Skip to content

حضرات ایک ضروری اعلان سنئیے

روز صبح ایک نئی آس کی بنیاد پر ایک نئے مستقبل کی تلاش میں ہم اپنے کاموں پہ نکل جاتے ہیں۔ اگر ہم زمیندار ہیں تو کھیتوں کی طرف، اگر نوکر پیشہ ہیں تو اپنے دفتروں کی طرف۔۔ بڑے شہروں میں صبح کے اوقات میں لوگوں کی جلدی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ ہر ایک اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ کسی طور اپنی منزل پر پہنچ کر اپنا کام شروع کر دے۔ اپنے کام میں دلچسپی کی وجہ ہر ایک کے لئے مختلف ہوتی ہے، کسی کو اپنی بیٹی کی شادی کا جہیز تیار کرنا ہے،
کسی کو اپنی بیمار ماں کے علاج کے لئے لیا گیا قرضہ بھی تو اتارنا ہے اور کو ئی صرف اس لئے اپنے کام کی جگہ پر موجود مشکلات کو نظر انداز کر کے وقت
پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے کہ اگر یہ نوکری بھی چھوٹ گئی تو ؟؟؟

زندگی کی یہ دھکم پیل اپنی جگہ بہت دلچسپ بھی ہے اور بہت بے رحم بھی۔

آج کل سردیوں کے موسم میں یہاں جب تقریبا سب ہی نوکری پہ جانے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس دوران ایک اور کام بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی محلے میں ایک عدد رضا کار ایک رقعہ ہاتھ میں تھا مے محلے کی مسجد میں دا خل ہو تا ہے، لاوڈ سپیکر کا سوئچ تلاش کرتا ہے، گلا کھنکار کر صاف کرتا ہے اور پھر ایک خاص لے میں یوں گویا ہوتا ہے

حضرات ایک ضروری اعلان سنئیے۔۔۔

یہ‌ یک عبارتی مگر ذرا طویل اعلان ، آپ سمجھ گئے ہوں گے، کسی کی رحلت کا اعلان ہوتا ہے۔ اس اعلان میں مرحوم کے نام کے ساتھ ساتھ اس کے اہم رشتہ داروں کا بھی ذکر ہوتا ہے جس سے اس کی زندگی میں اس کی سماجی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آج کل ہمارے آس پاس کی مساجد سے اوسطا ۴ کے قریب ایسے اعلان روزانہ ہو رہے ہیں ۔

لباس بدلتے ہوئے، یا ناشتہ کرتے ہوئے جب اس اعلان کی آواز کانوں میں آتی ہے تو دل ایک لمحے کے لئے ڈوب سا جاتا ہے۔ میں اپنے آپ سے نظریں چراتا ہوں۔ کہیں کوئی سرگوشی کرتا ہے، ” تیرے اعلان میں کیا کہا جائے گا؟ ” واقعی، میں‌سوچتا ہوں، میرے بارے میں جب اعلان ہوگا تو کیا کہا جائے گا؟ کیا کسی کا لقمہ منہ تک پہنچنے سے پہلے گرے گا؟ کیا کوئی بال بناتے ہوئے رک کر سوچے گا کہ یہ کون تھا؟ کیا یہ اعلان سنا بھی جائے گا یا لاوڈ سپیکر میں بے وقت کی پھونک سن کر ہی نظر
انداز کر دیا جائے گا؟

سر جھٹک کر میں جلدی سے ناشتہ مکمل کرتا ہوں، لباس بدل کر والدین کو سلام کر کے باہر نکل جاتا ہوں، زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے۔۔ آخر میرے بھی کچھ خواب ہیں۔ میں نے بھی تو کچھ بننا ہے۔

14 thoughts on “حضرات ایک ضروری اعلان سنئیے”

  1. ایسے اعلانات سن کر ہم کو یہی لگتا ہے کہ یہ صرف دوسروں کے لیے ہیں۔۔۔میں تو ابھی فٹ ہوں، مجھے تو یہیں رہنا ہے اور اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتے رہنا ہے۔
    اور ایک دن پتا چلتا ہے کے سوئے ہی رہ گئے۔ بستر سے اٹھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔

  2. آپ اپنی پسند کا اعلان اپنی وصیت میں لکھوا سکتے ہیں۔
    رہی بات نوالہ گرنے والی تو لوگ سامنے پڑا کھانا چھوڑ دیں گے پلائو کے چکر میں۔۔۔
    صبح صبح کیوں ڈرا رہے ہیں جناب ۔۔
    ویسے اپکی تحریر نے سوچنے پر مجبور کر دیا۔۔ لیکن وہی بات کہ دفتر کے کام کرنے ہیں کافی اس وقت۔۔

  3. نہایت فکر انگیز تحریر ہے مگر نفسانفسی کے اس دور میں اس بارے میں سوچنے کیلیے کسی کے پاس اتنا وقت ہی کہاں ہے

  4. خودی کو کر اُداس اتنا کہ ہر تبصرے سے پہلے
    قاری بلاگر سےخودپوچھے بتا تیرا مسئلہ کیا ہے

    ایک بلاگی دانشور کا مقولہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تحریر کو مٹن کے ساتھ پکانے کا انجام موت کڑاہی کی صورت میں نکلتا ہے۔

    1. امن ایمان

      بلا تبصرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کوئی دس بار کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے لیکن پھر سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا لکھوں۔۔۔۔:(

  5. احمد عرفاں:: میں‌ بھی ان اعلانات کو نظر انداز کر دیتا تھا، مگر اب آس پاس کی مساجد کے طاقت ور لاوڈ سپیکروں نے ان اعلانات کو نظر انداز کرنا ناممکن کر دیا ہے۔ موت، بہر حال ایک حقیقت ہے۔ مانیں یا نہ مانیں۔

    امتیاز:: شاہ جی، وصیت والی بات خوب کہی۔

    سعد:: کیا آپ نہیں‌سمجھتے کہ اس بارے نہ سوچنے کی وجہ سے ہی نفسا نفسی کا عالم بنا ہوا ہے؟

    افتخار اجمل صاحب:: بہت خوب۔

    جعفر:: یہ تو بس ایسے ہی لکھ ڈالا۔ تلخ باتیں‌تو ابھی شروع ہی نہیں‌ہوئیں۔:D

    عثمان:: ذرا ان بلاگی دانشور صاحب سے یہ پوچھ کر بتائیے کہ مٹن کڑاہی بناتے وقت چولہے کی آنچ وہ دھیمی رکھتے ہیں‌ یا فرائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔;)

    امن ایمان: اس بلاگ کو کوئی بھی سیریس نہیں‌لیتا اب، آپ بھی اتنا سیریس نہ ہوا کریں۔ 😛

  6. موت اس زندگی کا انجام ہے جس سے ہر ذی روح کو گزرنا ہے۔ یوں ہوتا آیا ہے ۔ یوں ہورہا ہے۔ یوں ہوتا رہے گا۔ ہم سے پہلے والے ۔ ان سے پہلے والے۔ روز سنتے ہیں فلاں مر گیا۔ مگر سمجھتے ہیں کہ شاید یہ صرف کسی دوسرے کے ساتھ ہی ہوگا۔ بے شک انسان سراسر خسارے میں ہے۔

    ہر روز دنیا کی بھاگ دوڑ سے کچھ لمحات نکال کر اپنے آپ پہ۔ اپنے کئے پہ ۔ اپنی اچھائی اور برائی پہ۔ اپنی نیکی اور برائی پہ غور کرنے سے موت کے اعلانات اور موت کی ھقیقت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ۔ انسان اپنے آپ کو ایسے مرحلے کے لئیے بہت تیار محسوس کرتا ہے۔ اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے اور اچھے اعمال میں اضافے کا ارادہ و اعادہ کرتا ہے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے زندگی میں دولت کی حقیقت پوچھی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے چتکی بھر خاک ہوا میں اڑا دی۔ فرمایا یہ ہے۔

  7. میں تو اعلان سن کے سوچتی ہوں کہ میرے مرنے کا اعلان سن کے پتہ نہیں سب سے پہلے کون آئے ہمارے گھر ۔۔ یہ مجھے کیسے پتہ چلے گا 😕 🙁

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں