Skip to content

بیان کچھ متقی حضرات کی ایبٹ آباد کانفرنس کا۔۔۔

جمعے کی شام مجھے مولوی لینکس کے ایس ایم ایس سے اندازہ ہوا کہ ان کا قافلہ ایبٹ آباد سے اڑتیس کلومیٹر دور تھا۔ میں اس وقت ایک دوست کے آپریشن کی وجہ سے مصروف تھا۔ جواب دینے کی ٹھانی اور پھر بھول گیا۔ اگلی صبح ایک اور ایس ایم ایس سے اندازہ ہوا کہ باقی سب سو رہے ہیں اور سعد جاگ رہا ہے۔ میں نے محل وقوع جاننے کی کوشش کی اور کئی سوالات کئے مگر ایک نا آشنا انسان کسی کو کیا پتہ بتا سکتا ہے۔ مجھے آج تک اس سڑک پر آشیانہ ہوٹل نظر نہیں آیا اور سعد نے بتایا کہ وہ آشیانہ ہوٹل سے گزر کر آگے گئے۔ گوگل میپس کے کوآرڈینیٹس بھیجنے کی ایک اچھی کوشش تو کی اُس نے مگر اس کا فائدہ انھی لوگوں کو ہو سکتا ہے جو سمارٹ فون استعمال کرتے ہوں۔ پرانے زمانے کے نوکیا سیٹس پر گوگل میپس کہاں چلے؟؟ ویسے بھی سامسنگ گلیکسی شیٹرڈ ڈریمز کے مقابلے میں تو میرا فون پانی بھرتا بھی نہ دکھائی دیا۔

بہر حال میں توقع کر رہا تھا کہ دوپہر کے کھانے پر سب سے ملاقات ہو جائے گی ، مگر سیاحوں کو دیر ہو گئی۔ مولوی لینکس، انکل ٹام اور ان کے ساتھی ہرنو کیا گئے کہ کھو ہی گئے۔ ان کے دیر سے آنے سے یہ فائدہ کم از کم ہو گیا کہ جس دوست کا آپریشن ہوا تھا، اس کو ہسپتال سے ڈسچارج کر کے گھر بھیجنے کا بندوبست کرنے کا وقت مل گیا۔

کھانے کی ٹیبل پر میری توقع سے زیادہ مدعوئین موجود تھے۔ ان میں سعد، انکل ٹام، ان کے دوست عامر شاہ، ان کے دوست ضیا الدین، اور انکل ٹام کے ایک بچپن کے دوست تھے جن کا نام میں بھول رہا ہوں۔ جو صاحب نہیں موجود تھے وہ حافظ سعد یا بنیاد پرست صاحب تھے۔ ان کا آنا تو متوقع تھا، مگر اندازہ نہ تھا کہ جب وہ پہنچیں گے تو ہم سب کھانا کھا چکے ہوں گے۔

اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ اس ملاقات پر اردو بلاگنگ بارے بزرجمہروں نے اپنے اپنے تجربات سے سامعین کو آگاہ کیا ہوگا تو مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا بالکل نہ ہوا۔ اردو بلاگنگ بارے صرف دو یا تین سوال ہوئے۔ مجھ سے میرے بلاگ کا پتہ پوچھا گیا۔ اور انکل ٹام سے ثانیہ بارے بار بار پوچھا گیا۔ جس کی انھوں نے وضاحت کر دی کہ ایک فرضی کردار ہے۔

حافظ سعد سے بات چیت کی تمنا تو تھی مگر وہ دیر سے پہنچے اور سب کے چہروں سے تھکن کافی نمایاں تھی۔ میں نے اپنے طور پر گفتگو چلانے کی کوشش کی مگر مجھے احساس ہے کہ میں شائد کامیاب نہ ہو سکا۔ زیادہ تر خاموشی چھائی رہی جس میں زیادہ حصہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے میں صرف ہوا۔ مجھے بعد میں مولوی لینکس کے ہمراہ آوارہ گردی میں اسی کی زبانی علم ہوا کہ یہ سب حضرات اپنی توانائی کا کافی حصہ دقیق قسم کی علمی ابحاث میں صرف کر چکے تھے اور اسی لئے خاموش تھے۔

اب آپ توقع کر رہے ہوں گے کہ اس ملاقات کی تصاویر سامنے آئیں گی۔ جی نہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب تھکے ہوئے تھے، مولوی لینکس کی طبیعت ناساز تھی اور اس کا شیٹرڈ ڈریمز اس کی جیب میں بند پڑا تھا۔ مجھے بلاگ پوسٹ کی خاطر تصاویر کھینچنے یا کھنچوانے کا خیال تو آیا مگر اپنے سامنے بیٹھی اتنی علمی اور متقی شخصیات کو دیکھ کر یہ خواہش زبان پر لانے کی ہمت نہ کر سکا اور خاموش رہا۔

حافظ سعد دیر سے آئے اور ان سے ملاقات کر کے اندازہ ہوا کہ ہمارا آمنا سامنا ایک دو مرتبہ ہو چکا ہے مگر بالمشافہ ملاقات نہ ہوئی تھی۔ بہر حال ، کچھ دیر انکل ٹام کی شادی پر بات چلی اور مجھے اب یاد نہیں کس نے کیا مشورہ دیا۔ شائد انکل ٹام کو یاد ہو۔ میرے سامنے جتنے بھی افراد تھے، دو کے سوا باقی سب متشرع داڑھیوں والے تھے۔ اب میں کچھ کہہ بھی نہ سکتا۔ کہتا تو کیا کہتا، اور اچھا ہی ہوا۔ جیسا کہ مولوی لینکس کی باتوں سے اندازہ ہوا، اگر کچھ کہتا تو اصلیت ظاہر ہو جاتی میری۔
اللہ نے ان سب کے سامنے عزت رکھ لی۔

کھانے کے بعد ہم جدا ہو گئے۔۔ مولوی لینکس میرے ساتھ اور باقی گروپ جو کہ تھکا ہارا تھا، الگ اپنی راہ چل دیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور مولوی لینکس کو ساتھ لے کر آوارہ گردی مشن پر چل نکلا۔ ہماری منزل ایک چشمہ تھا، جس میں خلاف توقع پانی کم نکلا۔ وہیں سامسنگ گلیکسی شیٹرڈ ڈریمز کے ذریعے تصاویر بنائی گئیں۔ مگر پتھروں، پانی اور کچھ کیڑے مکوڑوں کی۔ مولوی لینکس نے حتی الامکان کوشش کی کہ غلطی سے بھی میری کوئی تصویر کھنچ نہ جائے اور میری تمام پوز بنانے کی کوششیں ضائع گئیں۔ واپسی پر ذرا سا مسئلہ ہوا اور اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ جی پی ایس پوزیشننگ ہر وقت کام نہیں آتی۔ اور یوں ہمیں ایک دو گلیوں میں گھسنے اور نکلنے کے بعد میزبانوں کو فون کر کے پتہ معلوم کرنا پڑا۔

انکل ٹام سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ ان کا گروپ پیدل اسی سمت گیا تھا جس طرف ہم۔ بس انھوں نے ایک ہی پہاڑی پر چڑھ کر ایبٹ آباد کا نظارہ کرنے پر اکتفا کیا۔ مولوی لینکس نے تصاویر تو اچھی جگہ سے کھینچی ہیں، دیکھئے نتیجہ کمپیوٹر سکرین پر کیا نظر آتا ہے۔ امید ہے وہ جلد ہی اپنے فیس بک یا بلاگ پہ وہ تصاویر شامل کر دے گا جن میں کوئی اردو بلاگر نظر نہیں آیا۔۔

یوں ایک اردو بلاگر کانفرنس کا اختتام ہوا۔

7 thoughts on “بیان کچھ متقی حضرات کی ایبٹ آباد کانفرنس کا۔۔۔”

  1. جزاک اللہ جزاک اللہ
    بس ہر بندہ ایسی پوسٹیں لکھنا شروع کر دے تو مولوی لینکس جیسے بندوں کا جو اس آس پر بلاگروں سے ملتے پھرتے ہیں کہ ان بارے ایک پوسٹ لکھی جائے خوب سد باب ہو سکتا ہے
    🙂

  2. بنیاد پرست

    ڈاکٹر صاحب اصل میں یہ میٹنگ کسی پلاننگ کے تحت بالکل نہیں تھی، خود مجھے تیس منٹ پہلے سعد نے میسج کرکے بتایا کہ منیر عباسی صاحب فلانے ہوٹل میں ہمارا انتظار کررہے ہیں وہاں پہنچو، اسی وجہ سے پہنچتے پہنچتے دیر بھی ہوگئی، ویسے رستے میں میں نے کچھ پوائنٹس سوچ لیے تھے کہ ان پر بات چیت کریں گے جیسے جدید دورمیں مذہبی بلاگنگ، اردو بلاگنگ عالمی معیار کے مطابق کیسے، سیکولرازم اور لبرل ازم کے چیلنجز، بلاگ ریڈرز کی پسند کے مطابق بلاگ تحاریر اور انکے سٹائل میں تبدیلی وغیرہ. مجھے امید تھی کہ آپ سے بات ہوگی اور باقی بھی شئیرنگ کریں گے فائدہ مند پوائنٹس سامنے آئین گے .. لیکن جب آپ کے پاس پہنچا 🙂 آپ ضیاء صاحب کے ساتھ میڈیکل کے شعبے پر بات چیت کررہے تھے اور باقی خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے. . . بعد میں ارسلان کے پاس بیٹھا آپ بھی آئے لیکن ٹائم اتنا گزر چکا تھا کہ ڈسکشن سٹارٹ کرنا اچھا نہیں لگا. بس ارسلان اور سعد سے ہلکا پھلکا مذاق ہی کرتا رہا . . خیر زندگی رہی تو آئندہ ملاقات میں بلاگنگ پر بات چیت کریں گے. انشاء اللہ

  3. یار باش لوگوں کے لئے تعارفی پوسٹیں فائدہ مند ہیں، دوستوں کا حدوداربعہ اور حلیہ معلوم پڑ جاتا ہے۔ شکریہ

  4. محمد صابر:: مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو رہا ہے اس تبصرے کے سیاق و سباق کا۔ :۔ڈ آپ کا تبصرہ شائع ہو گیا تو مطلب تبصروں کا نظام کام کر را ہے۔

    علی:: ان بلاگروں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اس آس پر لوگوں سے ملاقات کا احوال لکھتے ہیں کہ جوابی پوسٹ میں ان کی تعریف ہو گی؟ :۔ڈ

    بنیاد پرست:: اس ساری بد انتظامی کا زمہ دار سعد ہے۔ میں نے اس کو صبح ہی بتا دیا تھا کہ آپ سے ملاقات کرنی ہے۔ پہلے اس نے کہا کہ آپ کی واپسی پر سب آپ کے ساتھ آئیں گے۔ پھر میں نے بتایا کہ بہت دیر ہو جائے گی تبھی وہ سیدھے ہوٹل کی طرف آئے اور آپ کو بھی وہیں آنے کا مشورہ دیا۔ باقی کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ضیا بھائی ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ڈاکٹر مسیحا ہوتے ہیں۔ اور میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر مسیحا نما ہو سکتے ہیں، مسیحا نہیں۔ بہر حال امید پہ دنیا قائم ہے۔

    محمد سلیم اور مانی :: تشریف آوری کا شکریہ۔

  5. عباسی صیب بڑا بُرا خیال ہے۔ دیکھیں میں نے دو بلاگروں کو ایک پوسٹ میں فٹ کیا انہوں نے جوابی لفٹ ہی نہیں کرائی۔۔۔ 🙂

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں