Skip to content

جگر کی گرمی

آج اور گزشتہ کل کا دن ذرا مصروفیت میں گزرا۔ بہت عرسے بعد نعرے مارنے کو وقت ملا اور احساس ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، اب جب کہ ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، یہ کام اُسی جوش و جذبے کے ساتھ نہیں ہو سکتا جس کے ساتھ ہم نے سنہ 2009 میں یہ سب کچھ کیا تھا۔

گزشتہ برس جب پشاور ہائیکورٹ نے پراونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے انتخابات کے انعقاد پر غیر معینہ مدت تک پابندی لگا دی تھی تو ہم میں سے بہت سوں نے اس پر شکر بھی ادا کیا تھا۔ ہم تھک چکے تھے۔ بیوروکریسی کے روایتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ جہاں تک ہو سکا ہم نے کیا، مگر یہی حکومت جو کہ اپنے ذاتی مفاد کے کاموں میں عدلیہ کی عزت کو جوتے کی نوک پہ بھی نہیں رکھتی، ہمارے معاملے میں فورا عدالتی فیصلے پر عمل پیرا ہو گئی۔ پنجاب میں وائے ڈی اے والوں کو بیوروکریسی نے اپنے شکنجے میں ایسا پھنسایا کہ اب رہی سہی عزت سادات بھی جا رہی ہے۔ بہر حال۔۔

خبر کا پہلا حصہ ملاحظہ کیجئے:
news

ایوب ٹیچنگ ہسپتال میں برائے نام ہی سہی، مگر پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ ہو تو رہی ہے۔ اور بہت سے ڈاکٹرز جو پنجاب نہیں جا سکتے ان کے لئے یہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اب تو پنجاب جا کے کام کرنا بھی ہمارے لئے لندن جانے والی عیاشی ثابت ہو رہا ہے۔ حتی کہ پشاور والے دوست بھی اب ایبٹ آباد کا رُخ کرتے ہیں، بظاہر اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں حالات پُر سکون ہیں۔

ہمارے ملک میں ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکے اپنے وسائل کا بلا شرکت غیرے مالک رہے۔ ڈاکٹر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے جونئرز کو کوئی بھی سکِل یا ہنر اس لئے نہیں سکھاتے کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ جونئیر کل کلاں کو ان کی دُکان کے سامنے آ کر اپنی دُکان بنا بیٹھے۔ اور کسی بات پر یہ لوگ متفق ہوں یا نہ ہوں، اس بات پر سارے سینئر ڈاکٹر متفق ہیں کہ کسی جونئر کو کوئی سکِل نہیں سکھانی۔ ہم لوگ بعض اوقات ترس جاتے ہیں۔ سُنا ہے کہ پنجاب میں حالات اچھے ہیں۔ شائد اچھے ہی ہوں۔

ہمارے ہسپتال میں گیسٹر انٹرالوجی کے واحد ٹریننگ سپروائزر کی مدت ملازمت نومبر 2012 کو مکمل ہو چکی ہے۔ موصوف ساٹھ برس کی عمر تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ اور ترکے میں کسی کو نہ چھوڑا۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ میں کوئی سینئر رجسٹرار، اسسٹنٹ یا ایسوسی ایٹ پروفیسر موجود نہیں جو کہ ان کا جانشین بن سکے۔ جناب کے پاس دس عدد ایف سی پی ایس ٹرینی بھی ہیں۔ اب جبکہ وہ ریٹائر ہو چکے ہیں، ان کے بعد کسی کو تو آنا ہے، ورنہ یہ سب ٹرینی سی پی ایس پی یا کالج آف فزیشنز انڈ سرجنز کے بنائے گئے قوانین کے تحت خوار ہو جائیں گے۔ مگر ٹرینی ڈاکٹر کا کون خیال رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ سرکاری طور پر تعینات کردہ ڈائریکٹر بھی نہیں۔ لہذا اب سب کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔

ایسا نہیں کہ اس بات کا ادراک ہم سب کو ایک دو دن قبل ہوا۔ ہم لوگ اگست 2011 سے مسلسل انتظامیہ کو اس بات کی نشان دہی کرا رہے تھے کہ ان صاحب نے ریٹائر ہو جانا ہے اور ان کا متبادل آنا ضروری ہے، اگر متبادل کو تعینات نہ کیا گیا تو گلگت سے لے کر حسن ابدال تک کے اس مبینہ طور پر ایشیا کے سب سے بڑے ہسپتال کا یہ گیسٹرو ڈیپارٹمنٹ بند ہو جائے گا۔ تین مرتبہ اسسٹنٹ پروفیسر کی اسامی مشتہر ہوئی اور تینوں مرتبہ، میرے ایک کلاس فیلو نے درخواست دی۔ آپ واحد کوالیفائڈ امیدوار تھے اور تینوں مرتبہ یہ انٹرویو کوئی وجہ بتائے بغیر منسوخ کر دئے گئے۔ میرے دوست نے عدالت کا دروازہ جا کھٹکھٹا یا اور اب تاریخوں پہ تاریخیں بھگت رہے ہیں۔

اس دوران ہمیں اندازہ ہوا کہ گیم کچھ اور ہے۔ یہ علم ہوا کہ میڈیسن کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کی نگاہ اس ڈیپارٹمنٹ پر ہے اور موصوف اس ڈیپارٹمنٹ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا پائنمنٹ آرڈر بھی ہوگیا جو کہ ٹرینی ڈاکٹرز کے احتجاج کے بعد محض دو گھنٹے بعد منسوخ ہو گیا۔ ہم سمجھے کہ شائد بلا ٹل گئی۔ اس دوران ہسپتال کی انتظامیہ بدل گئی اور ہم نے سوچا کہ نئی انتظامیہ کم از کم میرٹ پر تو فیصلہ کرے گی۔ انھوں نے بھی ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا۔ اس دوران مختلف سرکارے عہدے داروں سے مذاکرات جاری رہے۔ ایبٹ آباد کےڈی سی او جو کہ اب ڈپٹی کمشنر بن گئے ہیں، کمشنر ہزارہ اور اسی طرح کے دوسرے اہم افراد سے ملاقاتیں جاری رہیں۔ ان سب کا خیال یہی تھا کہ پروفیسر صاحب کو شائد ریٹائر منٹ کے بعد دوبارہ نہ لیا جا سکے مگر نئے اسسٹنٹ پروفیسر کے آنے تک تو ان کو کام جاری رکھنا چاہئے تا کہ ڈاکٹرز اور مریضوں کا حرج نہ ہو۔

پروفیسر صاحب کو چھے ماہ کا ایک عارضی کنٹریکٹ دیا گیا۔ مگر انتظامیہ نے حسب معمول اس کنٹریکٹ کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔ اس مرتبہ حالات اس وقت بگڑے جب ہسپتال کی مینجمنٹ کونسل نے فیصلہ کیا کہ نیا گیسٹر انٹرالوجسٹ لگانے میں تو شائد بہت وقت لگے، پروفیسر صاحب کو بھی ہم نہیں رکھتے۔ ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور یہ وارڈ میڈیسن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہمیں بعد میں علم ہوا کہ میڈیسن کے ایک مشہور پروفیسر صاحب اور ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر نے مینیجمنٹ کونسل کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ وارڈ میڈیسن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کرنے سے کام کی کوالٹی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چنانچہ یہ فیصلہ کردیا گیا۔

ہمیں پتہ ہے کہ بات اتنی سادہ سی نہیں۔ میڈیکل ڈی کیوں نہیں بن رہا اور کیوں اس طریقے سے گیسٹرو وارڈ پر شب خون مارنے سے کس کو فائدہ پہنچا کر کس کا حق مارا جا رہا ہے، مگر ہم سب بے بس ہیں۔ کیونکہ سارے گِدھ جمع ہو چکے ہیں اور اس مُردار جس کا نام ایوب ٹیچنگ ہسپتال ہے کی ہڈیاں تک کھا جانا چاہتے ہیں۔ الیکشن نزدیک ہے۔ کس کو پتہ پھر دوبارہ کب موقع ملے۔

کل شب ہسپتال کے بڑے پروفیسرز کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی۔ شروع شروع میں تو وہ ہڑتال کو بُرا کہہ رہے تھے، مگر جب ان کے سامنے دستاویزات رکھی گئیں تو ان کا نقطہ نظر بدل گیا۔ وہ ہم سے متفق ہو گئے۔ مگر محض اتفاق کافی نہیں۔ جب ہم نے درخواست کی کہ گیسٹرو ڈیپارٹمنٹ کو بچانے کی کوشش میں ہمارا ساتھ دیں تو سارے غائب ۔۔۔

ڈاکٹرز کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کو بند نہ کیا جائے۔۔ ایک نیا گیسٹر انٹرالوجسٹ تعینات کیا جائے جو کہ کم از کم اس وقت موجودہ خلا کو پُر کر سکے۔ بعد میں باقی عہدوں پر تعیناتی ہوتی رہے۔ ڈاکٹرز کو ڈر ہے کہ اگر تین ماہ کے لئے سہی، اس ڈیپارٹمنٹ کو میڈیکل والوں کے حوالے کر دیا گیا تو شائد دوبارہ کبھی یہ اپنے قدموں پر واپس نہ آ سکے۔

ساری دنیا میں اس وقت سپیشلائزیشن کا دور دورہ ہے۔ انٹرنل میڈیسن کے سپیشلسٹ اب آہستہ آہستہ اپنے لئے ایک سب سپیشلٹی لے کر اس کو ہی دیکھ رہے ہیں کہ اسی میں ہی بقا ہے۔ ایک ہسپتال میں گیسٹرو، پلمونالوجی، کارڈیالوجی، نیورالوجی، نیفرالوجی کے ڈیپارٹمنٹس کے ہوتے ہوئے جنرل میڈیکل سپیشلسٹ کی کوئی جگہ نہیں رہ جاتی۔ ہمارے ہسپتال میں اب میڈیکل سپیشلسٹ اپنی بقا کی جنگ کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اور اس دوسرے مرحلے کا پہلا شب خون گیسٹرو ڈیپارٹمنٹ پر مارا گیا ہے۔۔

آج صوبائی وزیر صحت نے ہمارے ہسپتال آنا تھا۔ ہم نے ارادہ کیا تھا کہ ان سے ملاقات کر کے ان کے سامنے یہ صورت حال رکھیں گے، مگر افسوس ان کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ ۔۔
ad

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں