سورۃ البقرۃ کی آیت ۶۷ سے ۷۱ تک بنی اسرائیل کا ایک قصہ بیان کیا گیا ہے۔
اس قصے کی ابتدا ہی اس لمحے سے کی گئی ہء جب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ رب العزت کا حکم پہنچایا کہ اب انھیں ایک گائے ذبح کرنی ہوگی۔ بعد میں کیا ہوا ، ماشاء اللہ آپ سب لوگ جانتے ہیں۔ تمام تر تاویلوں اور بہانوں کے بعد بھی انھیں ایک گائے ذبح کرنی ہی پڑی۔ یہ اور بات کہ پہلے کسی بھی گائے سے کام چل سکتا تھا، مگر اب ایک خاص گائے ذبح کرنی پڑی۔
اس مراسلے کا عنوان سورۃالبقرۃ کی آیت ۷۱ کے آخری الفاظ کا مفہوم ہے۔
پتہ نہیں کیوں یہ واقعہ مجھے مندرجہ ذیل خبر پڑھ کر یاد آیا۔
براہ مہربانی کسی اور قسم کی مماثلت تلاش کرنے اور مطلب اخذ کرنے کی کوشش نہ کیجئے۔ اس میں ہم سب کا بھلا ہے۔
این آر او سے متعلق حکومتی عظائم بہت پہلے سے سامنے آچکے ہیں۔ جب کچھ نہ ملا تو عدالتی فیصلہ کی ‘تشریح’ کو جواز بنایا جارہا ہے حالانکی تشریح میں تھوڑی بہت ترمیم سے اصل فیصلہ کی روح کسی طرح متاثر نہیں ہوگی۔
.-= محمداسد´s last blog ..لاپتہ افراد کا قصور =-.
بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی!
میں نے آپکی اس پوسٹ کے لاشعور میں جھانکا تو اندازہ ہوا کہ آپکو یہ واقعہ اس لئیے یاد آیا کہ آپ گائے کا نام لینے سے ہچکچا رہے ہیں اور ذہن میں یہ گرہ بندھی ہوئ ہے کہ گاءے کا بھی نام ہوتا ہے۔ ڈیئر ڈاکٹر، انسان اس چیز پہ قادر ہے کہ جس کا جو دل چاہے نام رکھے اور جسے ، جس نام سے چاہے پکارے۔ اور چاہے تو منہ میں گونگے کا گڑ ڈالکر بیٹھا رہے اور آخر میں کہے مجھے معلوم تھا یہی ہوگا۔ بولنے کا کیا فائدہ۔
میں آپکے تبصرے کی کڑی شرط پہ پوری اتری یا نہیں۔ لگتا ہے ایک دفعہ پھر آپکا لاشعور چیک کرنا پڑیگا۔
.-= عنیقہ ناز´s last blog ..نئے افکار کا حصول اور انکی ترویج-۱ =-.
میرے خیال میں تو گائے کے ساتھ ساتھ اس دفعہ کٹا بھی ذبح ہوگا
ہاں جی وہی والا!!!
اوئے خوچہ تم بلاول کی بات کرتی اے؟
خلاصہ یہ ہے کہ مگر گائے ذبح ہوکر رہے گی!!؟
Comments are closed.