Skip to content

اپنا اپنا اسلام

آج قریب کی ایک مسجد میں کوئی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ سہ پہر کو کسی کام سے نکلا تو دیکھا تو مسجد کے آس پاس کافی ہلا گلا دیکھا۔ ایک عدد کالعدم جماعت کے کارکنان ایک نئے سلوگن کو جو کہ کپڑے کی ایک پٹی پہ لکھا تھا، سر سے باندھے انتظامات میں مصروف نظر آئے۔

اس اہتمام کو دیکھا تو ذہن میں ایک ہی خیال آیا کہ آج تو دماغ کی بھجیا بنے گی۔ ہوا وہی مگر مغرب کے بعد۔ عصر سے لے کر عشا کے بہت بعد تک مسجد کا لاوڈ سپیکر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا رہا۔ میرے ایک بہت محترم استاد صاحب کے چچا یا ماموں بد قسمتی سے اس مسجد کے ہمسائے میں رہائش پذیر ہیں، ان کی حالت کا سوچ کر تو دل کانپ اٹھتا تھا۔

اصل کام تو مغرب اور پھر عشا کے بعد ہوا جب مسجد کے امام صاحب نے پہلے تو مختصر مگر عشا کے بعد طویل جلالی خطاب کیا۔ حکمرانوں کو للکارنے کی عادت ان کی گئی نہیں، مگر پھر احتیاطا کچھ دن روپوش بھی رہ آتے ہیں۔ رات کا کھانا کھاتے ہوئے ابا جان سے مولوی صاحب کے بیان پر بات کرنے کی کوشش کی ، جو کہ اس وقت بھی اپنی آب و تاب سے جاری تھا، تو انھوں نے میری اپنی کچھ خامیوں کی نشاندہی کر کے کہا کہ ہم سب نے اپنی اپنی مرضی کا اسلام بنا لیا ہے۔ ہمارے اپنے معیارات ہیں جن کے ،مطابق ہم نے کچھ کاموں کو نیکی یا بدی کے زمرے میں داخل کر لیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جمعہ کی نماز میں خطبہ مختصر اور نماز طویل ہونی چاہئے، مگر ہمارے ملک کے طول و عرض میں اس کے بر خلاف ہی عمل ہوتا نظر آتا ہے۔ انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے اساتذہ بتاتے تھے کہ قیام پاکستان سے پہلے جمعہ کی نماز اس طرح نہیں ہوتی تھی، بلکہ عربی کے دو خطبے پڑھے جاتے، نماز ادا کی جاتی اور اس کے بعد ، اگر کوئی ایسا موقع ہوتا تو، اعلان کیا جاتا کہ فلاں عالم دین تشریف لائے ہیں اور وہ خطاب فرمائیں گے۔ جن کو سننا ہوتا تھا، وہ بیٹھ جاتے اور جن کو نہ سننا ہوتا وہ چلے جاتے، پتہ نہیں‌ کیسے آہستہ آہستہ یہ خطاب جمعے کی نماز سے پہلے آ گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ایک نئی بدعت چندے کی بھی شروع ہوئی۔ پہلے یہ سب کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اور اب تو بلا تمیز مسلک سب اس چندے کی دوڑ میں‌ شامل ہیں۔

یہ سب باتیں سن کر میں حیران تو ضرور ہوا، مگر دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوئی کہ کاش وہ زمانہ پھر اسی طرح واپس آجائے، اور اسی طرح کا سادہ سا اسلام ہو ہمارے آس پاس۔

مگر شائد یہ معاشرتی بے ترتیبی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔

9 thoughts on “اپنا اپنا اسلام”

  1. جی اسلام اب بھی ویسا ہی سادہ سا ہے بس آپ فرائض کے علاوہ ادھر آدھر کی باتوں پر توجہ ہی مت دیں۔۔
    اور ہو سکے تو مولونا یوسف کاندھلوی کی کتاب ”حیات صحابہ” پڑھئے ۔ اس سے اپ کو اندازہ ہو گا کہ بہت سی ایسی چیزون کو جن کو ہم اچھا سمجھتے ہین درحقیقت بری ہیں۔۔

  2. گيا وقت پھر ہاتھ آتا نہيں مگر اس جيسا نيا دور بنايا جا سکتا جس کيلئے خلوص اور لگن کے ساتھ محنت کی ضرورت ہے مگر ہم لوگ آسائشوں اور چھوٹے راستوں کے عادی ہو چکے ہيں
    اللہ کا شکر ہے کہ ميں جس مسجد ميں نماز پڑھتا ہوں وہاں عام مسجدوں جيسا حال نہيں حالانکہ وہاں کے خطيب مفتی ہيں مدرسہ کے فارغ التحصيل ہيں اور مدرسہ ميں پڑھاتے بھی ہيں ۔ کوئی چندہ بھی نہيں مانگتا

  3. نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ مجھے ایک دفعہ ایسی نماز جنازہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جسے اُس بستی میں واقعہ ایک مسجد کے مولوی صاحب نے پڑھوایا۔ جبکہ دوسری مسجد کے مولوی صاحب جو غالبا یہ سمجھتے تھے کہ نماز جنازہ پڑھوانا انکا حق بنتا تھا۔ وہ موصوف نماز جنازہ پڑھے جانے کے بعد اپنے چار چھ شاگرد ٹائپ لوگ لئیے میت دفنانے کے وقت میت پہ درودو سلام پڑھنے لگے ۔ سلام جو عموما عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسم پہ پڑھا جاتا ۔ موصوف مولوی صاحب کے اس سارے عمل کا دورانیہ خاصا لمبا اور قبرستان میں تیز دھوپ کی وجہ سے تکلیف دہ بھی تھا۔ کم ازکم میں نے اس سے پہلے اسطرح کا کوئی واقعہ نہیں دیکھا تھا۔ میت کے وارثین و لواحقین سے کی بابت دریافت کیا جو معقول لوگ نظر آتے تھے۔ ان پوچھا “یہ کیا چکر ہے ۔ آپ نے مولوی صاحب کو کیوں ایک ایسا عمل کرنے کو کہا ہے جس کی نماز جنازہ پڑھانے جانے کے بعد عین دفنانے سے قبل میت کو روک کر اسکے گرد حلقہ بنا کر سلام درود پڑھائے جانا ہے۔ جبکہ دین سے کسی ایسی بات کو ثبوت نہیں ملتا ۔ یہ ایک فاضل عمل ہے جسکی دین میں گنجائش نہیں اور لوگوں کو وقت کا ضیاع ہورہا ہے”۔ لواحقین خود بے چین تھے ان میں سے ایک صاحب روہانسے ہو کر بولے۔ “ہم سے قسم لے لیں جو ہم نے انھیں کچھ ایسا کرنے کا کہا ہو۔ یا کسی اور طریقے سے اس جنازے میں انوالو کیا ہو۔ بس ان مولوی حضرات کی آپس میں مسابقت کی دوڑ ہے تو شاید اس لئیے وہ یوں ایسا کر رہے ہیں” میں نے میت کے وار ثین سے کہا تو پھر آپ اس مولوی کو روکیں۔ مگر وارثوں میں اپنے عزیز کی ناگہانی موت کے صدمے اور مولوی صاحب سے ممکنہ چیپقلش کی وجہ سے ایسی جرائت مفقود تھی ۔اس دوران مولوی صاحب اپنی کارواءی ختم کر چکے تھے۔میں قبرستان سے دور بستی میں کھڑی گاڑی کی طرف واپس لوٹا تو اتفاق سے مجھ سے کچھ آگے موصوف مولوی صاحب بھی اپنے شاگرد نماؤں کے ساتھ بستی کی طرف لوٹ رہے تھے۔ میں نے انھیں ان کی اس حرکت کی بابت دریافت کیا جسکا وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔ جس پہ انھیں خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ بستی کے کچھ لوگ بھی مولوی صاحب سے استفسار پہ اتر آئے۔ بہرحال بعد میں کیا ہوا نہیں معلوم مگر میں حیران ہو ں کہ کس طرح جاہل لوگوں کو ہمارے عوام نے اپنا دینی رہنماء بنا رکھا ہے۔
    نوٹ۔: دونوں مولوی حضرات کا اس بستی سے تعلق نہیں تھا اور محض اپنی تنخواہ کی وجہ سے وہاں مقیم تھے۔

    آپکی تحریر سے متعلق یہ عرض کرنی ہے کہ میری ذاتی رائے میں پاکستان کے مسلمانوں کو اپنے نام نہاد مولوی اور اسطرح کے عالموں کا محاسبہ خود کرنا چاہئیے تانکہ دین میں نئی نئی رسومات سے روکا جا سکے اس سے پہلے کہ دوسرے مذاہب ہم پہ انگلی اٹھائیں ۔ دوسروں کو تکلیف دینے والی فاضل تقاریر ۔ شبینہ محفلوں وغیرہ کے انعقاد کے لئیے سبھی مسالک کے جید علمائے دین سے انکے ماننے والے اہل مسالک کو یہ ہدایت اور تاکید کروائی جائے کہ اس پہ کسی کی دل آزاری نہیں ہوگی اور لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔تانکہ مریض ، بزرگ ، بچے، طلباء اور سحری اور صبح کے وقت اپنے روزگار کے لئیے رات سونے والوں کی نیند خراب نہ ہو۔

    1. محمد سعید پالن پوری

      مسلمانوں کو اپنے نام نہاد مولوی اور اسطرح کے عالموں کا محاسبہ خود کرنا چاہئیے تانکہ دین میں نئی نئی رسومات سے روکا جا سکے

      میں جاوید بھائی کی اس تجویز میں ان کا ہم آواز ہوں

    2. Before comments do v ever think how much Islam is in us?
      Too easy to criticize this is only problem moulana criticize someone v critisizethem

  4. محمد سعید پالن پوری

    پہلے جمعہ کی نماز اس طرح نہیں ہوتی تھی، بلکہ عربی کے دو خطبے پڑھے جاتے، نماز ادا کی جاتی اور اس کے بعد ، اگر کوئی ایسا موقع ہوتا تو، اعلان کیا جاتا کہ فلاں عالم دین تشریف لائے ہیں اور وہ خطاب فرمائیں گے۔ جن کو سننا ہوتا تھا، وہ بیٹھ جاتے اور جن کو نہ سننا ہوتا وہ چلے جاتے

    اللہ کا شکر ہے ڈاکٹر صاحب کہ ابھی ہمارے یہاں ایسا ہی چل رہا ہے یہ میں سہارن پور،مظفر نگر اور میرٹھ کی بات کر رہا ہوں،عام طور سے جمعہ کی مسنون قراءت سورہ اعلی اور سورہ غاشیہ سننے کو ملتی ہے اور بعض دفعہ سورہ جمعہ بھی

  5. اس طرح کی ساری فضولیات مولوی حضرات عوام میں اپنی بے وجہ کی اہمیت قائم رکھنے کے لئیے کرتے ہیں، تاکے ان کے مسالک کا پرچار زیادہ سے زیادہ ہو سکے اور زیادہ سے زیادہ سر جمع کیئے جاسکیں۔

  6. انڈیا میں اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ وہاں مسلمان حکومت نہیں لوگوں کو اپنی نوکریوں پر واپس جانا پڑتا ہے ۔ پاکستان میں چونکہ سہولت موجود ہے اسی لیے فاءدہ اٹھایا جاتا ہے اور اس میں رونے والی بات کیا ہے جن لوگوں‌نے تقریر نہیں سننی ہوتی وہ مسجد جاتے ہی دیر سے ہیں ۔ مجھے حیرت ہے ایک تو لوگوں کو ویسے ہی دین کا علم نہیں اوپر سے مولوی کی تقریر سے بھی تکلیف ہے ۔ چند ایک مولویوں کو دیکھ کر تنقیدی مزاج بنا لینا اچھی بات نہیں بہت سے علمائ کو جانتا ہوں جنکی تقریری بہت اچھی پر مغز ہوتی ہے جس میں وہ لوگوں کی اصلاح کی بات ہی کرتے ہیں ۔ ایسی شکایت عمومآ وہ لوگ ہی کرتے ہیں جنکو بمشکل دین کی بنیادیات کا ہی پتا ہوتا ہے ۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں