Skip to content

جو لوگ روٹی نہیں خرید سکتے

 جس طرح:

 

کسی بھی شیمپو کے مسلسل استعمال سے بال لمبے نہیں ہو سکتے کہ بالون کی لمبائی کا تعین جینیاتی طور پر ہوتا ہے،
کسی بھی بیوٹی سوپ کے استعمال سے کوئی لیلی ، ممتاز محل نہیں بن سکتی کہ وجہ وہی جینیاتی ہے۔
ڈالڈا کی مامتا اور ماں کی مامتا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
صرف پرفیوم لگا کر کسی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا، خصوصا اگر حلیہ لباس کے حوالے سے “مراثیوں ” والا لگ رہا ہو۔
دنیا کا کوئی بھی شیمپو سر کے بالوں کی عام خشکی کو مکمل ختم نہیں کر سکتا ، سوائے اس کے کہ سر کی خشکی فنگس کی وجہ سے ہو، اور اس کا علاج ہیڈ اینڈ شولڈر جیسے شیمپو نہیں کر سکتے۔
بناسپتی گھی کبھی خالص گھی کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
صرف 35 روپے میں بکنے والی کریم سے محیر العقول معجزات کی توقع ایک بے وقوف لڑکی ہی کر سکتی ہے۔

دودھ والے سے خالص دودھ کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

اسی طرح صرف سیاسی بیانوں سے ملک میں صحت کے شعبہ میں بہتری کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے۔

 ایک ساٹھ سالہ عورت جو اپنی سانس کی بیماری کا بروقت علاج اس لئے نہیں کر واسکی کہ اس کے پاس رقم نہیں تھی۔ اب بیرون ملک مقیم بیٹے کی کمائی کے بل بوتے پر اگر ہسپتال آئی ہے تو نقصان اتنا زیادہ ہے کہ شائد وہ مسلسل آکسیجن کے بغیر رہ نہ سکے۔

جو لوگ روٹی نہیں خرید سکتے، وہ آکسیجن کیسے خریدیں گے؟

8 thoughts on “جو لوگ روٹی نہیں خرید سکتے”

  1. اسی ليے تو ميں نے مراثيوں کو مشورہ ديا کہ جنيٹک پول تبديل کريں سرجری وغيرہ سے تو بہت تھوڑی تبديلی ممکن ہے سياستدانوں بارے بھی يہی ٹرک مفيد ہو سکتی ہے

  2. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    غربت کی انتہاء ہی کہہ سکتےہیں اورکیاکہیں کہ دوائی کےلیےپیسےنہیں بلکہ تواب یہ کہتےہیں کہ روٹی کےلیےبھی پیسےنہیں ہوتے۔

    والسلام
    جاویداقبال

  3. بیانوں اور خطابوں کے ذریعے ہی انشاءاللہ ہم عوام کا گھر پورا کریں گے۔۔۔ اور سارے مسئلے حل کریں گے۔۔۔
    ٹھنڈ رکھیں۔۔۔

  4. پھہپھے کٹنی :: مانا کہ آپ کی مراثیوں سے نہیں‌لگتی مگر میںری اس پوسٹ کا مرکزی خیال مراثی نہیں‌تھے۔ لکھنا کچھ ہور چاہتا تھا، مگر مراثی آج کل ذہن پر چھائے ہوئے ہیں ، شائد ٹائیں‌ٹائیں فش پڑھ لی ہے۔
    :p
    اور مجھے کوئی کچھ کہنے والی اس لئے نہیں‌ہے ، کہ بلاگستان میں بہت ہی کم خدائی خدمت گار خواتین بلاگراں موجود ہیں۔ جو ہیں وہ اپنے اپنے محاذ پر فرنٹ لائن پر لڑ رہی ہیں۔ لہٰذا مزے ہی مزے۔

    افتخار اجمل صاحب:: سیمپل تو اب بھی نہیں لیتا۔ اور میرے پاس آنا ان کی مجبوری ۔ لہٰذا میں‌بغیر کسی خوف و خطر کے سب کچھ کہہ سکتا ہوں ‌کیونکہ ۔۔:)

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں