Skip to content

تھکن

کل شام کافی عرصے بعد ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں میڈیکل کالج میں ہم جماعت تھے۔

باتوں باتوں میں روٹین کے سوالات شروع ہو گئے جو کہ کچھ اس نوعیت کے تھے:

“سپیشلائزیشن کہاں‌تک پہنچی”
“کہاں پہ کام کر رہے ہو”
” آگے کیا ارادہ ہے”؟
“سنا ہے آسٹریلیا کے بعد اب انگلینڈ میں بھی پاکستانی ڈاکٹروں کے لئے آسانی پیدا ہو گئی ہے”

امریکہ جانا مشکل ہو گیا ہے”
“کینیڈا کے لئے کوشش کی تھی، کامیاب نہ ہوسکا”
“‌عرب بورڈ بھی اچھا ہے”

“میں‌تنگ آ گیا ہوں اس زندگی سے، شام کو گھر والوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا وقت بھی نہیں‌ملتا۔”

بہت سے لوگ اپنے آس پاس کسی ایک مالدار ڈاکٹر کو دیکھ کر اس مید میں‌ اس شعبے میں‌قدم رکھتے ہیں‌کہ جیسے ہی ڈگری ہاتھ آئی، دھن برسنا شروع ہو جائے گا۔ مگر حقیقت اس سے کافی مختلف ہے۔ گریجویشن کے بعد، ہمارے ملک کی سرکاری مساوات ایک ڈاکٹر جس نے کُل ملا کر سترہ سال پڑھا ہوتا ہے، ایک انجینئر، ایک استاد، ایک آرٹس گریجویٹ اور ایک ایکنامکس گریجویٹ‌ میں‌کوئی فرق نہیں‌کرتی۔ جس کا نتیجہ سرکاری اور غیر سرکاری دونوں‌جگہوں‌ پر ان پروفیشنلز کا استحصال ہے جو باقی لوگوں‌سے زیادہ پڑھے ہوتے ہیں۔

ایک ذیلی سوال یہاں‌ پہ ہم سب کی توجہ مانگتا ہے، اور وہ سوال یہ ہے کہ ” کیا تعلیم کا مقصد صرف نوکریاں حاصل کرنا ہے؟”

اس پہ بات بعد میں۔

مشاہروں کے حساب سے جو بھی مساوات معاشرے میں‌چل رہی ہے اس کا نتیجہ کم از کم ڈاکٹرز کے لئے مایوسی کی صورت میں‌نکلتا ہے۔ ہمارے ٹیچنگ ہسپتال کی مثال لے لیں۔ سترہ سال پڑھنے کے بعد بھی آپ اس کالج سے ڈگری لینے کے بعد بھی، اس ہسپتال میں‌ملازمت بآسانی نہیں‌لے سکتے۔ اکثر انٹرویوز یا تو مؤخر ہو جاتے ہیں، یا اگر ہوتے بھی ہیں‌تو سفارشی حضرات جو کہ افغانستان یا دوسری جگہوں‌سے ایم ڈی کی ڈگری لے کر آئے ہوتے ہیں، منتخب کر لئے جاتے ہیں۔
اس ہسپتال میں‌ایک بات اور بھی ہے۔ آپ نے اگر ایف سی پی ایس پارٹ ون کیا ہوا ہوتا ہے تو آپ کو انٹڑویو کے لئے شارٹ لسٹ نہیں‌کیا جاتا، کہ آپ تو پہلے سے ہی کام کر رہے ہیں۔ ایف سی پی ایس پارٹ 1 کا مطلب ہے، آپ کا انٹڑویو نہیں‌ہوگا۔ مزے کی بات، اس بات کا سب کو علم ہے، زبانی کلامی یہ بات ہوتی ہے، مگر یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ کاغذوں‌میں‌یہ بات نہ آنے پائے، اس لئے ایک دو دانے ایسے چُنے جاتے ہیں‌جو سفارشی ہوتے ہیں، اور انھوں‌نے پارٹ 1 بھی کیا ہوتا ہے۔

یہی حال ایوب میڈیکل کالج کے لئے لیکچررز کے انٹر ویو میں‌ہوتا ہے۔ آپ نے پارٹ 1 کیا ہے تو آپ منتخب نہیں‌ہو سکتے۔ حال آنکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز پہ تنقید کرنے والے بھول جاتے ہیں‌کہ ایوب میڈیکل کالج میں‌اس وقت ایسی بہت سی آسامیاں‌ہیں‌جو کہ اگر پُر نہ ہوئیں‌تو پی ایم ڈی سی کے قواعد کے مطابق اس کالج کی منظوری ختم کی جا سکتی ہے۔

یہ بات یہاں ‌پہ چھوڑتے ہیں۔ اپنے معیاری زندگی میں‌بہتری کو اپنا حق سمجھتے ہوئے پھر ڈاکٹروں‌کو بہتری لانے کے لئے آگے پڑھنا بھی پڑھتا ہے۔ آگے کی پڑھائی 4-5 سال مزید کی ہے، ایک سے دو سال اس میں‌امتحان پاس کرنے کی کوششوں‌ میں‌لگ جاتے ہیں‌کیونکہ یہ امتحان اپنے مقررہ وقت پہ ہوتے ہیں، آپ اپنی مرضی سے یہ امتحان نہیں‌لے سکتے۔

اس کے بعد سرکاری اداروں‌میں‌انھیں‌گریڈ 18 ملتا ہے۔ ایم بی بی ایس کے بعد گریڈ 17 ملتا ہے۔ جس کی آغاز کی تنخوا 12000 سے 15000 کے درمیان ہے۔ یہاں پہ اکثریت کے پاس اپنا گھر، اپنی گاڑی یا اس قسم کی دوسری “عیاشیاں” کرنے کو وسائل نہیں‌ہوتے۔ لہٰذا اکثریت پرائیویٹ پریکٹس شروع کر دیتی ہے۔
جِن کی پرائیویٹ پریکٹس چل پڑتی ہے، وہ کہیں کے نہیں‌رہتے۔ صبح بھی کلینک، دوپہر کو تھوڑی دیر کو آرام کیا، سہ پہر اور شام، یا پھر کبھی کبھی رات گئے تک کلینک، اور پھر واپسی۔ ہفتے کے چھے دن یہ چکر چلتا ہے، اگر شادی شدہ ہیں‌تو بچوں‌کا خیال رکھنے کو وقت نہیں‌ہے، الا ماشاٰاللہ ان کے جن کے ازواج اس صورت حال میں اپنی ذمہ داری کا احساس کر لیتے ہیں۔

جنھوں‌نے شروع میں‌ پرائیویٹ پریکٹس نہیں‌کی وہ پوسٹ گریجویشن کا انتظار کرتے ہیں‌اور اس کے چکر میں‌پانچ سے سات سال اور لگا دیتے ہیں اور اس پوسٹ گریجویشن کے بعد بحیثیت سپیشلسٹ اپنی پریکٹس ‌کا آغاز کرتے ہیں۔

مگر یہ لوگ مشینیں‌نہیں ہیں۔ یہ بھی انسان ہیں، ان کی بھی خواہشات ہیں‌جن کا احساس بہت کم لوگوں‌کو ہے۔یہ باتیں‌کل شام پھر سے تازہ ہو گئیں جب میرے دوست نے تھکن کا اظہار کیا۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ کوئی معجزہ ہو جو اس گھن چکر سے انھیں‌نجات دے۔ تا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے گھر والوں‌‌کے ساتھ کچھ وقت گزار سکیں۔یہ پڑھائی ، یہ روٹین ، یہ کتابیں کبھی جان نہیں‌چھوڑیں‌گی۔ شائد موت جان چھڑادے۔

7 thoughts on “تھکن”

  1. جی یہی تعلیمی نظام صیہونیوں کی ایجاد ہے۔ جسمیں طلباء کو بچپن ہی سے اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ نوکریوں کے سبز باغ دکھا کر پھنسا دیا جاتا ہے۔ اور قرض میں ڈوبی یہی قوم بعد میں یہ سبز خواب نہ پورے ہونے پر اپنی قسمت کا رونا روتے ہوئے جان دےدیتی ہے 🙁

  2. حقیقت یہ ہے کہ ہم پڑھائی نوکری کےلیے کرتے ہیں
    میں نے بھی نوکری ملتے ہی پڑھائی کو خیر باد کہہ دیا تھا لیکن اتنے سال بعد پھر خیال آیا اور میں نے امتحان دے ڈالا ایک ماہ ہی ملا مجھے تیاری کے لیے لیکن ایک ہفتہ بھی پڑھائی نہیں‌کی
    کہاں‌ایک سال کی محنت اور کہاں دوچار دن کی پڑھائی
    یار دوستوں نے امتحان کے لیے راضی کیا تھا اور انہی کو کوستے امتحان دے ڈالا
    اللہ خیر کرے

  3. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    زندگی توپوری کی پوری امتحان گاہ ہی ہے۔ واقعی انسان بہت سےسہانےخواب دیکھتاہے۔ اورجب ان خوابوں کی کرچیاں اس کی آنکھوں میں چھبتی ہیں توبہت دردہوتاہے۔ اللہ تعالی ہم سب کواپنےنیک مقاصدمیں کامیاب و کامران کرے۔ آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال
    .-= جاویداقبال´s last blog ..¿Un 5% nuestro o un 2% de todos? =-.

  4. جہاں تک تھکن کا سوال ہے ڈاکٹر اس کے خود ذمہ دار ہیں‌کیونکہ وہ قناعت پسندی اختیار کرنے کی بجائے دوسروں کی طرح دھن اکٹھا کرنے میں‌ کوہلو کے بیل بن جاتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو اپنی پریکٹس محدود کر کے اپنی فیملی کیلیے وقت آسانی سے نکال سکتے ہیں۔ مگر کیا کریں جب آمدنی کیساتھ اخراجات بڑھتے ہیں تو پھر تفریح کیلیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔

  5. ہمارے ملک ميں 1955ء کے قوانين کے تحت ايک اچھا نظام چل رہا تھا جس ميں زيادہ پڑھے لکھے اور مشکل نصاب پڑھنے والے کو ترجيح دی گئی تھی ساتھ ساتھ انگريزوں کا بنايا ہوا قانون چل رہا تھا جس ميں سرکاری ملازم کی 4 قسميں تھيں ۔ کلاس ون ۔ کلاس ٹو ۔ کلاس تھری اور کلاس فور ۔ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کلاسز ختم کرنے کا نعرہ لگا کر 23 کلاسز بنا ديں ۔ دوسرا کام جو انہوں نے کيا يہ تھا کہ ايم بی بی ايس ۔ بی ايس سی انجنيئرنگ ۔ ايم اے اور ايم ايس سی کو برابر کر ديا اور پی ايچ ڈی انجيئرنگ اور عام پی ايچ ڈی خواہ کسی بھی مضمون ميں ہو کو برابر کر ديا ۔ پی ايچ ڈی انجنيئرنگ کرنے ميں بی ايس سی انجنيئرنگ کے بعد کم از کم 7 سال لگتے ہيں اور مُلک سے باہر جانا پڑتا ہے جبکہ کسی عام مضمون ميں پی ايچ ڈی کرنے ميں بی ايس سی يا بی اے کے بعد صرف 4 يا 5 سال لگتے ہيں اور ملک کے اندر ہی ہو جاتی ہے
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..ڈرامہ اور حقيقت =-.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں