Skip to content

خیبر پختونخوا , ڈاکٹر , اور حکومت کی ترجیحات

صحت اور تعلیم ہمارے معاشرے کے وہ دو شعبے ہیں جو عملی طور پر یتیم شمار کئے جا سکتے ہیں۔ اب تک تو ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ صوبے کی موجودہ انقلابی حکومت نے آتے ساتھ ہی صحت اور تعلیم کے شعبوں پر تجربے کرنے کی ٹھان لی ہے۔ وزیر اعلی پرویز خٹک نے تو منتخب ہوتے ہی صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو بالعموم اور ڈاکٹروں کو بالخصوص ایک عدد اوئے جاگیردارا قسم کی دھمکی دے ڈالی جس کا لُب لُباب یہ تھا اب ڈاکٹروں کو اپنا قبلہ درست کرلینا چاہئے کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی ہے۔

گو کہ توجہ دلانے پر اور ڈاکٹرز کی طرف سے مناسب وضاحت کے بعد پرویز خٹک صاحب کو اپنا بیان واپس لینا پڑا مگر کب تک؟؟ مجھے اندازہ ہے کہ عمران خان بالخصوص اور پی ٹی آئی کی قیادت میں مخلوط حکومت کی ترجیحات مختلف ہیں۔ بجٹ میں صحت اور تعلیم کے شعبوں کے لئے مختص رقوم سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون کتنا مخلص ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ حکومت اپنے اہداف میں سے کچھ نہ کچھ تو حاصل کرلے گی۔ مگر یہاں ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی اس حکومت کے مشیران کون ہیں اور وہ کن معلومات کی بنیاد پر حکومت کو مشورے دیتے ہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں۔حکومت نے صحت کے شعبے میں اصلاحات کا عمل شروع کر ہی دیا ہے اور بظاہر حکومتی مشینری تعجیل کا شکار نظر آتی ہے۔مگر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی وہ فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کی بنیاد اصلاحی سے زیادہ سیاسی ہے۔ مثلا صوبے کے چار نام نہاد نیم خود مختار اداروں کے سربراہ یعنی چیف ایگزیکٹو کی پوسٹ جو کہ تمام سیاسی ادوار میں فٹ بال بنی نظر آتی ہے، اس مرتبہ بھی نشانے پہ ہے۔ ہر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ چیف ایگزیکٹو کی تبدیلی سے کوئی فرق آ جائے گا مگر ہر دفعہ حکومتی اہلکار غلطی کر جاتے ہیں۔ اور ہر مرتبہ اگلی آنے والی حکومت اس غلطی کی تصحیح کا بیڑا اٹھاتی ہے۔

تازہ ترین خبر وزیر صحت و اطلاعات شوکت یوسفزئی کی ایک پریس کانفرنس کی ہے جس میں موصوف نے کچھ پالیسی ساز اعلانات کئے ہیں۔ ان اعلانات کا کچھ خلاصہ تو اس ربط پر دیکھا جا سکتا ہے اور بہت سی باتیں افواہوں کی شکل میں گردش کر رہی ہیں۔ بہر حال جس طرح عجلت میں صوبائی حکومت فیصلے کر رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ گھر کا کام نہیں کر کے آئے اور ناقص منصوبہ بندی کی بدولت الٹے سیدھے فیصلے کر رہے ہیں۔ میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اس خبر میں جس کا ربط میں نے اوپر آپ کے سامنے رکھا ہے، بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے میں متفق ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ یہ سب کام ہوں، مگر اس کے ساتھ ساتھ میں آ پ کی توجہ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کے درمیاں پائی جانے والی گروپ بندی کی طرف بھی دلانا چاہتا ہوں جس کی ایک واضح جھلک اس خبر میں ہے۔

اگر صوبائی حکومت واقعی مخلص ہے تو اس کو تمام ڈاکٹرز کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ چار جولائی سے شروع ہونے والی ہڑتال شائد ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہو۔ کام کرنے کے لئے محض نیک نیتی ہی نہیں بلکہ قابلیت بھی چاہئے ہوتی ہے۔ جس ملک میں ایک وزیر صحت کی قابلیت ایک صحافی ہونا ہو، وہاں صحت کے شعبے میں کیا خاک ترقی ہو گی؟؟

گزشتہ دنوں پشاور میں پی ڈی اے کی جنرل باڈی میٹنگ میں چار ارکان صوبائی اسمبلی کی شرکت اور ان کے خطابات سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت صحت کی سہولیات کو عام کرنے میں سنجیدہ تو نظر آتی ہے مگر شائد اتنی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ جونئر رجسٹرارز اور سنئر رجسٹرارز کی پریکٹس پر پابندی لگانے سے امید ہے کچھ مسائل کافی حد تک کم ہوجائیں گے جن میں سر فہرست شام کا راونڈ نہ ہونا ہے۔ آپ نے اس خبر سے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ ایک پروفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ کہا کہ وہ اپنے سینئر رجسٹرار سے اس لئے تنگ ہے کہ وہ شام کا راونڈ نہیں کرتا اور اپنا کلینک کرتا ہے۔ شائد حکومت کے اس فیصلے سے یہ پروفیسر صاحب خوش ہو جائیں اور اگلے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیں مگر باقی لوگ تو ضروری نہیں کہ ان جیسا سوچیں۔

ایک سادہ سا سوال ہے : کیا جونئر اور سنئر رجسٹرارز کے شام کے راونڈ کرنے سے ہسپتالوں کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے؟ جہاں تک مجھے علم ہے، کم از کم جس ہسپتال میں میں نے کام کیا ہے وہاں تھیوری کی حد تک سہی ، سینئر رجسٹرار وارڈ کا انچارج ہوتا ہے۔ تھیوری کی حد تک وارڈ میں سینئر رجسٹرار کی مرضی چلنی چاہئے۔ وہ جس مریض کو داخل کرے اور جس کو ڈسچارج کرے اس کا فیصلہ حتمی ہونا چاہئے۔ ہمارے ہسپتال میں، تمام اسسٹنٹ اور اس سے اوپر کے پروفیسر صاحبان وزٹنگ بنیاد پر آتے ہیں، یعنی وہ میڈیکل کالج سے تنخواہ لیتے ہیں کیونکہ ان کی تعیناتی میڈیکل کالج میں ہوتی ہے، اور وزٹنگ بنیادوں پر وہ ہسپتال میں میڈیکل سٹوڈنٹس اور ٹرینی ڈاکٹرز کو پڑھانے آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ ان کا کام او پی ڈی چلانا نہیں کیونکہ وہ ہسپتال کے ملازم نہیں۔ ان کا کام مریضوں کو داخل کرنا یا گھر بھیجنا نہیں کیونکہ وہ ہسپتال کے ملازم نہیں۔ یہ سب کام ہسپتال کے ملازم سینئر رجسٹرار کا کام ہے۔

جہاں تک میں جانتا ہوں اور میں نے مشاہدہ کیا ہے، سینئر رجسٹرار وارڈ میں ایسا کوئی بھی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا، وہاں پروفیسرز کی مرضی چلتی ہے۔ کچھ وارڈ تو ایسے ہیں جہاں داخلہ صرف کلینک کی پرچی یا ویزے پر ہی ہوسکتا ہے۔ وہاں او پی ڈی سے داخلہ تقریبا نا ممکن ہے ،اور اگر کوئی مریض داخل ہو بھی جائے تو اس کو فورا بھگا دیا جاتا ہے اور بے چارا سینئر رجسٹرار دیکھتا رہ جاتا ہے ، اگر وہ وہاں پہ ہو۔

ان حالات میں جب کہ سینئر رجسٹرارز کے پاس کاغذی اختیارات ہیں، ان کو دن رات کی ڈیوٹی پر لگانا ڈاکٹرز اور مریضوں کے ساتھ بھیانک مذاق نہیں تو کیا ہے؟؟؟
ہمارے ہسپتال میں تھیوری کے مطابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو ہسپتال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، اور وہ سینئر اور جونئر رجسٹرارز کے ذریعے ہسپتال کا نظم و نسق سنبھالتا ہے، تھیوری کے مطابق۔ مگر ہوتا کیا ہے کہ ہر ڈیپارٹمنٹ کے وزٹنگ فیکلٹی نے ان رجسٹرارز کو ایک طرف کردیا ہے اور دھڑلے سے کام کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اگر صوبائی حکومت اتنا ہی مخلص ہے تو پہلے وہ فرائض کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے، پھر زمہ داریاں تفویض کرے اور پھر احتساب کرے۔ یہ تو ایک تبصرہ تھا اوپر کی خبر کے حوالے سے ۔ ہم نے پھر یہ بھی سُنا کے حکومت گزشتہ صدی کی اسی کی دہائی میں پورے ملک میں پھیلائے گئے بی ایچ یو اور آر ایچ سی کے جال کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ختم اس طرح کہ اب کسی بھی علاقے میں موجود بی ایچ یو میں ڈاکٹر موجود نہیں ہوگا۔ وہاں ایک عدد ای پی آئی تیکنیشن، ایک ایل ایچ وی اور فرست ایڈ کا سامان موجود ہوگا۔ مریض کو ڈاکٹر کے پاس قریبی آر ایچ سی یا ڈی ایچ کیو ہسپتال میں جانا ہوگا۔

میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کوئ نئی بات نہیں اور آج کل بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ مگر کیا یہ ان میڈیکل تیکنیشنز کی میڈیکل پریکٹس کو قانونی کور دینے والی بات نہیں ہو گی؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بی ایچ یو پر موجود میڈیکل ٹیکنیشن ایک اتائی کا روپ نہیں دھارے گا؟ کیا یہ قدم لوگوں کو اتائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف نہ ہوگا؟

ایک طرف تو حکومت ہیلتھ رجسٹریشن اتھارٹی کے چھاپوں کے زریعے ان میڈیکل پریکٹشنرز کو تنگ کر ہی ہے جو پی ایم ڈی سی سے باقاعدہ اجازت نامے کے بعد پریکٹس کر رہے ہیں مگر ہیلتھ رجسٹریشن اتھارٹی کے کو سالانہ جگا ٹیکس نہیں دے رہے۔ اور دوسری جانب ایسے اقدامات سے اتائیت کو فروغ دے رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، حکومت تعجیل کا شکار دکھائی دیتی ہے، حکومت کے مشیران اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ بالآخر عوام ہی کو بھگتنا ہوگا۔

ہم نے یہ افواہ بھی سُنی کہ تمام جونئر ڈاکٹرز، یعنی وہ ڈاکٹرز جو سپیشلست نہیں ہیں کی پرائیویت پریکٹس پر پابندی لگنے والی ہے۔ مجھے امید ہے حکومتی عُمال چاہے جتنے بھی بے وقوف ہوں، کم از کم اتنے بے وقوف نہ ہوں گے کہ یہ فیصلہ کر بیٹھیں اور ان لوگوں کے علاج کی سہولت بھی بند کر دیں جو صرف ۱۰۰ روپے دے کر اپنا علاج کرا سکتے ہیں۔ اس صوبے میں اب ایک جنرل پریکٹشنر اور ایک عدد حجام کی فیس برابر ہے۔ حجام نے کسی قسم کی کوئی رجسٹریشن نہیں کرانی، اسے کسی لائسنس کی سالانہ تجدید نہیں کرانی ہوتی، نہ ہی پی ایم ڈی سی کو ہر پانچ سال بعد جگا ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ مگر ایک جنرل پریکٹشنر کو یہ کام ضرور کرنے ہوتے ہیں۔ اگر ان سب کی پریکٹس پر پابندی لگ گئی تو پھر لوگوں کے پاس یا تو سرکاری ہسپتال رہ جائیں گے یا پھر سپیشلسٹ جو کہ ان جنرل پریکٹشنرز سے سات آٹھ گنا زیادہ معاوضہ اور اتنا ہی کم وقت دیتے ہیں۔

میرا خیال ہے حکومت کی ترجیحات کچھ مختلف ہونی چاہئیں مثلا::

سینیر رجسٹرارز کو مکمل فعال بنا کر ان سے پھر کارکردگی کی توقع رکھنا۔

وہ ڈاکٹرز جو کہ پوسٹ گریجویشن کر چکے ہیں اور پرائیویٹ پریکٹس کر رہے ہیں ان کے لئے ایک ایسا نظام وضع کرنا کہ ہر دو سال بعد ان کے علم کی جانچ ہوتی رہے تا کہ وہ لوگ مسلسل نئی معلومات اور طرائق علاج سے واقف رہیں۔

وہ ڈاکٹرز جو کہ پوسٹ گریجویشن نہیں کر پائے ان کے لئے بھی ایسے کورسز کا اجرا اور ان کا لازمی ٹھہرایا جانا تاکہ وہ لوگوں کو فائدہ ہی پہنچائیں نقصان نہ پہنچائیں۔

اگر ممکن ہو تو تمام سینئر سرکاری ملازمین کے لئے پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی۔ کیونکہ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ سرکاری ملازمت کرتے ہیں ان کے کلینک پر مریض بھی زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ مریضوں کو علم ہوتا ہے کہ یہ ڈاکٹر اگر زیادہ فیس لے بھی رہا ہے تو کم از کم سرکاری ہسپتال میں اس کی پرچی پر داخلہ تو مل جائے گا۔ یہی ڈاکٹر صاحبان اپنی سرکاری ملازمت کی وجہ سے دوسرے ڈاکٹر صاحبان جو کہ سرکاری ملازم نہیں اور پرائیویٹ پریکٹس کر تے ہیں ، پر ایک سبقت لے جاتے ہیں جو کہ کافی حد تک سابقون کو آخرون سے ممیز کرتی ہے اور بے تحاشہ فائدہ پہنچاتی ہے۔

گھوڑے ، گدھے اور بکری کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے سب کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحبان کو آپ جتنا بھی برا بھلا کہہ لیں، ان کو قصائی کہہ لیں، ان کے کلینک کو مذبح خانہ کہہ لیں، مگر آپ کو بالآخر یہ ماننا ہوگا کہ ان کی تعلیم بہت سخت ہے۔ ان سے آپ جتنی توقعات رکھتے ہیں وہ سب پوری ہوسکتی ہیں اگر آپ ان سے مل کر ان کی اُن توقعات کو جان لیں جو وہ آپ سے رکھتے ہیں۔ ان کے حقوق کا خیال رکھیں ، وہ اپنے فرائض کا خیال رکھیں گے۔ ڈاکٹر بے چارے اپنے سروس سٹرکچر کو رو رہے ہیں اور حکومت نے ان کو پی ڈی اے اور وائی ڈی اے میں تقسیم کر دیا ہے۔

پی جی ایم آئی کے عہدے دار آج کل سی پی ایس پی کے ٹرینی ڈاکٹرز کو بلاوجہ تنگ کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہسپتالوں میں موجود ٹریننگ کی ناکافی سہولیات کو کافی بنایا جاتا ، ٹرینی ڈاکٹرز کو کلینکل روٹیشن پر جانے کے لئے انتہائی فضول قسم کے عمل میں الجھا دیا گیا ہے۔ گویا ٹریننگ پر جانا نہ ہوا، کہوٹہ جانا ہو گیا۔ اس فضول عمل کو جتنی جلدی روکا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ پتہ نہیں پی جی ایم آئی کی موجودہ انتظامیہ کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟ اس ملک میں ہر شخص دوسرے کو تکلیف دے کر ہی اپنی اہمیت جتانا چاہتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب پی جی ایم آئی کا وفد ہمارے مسائل سننے ہمارے ہسپتال آیا تھا تو مجھے ان کی باتوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کو ٹرینی ڈاکٹرز کی پرائیویٹ پریکٹس پر اعتراض ہے۔ کس بات کا اعتراض؟ پاکستان میڈیکل کونسل کے پاس رجسٹریشن کے بعد ہم سب کو پریکٹس کا قانونی اختیار ہے، آپ کو اعتراض کاہے کا؟ بتایا کہ ٹرینی وظیفہ لے رہے ہیں اور اس لئے یہ پریکٹس نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ لوگ پریکٹس کر تے ہیں، ٹریننگ پر توجہ نہیں دتے اور امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ان کو کا میاب ہونے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ میں نے درخواست کی کہ میری ٹریننگ ختم ہونے والی ہے اور ہسپتال کے فلاں شعبہ میں فلاں سہولت میسر نہیں۔ اس ٹیسٹ کے بارے میں ہماری معلومات جانچنے کے لئے ہر مرتبہ امتحان میں ایک یا دو سوال ضرور ہوتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ نہیں دیکھا میں نے، اور امتحان میں آپ لوگ مجھ سے توقع کریں گے کہ مجھے سوال کا جواب آئے۔ میں کیا کروں؟ کیا آپ اس سہولت کو مریضوں کے لئے نہ سہی، ڈاکٹرز کی خاطر مہیا کرا سکتے ہیں؟؟ اس مجھے بتایا گیا کہ یہ پی جی ایم آئی کا کام نہیں ہے۔ تو کیا کام ہے پی جی ایم آئ کا؟ کیا یہ لوگ ہسپتالوں میں یہ پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ بھائی ہم نے ٹرینی بھیجے آپ کے پاس، آپ ان کو کیا سکھا رہے ہو؟ آپ کے پاس سہولیات ہیں بھی کہ نہیں؟؟؟ پی جی ایم آئی کا قبلہ درست ہونا چاہئے۔

پھر، جیسا کہ میں نے عرض کیا ، حکومتوں کی نظر نیم خود مختار اداروں کے چیف ایگزیکٹو کی پوسٹ پر ہوتی ہے۔ اس مرتبہ یہ سننے میں آ رہا ہے کہ کسی ریٹائرڈ جج کو لگایا جا رہا ہے۔ تجربات کرنے کو کیا صحت کا شعبہ ہی رہ گیا ہے؟ مگر حیرانی کی کیا بات؟؟ جب وزیر صحت ایک صحافی ہو تو وہ فیصلے بھی ایسے ہی کرے گا نا؟ ایک ریٹائرڈ جج کو ہسپتال کے انتظام و انتصرام سے کیا غرض؟ ایک جج ہسپتال کو چلا بھی سکتا ہے کہ نہیں؟؟ میں نہیں سمجھتا کہ ا س فیصلے کے اچھے اثرات ہوں گے۔
ہم پہلے بھی ایک عد دبیورو کریٹ کی انٹظامیہ کو دیکھ چکے ہیں۔ ٹھیکے دار مافیا کا وہ نمائیندہ ہسپتال کا بیڑا غرق کر گیا مگر صوبائی حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس کو نہ ہٹایا جائے۔

کیا صوبائی حکومت کو ایسا کوئی ڈاکٹر نہیں مل سکتا جو کہ پبلک ہیلتھ اور ہیلتھ ایڈمنسٹریشن کا تجربہ رکھتا ہو؟ ایسے ڈاکٹرز کو کیوں نہیں ڈھونڈا جاتا؟ ایک ریٹائرڈ جج ، جتنا بھی نیک نام اور اصول پسند کیوں نہ ہو، ریٹائرڈ جج ہی رہے گا، ایک اچھا ہیلتھ ایڈمنسٹریٹر نہیں بن سکتا۔ میں عمران خان اور ان کے صوبائی نمائندوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی ایک ایسا ہسپتال بھی ہے جس کا سربراہ ایک عدد فائنانس ڈائرکٹر رہا ہو اور اب وہاں ایک عدد ریٹائرڈ جج لگایا جانا ہو؟ اگر ریٹائرڈ جج اتنا ہی اچھا منتظم ہو سکتا ہے تو سوکت خانم ہسپتال کا ایڈمنسٹریٹر ایک عدد ریٹائرڈ جج کیوں نہیں ہے؟؟

کہا جاتا ہے کہ محکمہ صحت کے ملازم ڈاکٹر اپنی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے بعد واپس اپنے علاقے میں نہیں جاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بد قسمت فیصلہ درست ہوتا ہے۔ سننے میں یہ آ رہا ہے کہ ہر پوست گریجویٹ ٹرینی کے لئے لازم ہوگا کہ وہ کسی دور دراز کے علاقے یا اپنے ضلع میں کم از کم تین سال گزارے۔ مجھے اس فیصلے سے اختلاف نہیں۔ مگر آپ یہ پابندی انھی پر لگا سکتے ہیں جو سرکاری ملازم ہیں، اور جو پرائیویٹ ٹرینی ہیں وہ آپ کے ماتحت نہیں۔ اور سرکاری ملازمت ہر ایک کو ملتی نہیں، جس کو ملتی ہے، اکثر اوقات اس نے پارٹ ون کیا ہوتا ہے اور وہ پی جی ایم آئی کے چکر لگا رہا ہوتا ہے۔جب اس کی ٹریننگ ختم ہوتی ہے تو اب وہ یا تو ماہر امراض قلب ہوتا ہے، یا نیورو سرجن۔ اب وہ محض ایک میڈیکل آفیسر نہیں جو لوگوں کی روز مرہ کی تکالیف کا علاج کر سکے۔ اسے بہت کچھ بھول گیا ہوتا ہے۔ نتیجتا وہ واپس وہاں اپنے ضلع یا دور دراز کے گاوں نہیں جاتا۔ اگر آپ زبردستی بھیج بھی دیں تو کیا فائدہ ۔ وہ استعفی دے کر واپس بڑے شہر میں آ جائے گا۔
اب اس صورت حال کا کیا حل نکالا جائے؟؟

میرے نزدیک اس کے دو حل ہیں۔ کسی ایک کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
اولا:: حکومت اپنی ترجیحات کا تعین کرے اور فیصلہ کرے کہ اس کو کس قسم کے سپیشلسٹ کہاں درکار ہیں۔ اور کتنی تعداد میں۔ اس کے بعد پی جی ایم آئی کے انٹرویوز میں امیدواروں کا انٹرویو لے کر مناسب امیدواروں کو مناسب اقدامات کے بعد ٹریننگ پر بھیجا جائے۔ باقی جو لوگ اس فہرست میں شامل نہیں ہو سکتے وہ اپنی نوکری پر لگے رہیں۔ یوں ہر سال مناسب تعداد میں ایک متعین طریقہ کار کے مطابق لوگ سپیشلائزیشن بھی کرتے رہیں گے اور محکمہ صحت کو دور دراز کے علاقوں میں ڈاکٹرز کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش نہ ہوگا۔ ایک میرٹ ایسا بھی بنایا جا سکتا ہے ، کہ جائے ملازمت جتنی دور ہو، اتنے ہی زیادہ سروس پوائینٹس دئے جائیں اور اسی حساب سے پی جی ایم آئی کے انٹرویوز میں ان کو فائدہ دیا جائے۔ شروع شروع میں سب کے لئے مشکل ہوگا، مگر ایک مرتبہ نظام ٹھیک طریقے سے کام کرنا شروع ہوجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر جب نظام میں اقربا پروری شامل ہو گئی، سیاسی دخل اندازی اور سیاسی دباو پر بھی یہ فیصلے ہونے لگے تو پھر کسی قسم کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکے گی۔ تباہی و بربادی اسی طرح عام ہوگی جس طرح حکومت کی مطابق اب ہے۔

ثانیا:: حکومت برطانوی طرز پر جنرل پریکٹشنرز کے شعبے کا اجرا کرے۔ ان کو لالچ دئے جائیں۔ کارکردگی کی بنیاد پر بونس اور دوسری مراعات دی جائیں، نتیجتا بہت سے ڈاکٹر سپیشلائزیشن کے کٹھن اور طویل راستے کو خیر باد کہہ کر ان علاقوں میں چلے جائیں گے جہاں حکومت کے مطابق صحت کا شعبہ بری طرح نظر انداز ہے۔ اس قدم سے سب کو فائدہ ہوگا۔ ڈاکٹرز کو بھی، عوام کو بھی، اور حکومت کو بھی۔ ہسپتالوں پر سپیشلائزیشن کے لئے آنے والے ڈاکٹرز کا بوجھ بہت کم ہو جائے گا اور محکمہ صحت کے پاس پڑی ڈیپوٹیشن پر جانے والی درخواستوں میں بھی کافی حد تک کمی ہو جائے گی۔ اس طریقہ کار میں ایک شرط رکھی جا سکتی ہے کہ جو ڈاکٹر ایک مرتبہ جنرل پریکٹشنر کے شعبے میں چلا گیا وہ اب ایک خاص مدت تک اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔

کافی عرصہ تک میں آرمی کے نظام کو برا سمجھتا رہا ، کہ وہاں ہر ڈاکٹر پوست گریجویشن نہیں کر سکتا، سینیئر جونئر کا چکر ہوتا ہے، اوپر والوں سے اجازت لینی ہوتی ہے اور جب وہ اجازت دیں تو پھر امتحان دینا آسان ہوجاتا ہے۔ مگر اب سمجھتا ہوں کہ وہ اداہ اپنی ضروریات کو دیکھ کر فیصلے کرتا ہے اور جو ڈاکٹر سپیشلائزیشن نہیں کر سکتا، اسے انتظامی جانب لے جاکر تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں کوئی ناکارہ ڈاکٹر نہیں ہوتا۔ سب اپنی اپنی بساط کے مطابق کام کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے صوبے میں بھی ایسا کوئی نظام بنائیں تا کہ ایک سمت متعین ہو۔ حکومت کو بھی وسائل کے استعمال میں آسانی ہو گی اور ترقی کی رفتار اور سمت متعین ہو جائے گی۔

البتہ اگر ایسے بے وقوفانہ فیصلے کئے گئے جیسے کہ ججوں کو، یا صحافیوں کو ہسپتالوں کا منتظم بنایا جانا تو پھر بہتری کی کوئی امید نہیں رہے گی۔

2 thoughts on “خیبر پختونخوا , ڈاکٹر , اور حکومت کی ترجیحات”

  1. جناب خوشی اس بات کی ہے کہ آپ نظر آئے ۔ چلیں آپ کی تحریر ہی سہی ۔ اسی خوشی میں ہم نے آپ کی ساری تحریر ایک ہی سانس میں پڑھ ڈالی ۔ درست تجزیہ کیا ہے آپ نے ۔ لیکن جس قوم کے پڑھے لکھے یہ سمجھیں کہ کرکٹ کا کپتان ہونا اور ملک کا بہترین سربراہ ہونا ایک ہی بات ہے تو وہاں رونا اپنی آنکھوں کے ستیا ناس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟
    سُنا ہے کہ موبائل عدالتیں بنائی جا رہی ہیں ۔ میں نے تو مشورہ دیا ہے (فیس بُک پر) کہ موبائل ہسپتال بناتے تو کوئی بات تھی ۔ یہ موبائل عدالتیں چلیں گی کیسے ؟ عدالتی نظام درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسے پہیئے لگانے کی نہیں ۔ مگر کون سُنتا ہے ۔ وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور ہم دو جماعت پاس ناتجربہ کار

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں