Skip to content

خیبر پختونخواہ، ہزارہ یا پھر کچھ نہیں۔

آئین میں اٹھارویں ترمیم پر اتفاق رائے کے بعد جہاں بہت سے حلقوں میں شادیانے بج رہے ہیں وہاں بہت سے اندیشے بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

میں پاکستان کے آئین پر عبور نہیں رکھتا، اور نہ ہی ان ترامیم کی باریکیوں سے آگاہ ہوں۔ مجھے علم نہیں ملک و قوم کا وسیع تر مفاد اس قسم کی ترامیم سے کیسے وابستہ رہ سکتا ہے اور میں نہیں جانتا ، صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا یا پختونستان رکھنے سے ہمارے مسائل حل ہونگے بھی یا نہیں، مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ اب متحدہ پاکستان کے بچے کھچے دن ہیں۔

میرے خیال میں اٹھارویں ترمیم کو صوبے کے نام سے نتھی کرنے کی بجائے ، اس معاملے کو بعد کے لئے بھی چھوڑا جا سکتا تھا۔ مگر شائد سیاسی معاملات اتنا انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ میں ہزارہ سے تعلق رکھنے والا ایسا پختون ہوں جس کا ڈومیسائل ہزارہ کا ہے، اور وہ ہزارہ میں بسنے والے دیگر اکثر باشندوں کی طرح دو زبانیں بول سکتا ہے۔ زبان کا مسئلہ ہمارے لئے کبھی اتنا اہم نہیں رہا۔ بلکہ ہزارہ سے تعلق رکھنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ اکثر ایسا ہوا کہ سوال کنندہ نے ہندکو میں کوئی سوال پوچھا اور جواب پشتو میں ملا۔ اور دونوں خوش۔

اب شائد وہ دن نہیں رہے۔ پرسوں سے آج تک جو کچھ میں نے دیکھا، اس کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ امن و آشتی کی مثال ہمارا ضلع اب شائد اتنا پرسکوں نہ رہے۔

صوبہ سرحد کے لئے نام کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔ باچا خان تو شائد پاکستانی سرزمین سے اتنا نفرت کرتے تھے کہ وہ جا کے جلال آباد میں دفن ہوئے۔ میرے خیال میں اے این پی کا خیال تھا کہ نام تو شائد نہ بدلے، کیوں نہ اسی بہانے سیاست کی جائے۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ ہر ایک سیاسی جماعت نے ایسے ایسے دل نشیں وعدے تراش رکھے ہیں کہ اول تو ان کا پورا ہونا ممکن نہیں اور ہو بھی جائے تو کام نہ کرنے کے بہانے بہت ہیں۔

اکثر لسانی جماعتیں احساس محرومی جگا کر سیاست کرتی رہی ہیں۔ اے این پی ہے تو پختون اور پختونستان ، اور تربیلا ڈیم کی رائلٹی کے قصوں کو لے کر بیٹھی رہی۔ ایم کیو ایم ہے تو اسے اپنے قیام کے بعد تقریبا تمام عرصہ اردو بولنے والوں کے احساس محرومی کا غم کھائے جاتا رہا۔ اور اسی بل بوتے پر اس نے لاشوں کی سیاست کی۔ میرے کئی رشتہ دار اسی پٹھان-مہاجر کشمکش کا شکار ہو کر اب اپنی قبرو٘ں میں پڑے ہیں۔

بلوچ قوم پرست ہوں یا سندھی قوم پرست، سب اپنی قوم کا احساس محرومی نشان زد کر کے دوسرون کے استحصال کو جائز قرار دیتے ہیں۔

اس سب کا حاصل کیا ہوا بجز بے گناہوں کی موت کے؟

اور اب یہ نیا ڈرامہ خیبر پختون خوا کے نام سے۔ مجھے یاد ہے جب سرحد اسمبلی میں پختونخوا کی قرارداد منظور ہوئی تھی، تو اے این پی نے ایبٹ آباد کے جلال بابا آڈیٹوریم میں ایک تقریب منعقد کی۔ اس تقریب میں بلور صاحب آپے سے اتنے باہر ہوئے کہ وہ یہ فراموش کر گئے کہ وہ کہاں کھڑے کیا بکواس کر رہے ہیں۔ اس پر کافی سخت عوامی رد عمل ہوا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اس بار بھی کہیں یہ بے وقوف لوگ کوئی ایسی بات نہ کر جائیں۔

مگر بے وقوف اگر بے وقوفی نہ کرے تو کیا کرے؟ یا تو اے این پی کے رہنماوں کو ضلع ہزارہ کے عوامی رد عمل کا اندازہ نہیں تھا، یا پھر وہ اس کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے تھے یا پھر یہ رہنما اتنے سخت متعصب پختون ہیں، کہ انھوں نے اعلان کر دیا کہ پورے صوبہ میں ایف ایس سی تک پشتو ایک لازمی مضمون ہو گا۔ اور پانچوین جماعت تک تمام مضامین پشتو میں ہوں گے۔

ظاہر ہے اس اعلان نے لوگوں کی باہمی کدورتیں اور بھی بڑھانی تھیں۔ اس پر ایبٹ آباد ، مانسہرہ اور ہری پور کے علاقوں میں زدید رد عمل ہوا۔ پرسوں مجھے بتایا گیا کہ نوشہرہ میں بھی خیبر پختونخوا کے خلاف ایک جلوس نکلا اور بہت سے لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ خیبر پختون خوا صرف چارسدہ اور مردان کے اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کی ضد پورے صوبہ پر مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ اس بات سے تو میں متفق ہوں۔

پرسوں ایبٹ آباد کی تاریخ کی سب سے متحد اور کامیاب پہیہ جام ہڑتال ہوئی۔ ہمارے ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی تو مجھے نظر نہیں آئے ، البتہ لوگوں کے جارحانہ مزاج سے اندازہ ہو گیا کہ اس صورت حال کو ایک انقلابی قدم ہی بگڑنے سے بچا سکتا ہے، اور یہ انقلابی قدم ہمارے موجودہ بونے، سیاستدانوں سے نہیں اٹھا یا جا سکتا جن کی اکثریت صرف پیسے کمانے کے لئے ایوان میں بیٹھی ہے۔

پرسوں، کامسیٹس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پشتو بولنے والے طلبا سے کسی نے بد تمیزی کی اور انھوں نے بھی اسی سختی سے جواب دیا۔ بات آج اور بگڑی اور آج ان کے ہاسٹل کے آس پاس کافی ہنگامہ رہا عمارتوں کے شیشے توڑے گئے، آگ لگانے کی کوشش کی گئی تو پولیس بلوائی گئی۔ آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے اور ہوائی فائرنگ ہوئی۔

میں نے اپنی زندگی میں ایبٹ آباد میں ایسی ہڑتال نہیں دیکھی جو ان تین دنوں مین دو مرتبہ ہوئی۔ ایبٹ آباد جیسے پر امن شہر میں اگر ایسی ہڑتال ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حالات کافی سنگین ہیں۔

اگر اب بھی سیاستدانوں نے صورتحال کو قابو میں لانے کو شش نہ کی تو مجھے ڈر ہے کہ اب لسانی فسادات شروع ہو جائیں گے۔ ہزارہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد وہاں اکثر ایسے فسادات ہوئے ہیں جن میں پختون اور غیر پختون کی آواز لگی۔ اللہ نہ کرے ویسے فسادات اب شہروں میں ہونے لگیں۔

پختون خوا کے حامی اگر اسی عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کر تے رہے تو، مجھے ڈر ہے، کہ کل کو کہیں انھیں پاکستان میں گزارے گئے اپنے اچھے دنوں کو یاد کر کے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر افسوس نہ کرنا پڑے۔

مگر مجھے ان رہنماوں سے اتنی عقل کی بھی توقع نہیں۔ اگر یہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے والے ہوتے تو آج یہ سب کچھ نہ دیکھنا پڑتا۔

15 thoughts on “خیبر پختونخواہ، ہزارہ یا پھر کچھ نہیں۔”

  1. خدا ہمارے حکمرانوں کو عقل دے، اور ہمیں لسانی و عصبی نفرت سے بچا کر رکھے۔

    سرحد کے رہائشی ہونے کی بناء پر آپ کی رائے سب سے ذیادہ اہم اور قابل توجہ ہے۔

  2. پہلے سرحد کا کوئی نام نہیں تھا، مطلب شمال مغربی سرحدی، یہ تو اس کا محل وقوع ہوا، لیکن اب اسے ایک نام دے دیا گیا ہے، اس پر اعتراض کیوں، کیا صوبے کا نام تبدیل ہوجانے سے کوئی فرق پڑتا ہے، کیا اس سے ان لوگوں کو انصاف ملنے لگے گا جن کو پہلے نہیں ملتا۔ میری سمجھ میں تو کسی کی منطق نہیں آ رہی۔

  3. صوبے کا نام رکھنا اور بدلنا ایک عمل ہے اور مناسب طرح کیا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن بطور رہائشی آپ کے تاثرات نا صرف یہ کہ بہت اہم ہیں بلکہ ان کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔ لسانی بنیادوں پر اس طور اس وقت تقسیم نا سمجھ میں آنے والے بات ہے لیکن جن لوگوں کے ماضی، حال اور مستقبل کی بہتری پاکستان سے وابستہ نہیں ان سے پاکستان کی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی وہ ڈیم سے لے کر نام تک کے تمام معاملات اسی طرح‌ کریں گے۔

  4. آپ کی جاندار تحریر پڑھ کر آپ کی تائید کیے بناں ہم نہیں‌‌ رہ سکیں گے۔ آپ کی باتیں سو فیصد سچ لگتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمرانوں کو کب عقل آتی ہے۔

  5. میں بھی سرحد کا رہنے والا ہوں میرا خیال ہےکہ اے این پی کی سیاسی جدوجہد کو ایک منزل مل گئی ہے یہ پارٹی کبھی بھی پاکستان کی خیر خواہ یا وفادار نہیں رہی،
    ہمییشہ سے غیرملکی ایجنڈے کو پروان چڑھانےکی کوشش کی، اور صوبہ سرحد کے کچھ علاقے کو افغانستان کا قرار دینا اس پارٹی کا شیوہ رہا ہے
    سیماؤوں کے حوالے سے اس پارٹی نے بہت “شہرت” کمائی ہے اور آج اسی کا پھل حاصل کررہی ہے
    ان کی جڑیں افغانستان اور اس سے کہیں زیادہ ہندوستان میں پائی جاتی ہیں جو کبھی بھی پاکستان کے دوست نہیں رہے

  6. میں ان لوگوں میں سے ہوں جو صوبہ سرحد کے ایک مناسب نام ہونے کے حق میں رہے ہیں۔ لیکنلسانی بنیادوں پہ نام رکھنا مزید نفرتوں کو جنم دیگا۔ اس سے پہلے بھٹو نے اسی قسم کاکام سندھ میں کیا۔ سندھ میں جان بوجھ کر شہری اور دیہی سندھ کی تقسیم کی گئ۔ شہری سندھ میں کراچی اور حیدرآباد آگئے اور باقی سندھ دیہی میں چلاگیا۔ بالکل صاف نظر آرہا تھا کہ یہ تقسیم لسانی بنیادوں پہ کی گئ ہے۔ اور وہ علاقے جہاں مہاجروں کی اکثریت تھی۔ انہیں مراعات یافتہ علاقہ قرار دیکر انکے حقوق میں کمی کر کے کوٹہ سسٹم کا کالا قانون نافذ کیا گیا۔ اور یوں ایک نیشنلسٹ ہونے کا ثبوت دینے کے لءے وفاقی عہدوں سے لیکر صوبائ عہدوں تک ترجیحی کوٹہ دیہی علاقے یعنی سندھیوں کا آجات۔ جبکہ شہروں میں رہائش پذیر سندھیوں کے پاس دیہی علاقوں کے ڈومیسائل تو ہوتے ہی تھے۔ یوں کراچی پولیس میں ، کراچی کے نوجواں کے بجائے اکثریت باہر کے لوگوں کی ہوتی جو صرف دھندہ پانی کرنے آتے ہیں انہیں یہاں امن و امان قائم کرنے میں کیا دلچسپی۔ اسی طرح ایک وقت ایسا تھآ کہ کراچی کے کسی گورنمنٹ کے ادارے میں چلے جائیں تو وہاں ایک بالکل مختلف صورت ہوتی تھی اور لدتا ہی نہیں تھا کہ ہم کراچی میں موجود ہیں۔
    انہی بھٹو صاحب نے سندحی کو صوبائ زبان دینے کی کوشش کی اتنے ہنگامے ہوئے کہ آج بھی شہدائے اردو زبان کے نام پہ اردو چوک موجود ہے۔یہ شاید ابتدائ ستر کی دھائ کا واقعہ ہے۔ تھوڑی تلاش بسیا کے بعد اس پہ اخباری اطلاعات مل جائیں گیں یا پھر کراچی میں موجود بزرگوں سے اس وقت کی کہانی بآسانی سنی جا سکتی ہے۔
    تو سندھ میں لسانیت کا بیج نشنلسٹوں نے بویا۔ اسے یہاں ہوا دینے والوں میں اے این پی شامل رہی ہے۔ اسی کی دہائ میں ہونےوالے فسادات کی ابتداء پٹھانوں کے جارحانہ روئیے کی وجہ سے تھی۔
    اب جو انہوں نے اپنے پشتون ہونے کے عمل کو اتنی صراحت سے بیان کیا ہے اس پہ سبھی کو حیرت ہے۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وحدت پاکستان کسی کے ایجنڈے میں بھی نہیں نہ مفاد میں۔ چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو، اے این پی ہو یا مسلم لیگ نون۔ یہ سب لوگ لسانیت کی سیاست کرتے ہیں۔ یہاں میں ایم کیو ایم کی بات اس لئے نہیں کر رہی کہ ایم کیو ایم ایک رد عمل ہے جبکہ یہ وہ جماعتیں ہیں جو اپنے آپکو وفاقی جماعتیں کہتی ہیں اور اسی کا پروپیگینڈہ کرتی ہیں اور انکے نزدیک ایم کیو ایم ایک فاشسٹ جماعت کے علاوہ کچھ نہیں وہ سیای ہیں اور ایم کیو ایم غیر سیاسی۔
    پاکستان میں کوئ دوراندیش رہنما ہوتا تو شاید قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان کی مزید اکائیاں انتظامی بنیاد پہ تشکیل دے دی جاتیں اور اس طرح لسانی بنیادوں پہ مزید تقسیم ہونے سے روک دی جاتی۔ مگر فیوڈل سسٹم اس وقت بھی اتنا ہی مضبوط تھا جتنا آج ہے اور ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ اب پختونخواہ کے بعد ہزارہ والوں کا مطالبہ اپنی جگہ صحیح ہے۔ یہ بھی صحیح لگتا ہے کہ اے این پی عظیم افغانستان کے منصوبے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ شاید انکے اس نام پہ اڑے رہنے اور اب اتنی خوشیاں منانے کی وجہ یہی ہے۔ تو اگر ہزارہ والوں کی سنی جائے تو پھر مزید لسانی صوبے وجود میں آنے چاہئیں جیسے سرائیکی صوبہ، پوٹوہاری صوبہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب مسلم لیگ نے اے این پی کی بات اتنی آسانی سے مان لی تو انہوں نے ایک زمانے میں جناح پور کے خلاف اتنا پروپیگینڈہ کیوں کیا تھا۔

    یہ ایک لنک اور دیکھئیے گا۔
    http://dosrarukh.wordpress.com/
    .-= عنیقہ ناز´s last blog ..پنجاب یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائ =-.

  7. بے شک ہزارہ کے لوگوں کو حق حاصل ہے اختلاف کا، بے شک ہزارہ کے لوگ خیبر پختونخواہ صوبےکے ایک بہت بڑے شراکت دار ہیں اور یہ بات بھی مدنطر رکھنی چاہیئے کہ یہ لوگ کوئی باہر سے نہیں آئے ہیں۔

    لیکن یہاں آپ سب بھائی بہن انصاف اور اعتدال کے ساتھ سوچ سمجھ کر میرے کچھ سوالوں کا جواب دیں!!!

    کیا اے این پی نےخیبر پختونخواہ کے لوگوں کے ووٹ لےکر صوبے پر حقِ حکمرانی حاصل نہیں کیا؟
    کیاجمہوریت میں جو جماعت اکثریتی ووٹ لے کر برسراقتدار آتی ہے اس کے پاس یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنے منشور پر عمل کرے؟
    کیا ہزارہ اراکینِ خبرپختونخواہ کو یہ بات پہلے سے نہیں معلوم تھی کہ اے این پی صوبے کا نام پختونخواہ رکھنا چاہیتی ہے ؟ یاد رہے کہ صوبے کے نام کا معاملہ آج کل کا نہیں ہے۔
    ظاہرہے پوری دنیا یہ بات جانتی تھی ۔۔۔ ہزارہ کے لوگوں نے سیاسی لوبنگ کرکے، جلسے جلوس کرکے اور اڑتالوں کے ذریعے اتفاق رائے سے صوبے کے نام کو تبدیل کرنے پر زورپہلے کیوں نہیں دیا؟؟؟ یہ بھی یاد رہے کہ نواز مسلم لیگ ہزارہ کی سب سے طاقت ور جماعت ہے، اور جس کے اے این پی سے بھی اچھے تعلقات ہیں اور نواز مسلم لیگ ہی وہ جماعت تھی جس نے سب سے پہلے صوبے کے نام کو تبدیل کرنے پراے این پی سے اتفاق اور وعدہ کیا تھا۔

    پاکستان میں ماشاءاللہ جیسے بھی ہے، جمہوریت ہے۔۔۔خداراہ اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو اس کو جمہوریت میں جو طریقہ کار ہے اس کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
    .-= خورشیدآزاد´s last blog ..یوٹیوب اور پاکستان =-.

  8. السلام علیکم
    آپ نے خیبر پختونخواہ کا شہری ہونے کے ناتے ایک اہم بات کی اور میں بھی اس میں آپ کے ساتھ ہوں کہ خیبر پختونخواہ نام رکھنے سے حالات کا انداز بدل سکتا ہے(خدانخواستہ)۔۔ ۔ لیکن خورشید صاحب نے بالکل صحیح بات کی کہ اس ایجنڈے کا پورے ملک کو پہلے سے علم تھا اور میرے خیال میں تو یہ ایک واحد جماعت تھی جس نے اپنے منشور(خواہ وہ کچھ بھی ہے،) کو عوام پہ واضح کیا تھا، اس کے بعد انہیں کامیابی ملی تھی۔ لہٰذا یہ صوبے کی عوامی اکثریت کی رائے بنتی ہے۔
    .-= عین لام میم´s last blog ..موبائل فون سروس اور پاکستان =-.

  9. آپ نے درست لکھا ہے ۔ اکثر مبصرين نے بھی آپ کے مؤقف کی حمائت کی ہے ۔ اے اين پی صوبے کی نمائندہ جماعت نہيں ہے اسلئے ضروری تھا کہ صوبے کے تمام ووٹروں کی رائے معلوم کی جاتی ۔ اے اين پی وہ جماعت ہے جس کے بانی نے پاکستان قبول نہيں کيا اور وصيت کی کہ اُس کی قبر بھی پاکستان نہ بنائی جائے اور افغانستان ميں دفن ہوا ۔
    پرانی نيشنل عوامی پارٹی جو عوامی نيشنل پارٹی بن گئی نے سب سے پہلے لسانيت کا ہوّا کھڑا کرنے کی کوشش کی اور پختون کو پاکستان سے الگ قوم ظاہر کرنے ميں کوشاں رہی ۔ عبدالولی خان کا بھائی ڈاکٹر خان انگريزوں کا پٹھو تھا اور پاکستان بننے سے قبل صوبہ سرحد کا حاکم تھا ۔ پاکستان کے حق ميں ہونے والے ريفرينڈم کو ناکام بنانے کی اُس نے پوری کوشش کی تھی مگر اللہ نے اُسے ناکام کيا تھا ۔
    پاکستان بننے کے بعد بھی يہ لوگ ہندوؤں سے دوستی اور مسلمانوں کی مخالفت کرتے رہے
    ان کے علاوہ جی ايم سيّد نے سندھی قوميت کو اُبھارنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔ اس ناجائز پودے کی آبياری ذوالفقار علی بھٹو نے کی اور پہلے دوسرے صوبوں سے آئے اُن لوگوں کا جينا دوبھر کيا گيا جنہوں نے اپنی دن رات کی محنت سے سندھ کے صحرا قابلِ کاشت بنائے تھے ۔ تين صوبائی حکومتوں نے اُردو کو سرکاری زبان قرار ديا مگر سندھ ميں سندھی کو سرکاری زبان قرار ديا گيا ۔ پھر اس کے بعد شہری اور ديہی سندھ کی وباء پھيلائی گئی اور مہاجر پٹھان اور پنجابی کو گالی بنا ديا گيا ۔ پھر مختلف لسانی گروہوں کو آپ ميں لڑايا گيا ۔ سندھ ميں يہ وباء نہ ختم ہونے والی بن چکی ہے ۔ اُسی پی پی پی نے اب اس سرطان کا بيج صوبہ سرحد ميں بو ديا ہے ۔ موجودہ اے اين پی نے يہ تجاويز بھی پيش کی ہيں ۔ قرادادِ مقاصد کو آئين ميں سے نکال ديا جائے اور صدر کيلئے مسلمان ہونے کی شرط ختم کی جائے

  10. جی َ اب تو ہزارہ کے بعد احتجاج کا سلسلہ دوسرے شہروں دراز ہونے لگا ہے، مثال کے طور پہ مندرجہ ذیل ربط ملاحظہ فرمائیے:
    http://thenews.com.pk/daily_detail.asp?id=233581

  11. ایک اہم حقیقت لکھنے سےرہ گئٰ ۔ 1901 عیسوی تک این ڈبلیو ایف پی کا وجود نہیں تھا یہ ساراعلاقہ شوبہ پنجاب کا حشہ تھا ۔ انگریزوں نے اپنے پاؤں مضبوط کرنے کیلئے پنجاب کے ٹکڑے کئے ۔ کافی حشہ این ڈبلیو ایف پی بنایا اور کچھ حصہ صوبہ سندھ میں شامل کیا
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..امریکی اخبار ۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور =-.

  12. میں اور تو کچھ نہیں کہوں گا لیکن ہزارہ کے لوگوں میں اتنا تعصب دیکھ کر لگتا ہے کہ ANP نے صحیح کیا۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں