Skip to content

جوتا

آج ایک بہت اہم اور اعصابی لحاظ سے تھکا دینے والا دن تھا۔ آج صوبے کے ڈاکٹروں کی جزوی ہڑتا کو شروع ہوئے چوتھا دن تھا۔ جزوی اس لئے کہ ایمرجنسی سروسز کے علاوہ سب کچھ تعطل کا شکار ہے۔ صوبے کے چار تدریسی ہسپتال اس جزوی ہڑتال میں شریک ہیں جن میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور، ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد ، خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور شامل ہیں۔ بلاگنگ کے ابتدائی دنوں میں میں نے اپنے دوستوں کی سہولت کی خاطر اپنے بلاگ کو پریس ریلیز کے لئے بھی استعمال کیا۔ اردو وہ لکھ نہیں پاتے تھے کمپیوٹر پہ تو میں ایک عدد بلاگ پوسٹ بنا دیتا۔ اس کے بعد وہ اپنی سہولت کی مطابق اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کر کے اس کا پرنٹ آؤٹ نکال کر اخباروں کو فراہم کر دیتے۔ یو ں یہ سلسلہ چل نکلا۔
۲۰۰۸ سے اب تک بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس وقت متحرک تنظیمیں صوف دو ہوا کرتی تھیں۔ ایک ہماری پی ڈی اے یا پراونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور دوسری ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن پاکستان۔
اب صورت حال کافی مختلف ہو چکی ہے۔ تین برس بعد میں جب صورت حال کا جائزہ لینا چاہتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ جو ڈاکٹر آواز اٹھانا چاہتے ہیں وہ سب سے پہلے ایک عدد وائے ڈی اے بناتے ہیں۔ یہ ایک ٹرینڈ چل نکلا ہے۔ پھر اس وائے ڈی اے کی تحریک کی کامیابی کے بعد اس علاقے کی ایک بڑی تنطیم بالآخر اس مسئلے کو اپناتی ہے اور یوں مسئلہ منظر عام پر آتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ایک اور تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ اب سیاستدان ڈاکٹرز کے مسائل کو اپنا ذاتی حساب چکانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال وائے ڈی اے پنجاب کی ابھی حال میں ہی ختم ہونے والی تقریبا چالیس روزہ ہڑتال تھی جس میں انھوں نے ایمرجنسی بند کرنے کا آخری قدم بھی اٹھا لیا تھا۔ پنجاب حکومت نے ان کی بات تب بھی کیوں نہ مانی یہ ایک لمبی کہانی ہے کیونکہ اس میں سیاست دان شامل ہو چکے تھے اور ڈاکٹرز کے مسائل کے پس پردہ اپنے ذاتی حساب چکائے جا رہے تھے۔ ہم اس صورت حال سے واقف تھے۔ کچھ کچھ اندازہ ہمیں بھی تھا، مگر ہمارے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ان کے مطالبات گو کہ وہی تھے جو ہمارے بھی تھے، مگر طریقہ کار اور پھر کچھ بیک گراؤنڈ اطلاعات کی بنیاد پر ہمیں ان سے اختلاف تھا۔ ہم اس لئے خاموش رہے۔ ہمارے بہت سے مخلص اور جذباتی کارکنوں نے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہمیں ان کے ساتھ شامل نہ ہونے پر بِک جانے کا طعنہ دیا گیا۔ گزشتہ الیکشن میں شکست خوردہ عناصر نے ینگ ڈاکٹرز کے نام سے ایک علیحدہ تنظیم بنا کر احتجاج کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا اور اگر یہ ہو جاتا تو شائد ہم اور مشکلات میں گھر جاتے۔

مگر جب نیتیں صاف ہوں تو راستہ آسان اور منزل نزدیک ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ینگ ڈاکٹرز والا قصہ اس لئے چل نہ سکا کہ اُن کا اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر انھوں نے ہڑتال کی کال بھی دی تو شرمندگی کے علاوہ کچھ نہ ملے گا۔ وہ معاملہ ادھورا رہ گیا۔
ہمارے نمائیندے حکومت سے آخر دم تک مذاکرات کرتے رہے۔ بدقسمتی سے ہمارے صوبائی بیوروکریسی میں ایک دو کالی بھیڑیں ایسی ہیں جو ڈاکٹروں کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دئے اور ۷ اپریل ۲۰۱۱ کے بعد سے مسلسل تنبیہات کے بعد بھی جب حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو ہڑتال۔

آج اسی سلسلے میں ایک جنرل باڈی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ میٹنگ میں پورے صوبے سے ڈاکٹرز جکے نمائیندے شریک ہوئے۔ اگرچہ یہ میتنگ صرف ہمارے ادارے کے ڈاکٹرز سے متعلق تھیم مگر اس کی اہمیت کچھ اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ پنجاب سے وائے ڈی اے کے دونوں دھڑوں کے نمائیندے خصوصی طور پر پہنچے۔ مانسہرہ، ہری پور، بٹگرام، اور دیگر علاقوں کے ڈاکٹرز پہنچے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن آزاد جموں کشمیر نے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا کے منتخب صدر ڈاکٹر اظہر جدوں جو کہ مقامی طور پر ایک متحرک شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، اپنی کافی مصروفیات پس پشت ڈال کر جنرل باڈی میٹنگ میں شرکت کے لئے چلے آئے۔
گویا یہ ایک سیاسی سا اجتماع بن گیا تھا۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ہمیں مقامی طور پر کسی کو شرکت کے لئے کھینچ لانے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ گو کہ ہم نے ایک جارحانہ ایس ایم ایس مہم ضرور چلائی، مگر یہ ڈاکٹرز کا اپنا شعور تھا جو ان کو میٹنگ میں شرکت کے لئے لے آیا۔

بعد میں کھانے پر ہلکی پھلکی بات چیت ہو رہی تھی تو ایک ڈاکٹر صاحب نے پبلک سروس کمیشن کے حالیہ انٹرویو کا واقعہ سنایا۔ انھوں نے بتایا کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس ایک بچہ آتا ہے اور وہ لنگڑا کر چل رہا ہے۔ آپ کی کیا تشخیص ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب نے کافی بیماریوں کے نام لئے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے، فلاں بھی اور فلاں بھی، مگر انٹرویو لینے والے صاحب جو کہ ڈاکٹر نہیں تھے، مُصر تھے کہ سارے جواب غلط تھے۔ آخر کار زچ آ کر ڈاکٹر صاحب نے ان سے پوچھا، کہ وہ خود ہی بتا دیں کیا تکلیف ہو سکتی ہے بچے کو۔
ان صاحب نے مسکرا کر کہا، بچے کا جوتا تنگ تھا اس لئے وہ لنگڑا کر چل رہا تھا۔

2 thoughts on “جوتا”

  1. پوسٹ کا عنوان اور پہلا پیرا پڑھ کر لگا کہ یہ جوتا ہوتی کو ہوتے گا
    اور آپ کو دوست کو کہنا چاہیے تھا نہیں اس کا جوتا تنگ نہیں تھا بلکہ اس کے پائوں میں خارش تھی کہ جو ایسے سوال پوچھتا ہے اس کی تشریف پر لات رسید کروں گا تو تب خارش ختم ہو گی

  2. پنجاب ميں کچھ لوگوں نے ڈاکٹرز کی ہڑتال کو شہباز شريف کے خلاف استعمال کنے کی پوری کوشش کی اور کسی حد تک کامياب بھی رہے ۔ ميرا سب سے چھوٹا بھائی پروفيسر ہے ۔ گچونکہ وہ ہڑتال مين سامل نہ تھا اور بہت سينئر اور ہمدرد ہونے کی وجہ سے اُس کی بات ينگ ڈاکٹرز کافی مانتے تھے ۔ ميں نے اُسے کہا کہ ينگ ڈاکٹرز کو مشورہ دے کہ اگر کاميابی اور عوام کی سپورٹ چاہتے ہيں تو سياستدانوں اور بيوروکريٹس سے بچيں مگر اسے بھی ميری بات سمجھ ميں نہ آئی ۔ وہ تو بات کسی طرح شہباز شريف تک پہنچ گئی تو اُس نے سارا معاملہ اپنے ہاتھ مين لے ليا ۔ نوجوان ڈاکٹر جانتے نہيں تھے کہ پاکستان کے قانون اور آئين کے مطابق اُنہيں کام مکمل طور پر چھوڑنے کی اجازت نہيں ہے

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں