتا۔ مگر مسلم لیگ ن کو نیچا دکھانے کی ضد نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ صد افسوس۔

مجھے موقع ملنے پر باہر سڑک پر جتنے بھی لوگ نظر آئے وہ سب نوجوان تھے اور یہ لوگ سڑک کے آس پاس لگے بینروں کو پھاڑ پھاڑ کر آگ لگا رہے تھے۔ ان سب نوجوانوں کی کوئی قیادت مجھے نظر نہ آئی، البتہ مقصد ان سب کا ایک ہی تھا: جتنی زیادہ توڑ پھوڑ ہوسکے کرو۔ جتنا نقصان ہو سکے کرو۔ ظاہر ہے ایک ہجوم اگر مشتعل ہو جائے تو پھر اس کو قابو میں نہیں لایا جا سکتا۔ شہر میں حالات خراب ہوئے تو سارے سیاست دان غائب ہو گئے، غالبا بابا حیدر زمان کو گھر پہ نظر بند کیا گیا اور پھر ہجوم کو گویا کھلی چھٹی مل گئی۔ ابھی تک تو حالات ایسے ہیں کہ ہجوم کی توجہ سڑک بند کرنے، چھوٹی موٹی چیزوں، ٹائروں کو آگ لگانے پر ہے مگر ہمارے کچھ سیاست دانوں اور خصوصا مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات آئے کہ وہ جلتی پہ تیل ڈالنے کے مترادف تھے۔ مثلا عمر ایوب خان نے کہا کہ چارسدہ سے پولیس بلوا کر ہزارہ کے عوم پر گولی چلوائی گئی۔ کیونکہ یہا ں کی پولیس نے گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح کا بیان یوسف ایوب نے دیا، اور سینیٹر الیاس بلور نے جاوید چوہدری کے پروگرام میں غیر ذمہ داری کی حد کر دی جب ان کے منہ سے نکلا کہ چار آدمی مر گئے ہیں تو کیا قیا مت آ گئی ہے؟ شکر ہے کسی نے ان بیانات پر بظاہر توجہ نہیں دی، مگر اگر کوئی ان پر عمل کرنے کی ٹھان لے تو؟ بدترین خدشات بھی لسانی فسادات کو رد نہیں کرتے۔ جس طریقے سے پشاور جانے والی کوچوں کے اڈے کو آگ لگائی گئی اور مسافروں کو کہا گیا کہ کوئی پشاور نہیں جائے گا، مجھے ڈر لگتا ہے کہیں لسانی فسادات نہ شروع ہوجائیں۔

میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان سیاست دانوں کو ہدایت دے، اور اگر ہو سکے تو ان کو اور ڈھیل نہ دے۔

عوام کا غصہ اپنی جگہ پر۔ اپنی آواز نہ سنے جانے پر ان کی فرسٹریش جائز ہے، مگر ایسا بھی کیا کہ لوگ توڑ پھوڑ پر اتر آئیں۔؟ مجھے حیرت ہوئی جب امیر مقام جیسے سیاست دان اور مانسہرہ سے سردار محمد یوسف جیسے سیاست دان ہزارہ صوبہ کے حق میں بولتے نظر آئے اور تو اور سردار یوسف صاحب تو ننظریہ پاکستان کو اپنی دلیل کے طور پر لے آئے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہزارہ کے پانچ میں سے تین اضلاع میں پختون اکثریت میں ہیں۔

ان سیاست دانوں نے اپنے دور میں کچھ بھی نہیں کیا اور ان دس دنوں میں ایبٹ آباد میں آگ لگا کے رکھ دی۔ اب حالات ان سیاستدانوں کے کنٹرول سے نکلتے نظر آ رپے ہیں۔ ایک مرتبہ جب ہجوم بپھر جائے تو اسے سنبھالنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ان سیاست دانوں نے مسلم لیگ ن کو نیچا دکھانے کے لئے ایک فطری احتجاج کو استعمال کر کے جو آگ لگائی ہے، جانے وہ کتنی جانوں کا نذرانہ لے کر بجھے؟

میری اللہ سے دعا ہے کہ کوئی ایک انسان دا پتربھیجے جو اس آگ پر پانی ڈالنے کی ابتدا کرے۔

3 thoughts on “خیبر پختونخوا، ہزارہ ، کچھ بھی نہیں۔”

  1. دراصل یہ وہ مسائل ہیں جن پر ہمارے سیاستدانوں نے اپنی دکان چمکانی ہے ورنہ یہ سب معاملات اس قدر اہم نہیں ہیں۔ پھر نسل پرستی کے نام پر کب تک ہم تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے رہیں گے۔

  2. کل کی حکمومت آج کی اپوزیشن، آج کی حکومت کل کی اپوزیشن۔
    بے ضمیر سیاستدان ہمیشہ اپنی بندوق چلانے کے لیے عوام کے کاندھے ہی تو استعمال کرتے ہیں۔ یہی کچھ ہوتا رہا اور آئندہ بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں