Skip to content

خداوں کا تقابل۔

بلاگ تک کچھ دنوں تک رسائی نہ ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ دوسروں کی باتیں دھیان سے پڑھنے کا وقت مل گیا۔ تمام احباب اپنے اپنے نقطیہ نظر کو بڑی اچھے طریقے سے پیش کرتے ہیں، سوائے میرے۔ کئی مواقع پر رشک آیا، اور ان سے بھی زیادہ مواقع پر کڑھن ہوئی کہ ایسا میں نے کیوں نہیں لکھا۔ مگر مجموعی طور پر تاثر یہ رہا کہ ہر ایک یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ جس بت کی پرستش میں کر رہا ہوں، وہ تمھارے بت سے افضل ہے۔

 

ہم سے پہلے جتنے بھی لوگ گزرے، اور ہمارے معاصرین اور ہمارے بعد آنے والے لوگ ، سب انسان تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ایک انسان غلطے سے بالکل پاک اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب وہ نبی کے درجے پر فائز ہو یا اللہ تعالی نے اسے اسی طرح کے ایک ارفع مقصد کے لئے پیدا ہو۔ نیک لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالیں تو علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی زندگی، رزق، اور اعمال میں ہمیشہ پاکیزگی کے اسباب پیدا کئے۔ ان نیک لوگوں کے علاوہ، باقی سب ایسے انسان ہیں جو گناہگار بھی ہوتے ہیں تو زندگی کے کسی موڑ پر تائب بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر ۔۔۔

بر صغیر پاک و ہند کے لوگوں کی ذہنیت پرشخصیت پرستی کا ایسا ملمع چڑھا ہے جسے  تلخ حقائق کا قلعی گر بھی نہیں اتار سکتا۔ شخصیت پرستی ہمارے خمیر میں ایسی گندھی گئی ہے کہ نظریات پر بحث ہو، سیاست پر ہو یا عقائد پر، ہم شخصیات کو بیچ میں لا کر رگیدنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد ایسا غدر کا عالم ہوتا ہے کہ کسی کی پگڑی سلامت نہیں رہتی۔

دوستو ، کیا یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ جس بت کی پرستش میں کر رہا ہوں وہ تمھارے بت سے افضل ہے؟

14 thoughts on “خداوں کا تقابل۔”

  1. چونکہ یہ خوبصورت پوسٹ آپ ہی نے لکھی ہے۔ تو پھر آپ ہی بتائیے کہ بحث کے دوران دوسروں کی شخصیات کو رگیدنا اور ان کے بارے میں‌ ناحق رائے قائم کرنا کیسا ہے؟
    منیر عباسی اپنے ہی الفاظ اپنے ہی الفاظ میں:

    ” اندر سے آپ ہیں ہی انتہا پسند، اور آپ کسی بھی صورت اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیں گے. یہ میرا تاثر ہے جو آپ کے بارے میں قائم ہوا ہے، “

  2. بالکل ضروری ہے!
    ورنہ آپ کے علم، ڈگری، مستقل مزاجی (ڈھیٹ پن)، عزم (ہٹیلا پن) کا لوہا کون مانے گا؟

  3. کیا یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ جس بت کی پرستش میں کر رہا ہوں وہ تمھارے بت سے افضل ہے؟

    يہ وہ سوال ہے کہ ميں جس کے جواب کی تلاش ميں کئی دہائيوں سے سرگرداں ہوں ۔ چلو ايک ساتھی تو ملا

  4. او جی یه سارے لوگ کتے جیسے هوتے هیں ان کو دم ہلانے کےلیے کوئی چاهیے هوتا ہے
    پٹا پکڑنے والا کوئی چاهیے هوتا ہے
    ہندی کا ایک شعر ہے
    راما مر گئے کرشنا مر گئے مر گئی لکھو بائی
    میں تو پوجا اس کی کروں جس کو موت ناں آئی

  5. جعفر جی کے تبصرے سے سو فیصد متفق ہوں۔
    ثابت کرتے وقت خیال رکھئے گا۔کہ آپ سے متفق نہ ہونے والے کی ذاتیات پر لازمی اترنا ھے۔
    اگر آپ کے چیلے چانٹے ہوں تو وہ آپ سے متفق نہ ہو نے والے کو گالی گلوچ والی ای میلز روانہ کریں۔ بحث میں آ پ نے کسی قسم کی وضاحت بالکل نہیں کرنی کہ آپ کا بت کیوں افضل ھے۔
    آپ سے متفق نہ ہونے والے کی بات سننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
    ان اصولوں کے مطابق اپنا بت افضل ثابت کریں۔

  6. عثمان: چونکہ یہ خوبصورت پوسٹ آپ ہی نے لکھی ہے۔ تو پھر آپ ہی بتائیے کہ بحث کے دوران دوسروں کی شخصیات کو رگیدنا اور ان کے بارے میں‌ ناحق رائے قائم کرنا کیسا ہے؟
    منیر عباسی اپنے ہی الفاظ اپنے ہی الفاظ میں:” اندر سے آپ ہیں ہی انتہا پسند، اور آپ کسی بھی صورت اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیں گے. یہ میرا تاثر ہے جو آپ کے بارے میں قائم ہوا ہے،”  

    چونکہ آپ نے مجھے براہ راست مخاطب کیا ہے اور آپ کی بات کا اس مراسلے سے تعلق بھی نہیں‌ہے، عثمان، تو میں اپنی بات پر سو فیصد قائم ہوں، اور آپ کی اس حرکت نے تو میرے مفروضے کو یقین میں‌ بدل دیا ہے۔

    بہت بہت شکریہ۔

  7. خاور :: میں اپ سے متاثر ہوں اس بات کی حد تک۔ باقی باتیں پھر کبھی۔

    افتخار اجمل صاحب:: وہ کیا کہتے ہیں
    خؤب گزرے گی جو ۔۔۔
    یا پھر
    چلے تو کٹ ہی جائے گا یہ سفر ۔۔ وغیرہ وغیرہ

    یاسر:: استاذی کی ہدایات کی تشریح کا شکریہ۔

    جعفر:: یا استاذی گرد گھنٹال کے گروں کا سروس پیک ٹو ‌کب آ رہا ہے؟

  8. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    منیربھائی، بہت اچھی پوسٹ ہےآپکی اس پریہی کہوں گادراصل انسان میں سب سےبڑی مشکل یہ ہےکہ یہ ایک جگہ پرٹک کربیٹھ نہیں سکتاکیونکہ وہ کیاکہتےہیں کہ حرکت میں ہی برکت ہےتوبھائی، دراصل کوشش کریں کےاپنےمذہب کےساتھ ساتھ دوسروں کےمذہب کوبھی پڑھیں باقی حقیقت سےصحیح آگاہی تواللہ تعالی کےکرم سےہی آسکتی ہےوہ جس کوچاہیےحق پرچلائےجس کوچاہےحق سےدورکردے۔ لیکن وہ کیاکہتےہیں کہ اچھےاعمال تواللہ تعالی کی رحمت ہیں لیکن انسان کےبرےاعمال اس کےبرےکرموں کاپرشاد ہوتےہیں۔اللہ تعالی سےدعاہےکہ ہم مسلمانوں کوصحیح طورپراسلام کی تعلیمات سےروشناس ہونےکی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین
    والسلام
    جاویداقبال

  9. جعفر جی کے تبصرے سے سو فیصد متفق ہوں۔
    یار عثمان اور منیر، آپ حضرات پھر شروع ہوگئے۔ اب جانے بھی دیا کریں ان باتوں کو جو ہوگئیں ایک بار کبھی ماضی میں۔ ماضی کی تلخ یادوں اور برے تجربات کو یاد بھلا کر جیا کریں۔ ٹینشن کم رہتی۔

  10. منیر بھائی!

    مسئلہ صرف من پسندیدہ بتوں کو افضل و برتر ثابت کرنے تک نہیں رُکتا۔ بلکہ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے حقاءق کو تروڑ مروڑ کر لوگوں کو ورغلانا بھی ہے۔ فی الواقع یا تاریخی طور پہ مشکوک اور غدار روں کو محض اس لئیے ۔ اس فن میں یکتا کچھ لوگ پان پالش کر کے اور جیسا کہ یاسر جاپانی بھائی صاحب اور جعفر بھائی نے فرمایا ، ایسے لوگوں نہ صرف پان پالش کے ماہر ہیں بلکہ انتہائی حد ڈھیٹ بھی ہیں۔ ایک پی سی اور انٹرنیٹ کنکشن ہو بس ایک عدد بلاگ بنا کر اس پہ کسی کا دل چاہے تو وہ ہر کسی کو جی بھر کر مغلظات بکتا پھرے۔ یا چاہے تو وعظ و تدریس کر لے یہ بلاگ بنانے والے اور اس پہ الم غلم چھاپنے والے پہ منحصر ہے اور اس میں مردو زن کی کوئی تمحیص نہیں۔

    کوئی لاکھ سر پیٹ لے مگر جن کی پیٹھ پہ “اک” کا پودا اُگ آیا ہے وہ اس کے سایے میں بیٹھنے سے باز نہیں آتے۔خدا ہی انھیں ھدایت دے تو دے ۔ بندوں سے یہ باز آنے والے نہیں۔پھر انکے ایک آدھ کاسہ لیس “جی حجورئیے” بھی بہت خوب ہیں جن کا مقصد ہی ایسے بُت تراشنے والوں کے لئیے ایک طرح کا انکی جھوٹی انا کی تسکین کا سامان ہوتا رہے۔جن کا کام ہی صرف یہ ہے کہ ایسے ورغلانے والوں کی ستائش کرنا ، سراھنا اور درست پس منظر میں بات کرنے والوں کی ٹانگ کینچھنا ہے۔

    اسلئیے یہ ضروری ہے کہ ہر کوئی احتجاجاََ اصل حقائق بیان کرے تانکہ ایسی نفسیاتی اپچ رکھنے والوں کی گمراہ اور زہر آلود تحریوں سے پڑھنے والے گمراہ نہ ہوں اور ریکارڈ رہے۔

    کیونکہ بتوں کو تراشنے والوں کا مقصد ہی یہ ہے کہ قوم کو ہر صورت کینفوژن میں رکھا جائے ۔ ہمیشہ متنازع موضوع اٹھائے جائیں جس سے دوسروں کے دل میں نفرتیں پیدا ہو تو ان کی بلا سے۔ایسے لوگوں کے پاس ماسوائے اپنے جھوٹے زعم کے سوا کسی کوئی دلائل نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو محض ایک آدھ من پسند رائٹر کی کتاب کے۔ جب انھیں دلیل دی جائے تو یہ تردد کر کے دلائل کو جھٹلانے کا مواد وکی پیڈیا وغیرہ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ بس یہ ہی انکا مطالعہ اور حاصلِ مطالعہ ہوتا ہے۔ جب کہ یہ لوگ بالمقابل پُردلیل بات کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ انکے پاس دلیل ہوتی ہی نہیں۔

    ایسے لوگوں کو اپنی جھوٹی انا کی خاطر صرف اپنی “بلے بلے” سے غرض ہے آخر امریکہ وغیرہ کا ویزاہ آج کل اتنی آسانی سے تو نہیں ملتا

  11. کاشف نصیر :: ابتدا میں‌نے نہیں‌کی ، آج کل میں‌ فضول قسم کی تینشن لینا فورڈ نہیں کر سکتا۔ میں نے کسی کی تحاریر سے اس کے بارے میں‌ایک تاثر قائم کیا، اور وہ صاف صاف کہہ بھی دیا، اب وہ اگر دل میں‌رکھ کر تین ہفتے بعد پلت کر وار کرے تو دفاع تو میں‌کروں‌گا۔ اچھا ہوا کہ یاسر کے بلاگ کا لنک بھی دے دیا ورنہ لوگ پوچھتے رہتے کیا ہوا۔
    میری عثمان سے کوئی دشمنی نہیں، نہ ہمارا کسی عورت پہ جھگڑا ہوا ہے، نہ زمین مشترک ہے اور نہ ہی میں‌نے عثمان سے کچھی ادھار لیا تھا۔ بس انھوں‌نے بات کی، میں‌نے دفاع کیا۔

    جاوید اقبال :: آپ نے درست کہا مگر اس مراسلے کا سیاق و سباق کچھ مختلف تھا۔ میں‌ نام لے کر بات کرتا تو غدر تو مچنا ہی تھا، مجھے علامتی پھانسی بھی ہو جاتی کئی کئی مرتبہ، غدار اعظم کے لقب کے ساتھ۔

    جاوید گوندل صاحب:: جی بالکل، جواب دینا ضروری ہوجاتا ہے مگر ہم اکثر اوقات جواب بھی شخصیت پرستی کے تناظر میں‌دے جاتے ہیں‌اور معاملہ بگڑ‌جاتا ہے۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اگر برصغیر باک و ہند کی معاشرت پر سے شخصیت/ مردہ پرستی کے اثرات کو ختم کیا جا سکے تو یہ ان لوگوں‌کے لئے ایک ایسی نعمت غیر مترقبہ ہوگی جو اس کے سحر میں‌جکڑے اپنی زندگی، رزق، خاندان اور خاندان کے مستقبل کی صورت میں‌خراج دے رہے ہیں۔

  12. آپ کی شخصیت پرستی کی بات سو فیصد درست ہے۔ ہمارے ہاں ادارے خواہ وہ سیاسی ہوں یا ریاستی، حکومتی ہوں یا غیر حکومتی، تنظیمی یوں یا ابلاغی۔ بجائے اداروں کو مضبوط کرنے کے محض شخصیات کی پرستش کی جاتی ہے۔ اور شخصیات بھی ایسی کہ گھن آئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جب کسی ایک پارٹی کا سربراہ حکومت کا سربراہ ہوتا ہے تب اسے اس ملک کی حکومت کے سربراہ کے “منصب” کی وجہ سے انتہائی عزت و تکریم سے نوازا جاتا ہے۔ اگلے انتخابات میں نیا سربراہ منتخب ہوجائے تو وہی عزت تکریم نئے سربراہ کو دی جاتی ہے۔ آنے والا نیا سربراہ نہ جانے والے سابق سربراہ کو اور نہ ہی اداروں کو کسی ایک کے آنے جانے سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ نہ ہی کوئی مسئلہ اٹھتا ہے۔ حکومت بدل جائے۔ شخصیات منظر سے گُم ہوجائیں تو بھی اس ملک اور اس ملک کے اداروں کی پالیسیز جاری رہتی ہیں۔ کلنٹن آئے یا بُش۔ الگور ہو یا اوبامہ ۔ نظام حکومت اور زندگی کو کئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اور کسی دور میں مسلمانوں میں بھی یہ رواج تھا کہ عزت منصب کی ہوتی تھی نہ کہ شخصیت کی۔

    یہ بر صغیر پاک و ہند کے لوگوں کی بد قسمتی ہے کہ انتہائی بد دیانت ۔ بدکار ۔ خائن اور انتہائی نااہل لوگوں کو یہ خود سے اپنے پہ مسلط کر لیتے ہیں پھر انہی ہی میں سے انھیں خدا اور اوتار کا درجہ دینے والے موقع شناس درباری اور جی حضوریوں کا ایک ایسا طائفہ وجود میں آجاتا ہے جو انہیں ظل الہٰی کا درجہ دے دیتا ہے۔یہ سلسہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کوئی دوسرا طالع آزماء اس کاروبار میں اپنا دول نہیں ڈالتا۔یوں موقع شناسوں اور جی حضوروں کا ایک نیا قبیلہ وجود میں آجاتا ہے جو جلد ہی نئے آنے والے کو ستائش اور چاپلوسی کی ایسی ڈوز دیتا ہے کہ اسے کسی دوسے کی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔

    پاکستان کے بادشاہ لوگوں کے شاہی خاندانوں بھٹو اور شریف وغیرہ جس میں عنقریب مشرف بھی کُود رہا ہے ۔ وہاں یعنی کاروبار حکومت سے یہ سلسلہ چلتے ہوئےڈاکٹرز اور مزدور یونینز حتٰی کہ گاؤں محلے کے عام سے ماحول تک پھیلا ہوا ہے۔ جھوٹ اور خوشامد کا ایک نہ ختم ہونے والا ایسا کاروبار پھیلا ہوا ہے جس میں ہر کسے نا کس کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا اور جس سے پوری قوم کو ماسوائے ندامت اور ناکامی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پوری قوم شغلِ ندامت میں جھکڑی ہوئی ہے۔

  13. لگتا ہے کچھ یوں‌ کہ آپ آج کل ایک سر جو سید بھی تھے پر آنے والی بلاگی معلومات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں‌بظاہر!!!
    یا ہم سے غلطی ہو رہی ہے!

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں