Skip to content

جوانی ، ملکہ پکھراج اور ترغیب ۔

ابھی تو میں جوان ہوں۔ حفیظ جالندھری / ملکہ پکھراج

جی ہاں، حفیظ جالندھری مرحوم کا کلام ملکہ پکھراج نے ایک خاص انداز سے گا کر امر کر دیا ہے۔ اس نغمے کو جتنی مرتبہ بھی سنا جائے ایک لطف ملتا ہے اور دل کو بُرا نہیں لگتا۔

جی ہاں، ابھی تو میں جوان ہوں۔ کہنے میں کیا مضائقہ ہے؟ کیا اپنے آپ کوجوان کہنے سے کسی کا کچھ جاتا ہے؟
میرا خیال ہے نہیں، اور اگر کہنے والا جوان العمر بھی ہو تو پھر اس جملے پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دینی چاہئے۔ مگر کوئی ادھیڑ عمر انسان یہ جملہ کہتا نظر آئے تو ہم حیرت سے اُسے دیکھیں گے اور اگر موصوف سے بے تکلفی ہوئی تو استہزائیہ سے ہنسی ہنس کر ایک جملہ بھی چست کر دیں گے۔

سوال یہ ہے، کیا صرف ایک جملے سے اتنا بڑا فرق پڑ جاتا ہے؟

اس کا جواب میرے نزدیک بہت مشکل ہے۔ اس جملے کو اگر کوئی ادھیڑ عمر یا بزرگ شخص کہے تو یقینا ہم میں سے بہت سوں کا خیال ہوگا کہ حضت حقیقت جھٹلائے جا رہے ہیں۔

مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلسل جوان کہنے سے انسان واقعی جوان ہو جاتا ہے۔

اس پہ بھی بات ذرا بعد میں۔

خضر علیہ السلام کے بارے میں مشہور ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے آب حیات پی لیا تھا۔ اب میرے ذہن سے نکل گیا ہے کہ آب حیات کی کیا خصوصیت تھی، تا قیامت زندہ رہنا یا تا قیامت جوان رہنا۔ مجھے کسی ایک کا انتخاب کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔بات جو بھی تھی، ابدی زندگی بہر حال ایک نتیجہ تھا اس کہانی کا۔

بہر حال، مذہبی ادب کو ایک طرف رکھتے ہوئے دنیا کے مطبوعہ مواد پر ایک نظر ڈالوں تو مجھے لگتا ہے کہ انسان لاشعوری طور پر ایک ہی چیز سے ڈرتا ہے اور یہ ڈر شائد بہت سی تہذیبوں میں مشترک بھی ہے۔ یہ ڈر فنا کا ڈر ہے۔ مٹ جانے کا ڈر۔

ہمیشگی پانے کے لئے بہت سے طریقے مختلف تہذیبوں میں بیان کئے گئے ہیں اور میرا خیال ہے حلول ارواح یا آواگون کا فلسفہ بھی اسی فنا کے ڈر کو دور کرنے کے لئے وجود میں آیا۔ بحیثیت مسلمان ہمارا تو یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور آخرت کی دنیا، جنت یا جہنم ہمارا مستقل ٹھکانہ ہوگا۔ اور وہ زندگی ابدی ہوگی۔ اس میں کسی کو موت نہ آئے گی، گویا فنا کا جو ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے لاشعوری طور پر ، وہ بھی نہیں ہوگا۔

شہرت کا ایک اور فائدہ بقائے دوام بھی ہو تا ہے۔ کتنے گمنام لوگوں کو آپ جاننے کا دعوی کر سکتے ہیں؟
جبکہ بہت سے مشہور لوگ فورا ہی ذہن کے پردے پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ گویا مشہور ہونے کا ایک مطلب فنا سے ایک حد تک چھٹکارا پانا بھی ہے۔

وہ کیا کہا شاعر نے
؏ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

اس کے پیچھے بھی لاشعوری طور پر فنا سے جان چھڑانے کی کوشش کار فرما نظر آتی ہے۔

ترغیب کا عمل انسانی معاشرے میں بہت اہم ہے۔ آج کل ترغیب کا سب سے زیادہ استعمال ٹی وی یا اخباروں یا بڑے بڑے سائن بورڈوں پر موجود مسکراتے ہوئے چہروں کی شکل میں نظر آتا ہے جو آپ کو ہمہ وقت اپنی صنعت کو خریدنے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں، خیر، حقیقت یہ ہے کہ ترغیب سے میری مراد وہ مسلسل عمل ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو کسی بات ، کسی خصوصیت ، کسی نئی چیز کا یقین دلاتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے حوالہ۔

ترغیبی عمل کو ماہرین نفسیات نے کسی انسان کی سوچ، ارادے یا شخصیت کے کسی پہلو کو بدلنے کے لئے کافی استعمال کیا ہے بلکہ اب تو یہ بات مسلم ہے کہ ترغیب خود تنویمی عمل کا ایک بہت اہم اور بنیادی جزو ہے۔ اس کے بغیر تو یہ عمل کامیاب ہو نہیں سکتا۔ اگر آپ گوگل پر سیلف ہیلپ کے الفاظ تلاش کریں تو آپ کو بہت سے ایسے طریقے مل جائیں گے جن میں ترغیب یا آٹو سجیسشن کو بنیاد بنا کر کسی مرض کا ممکنہ علاج بتایا گیا ہے مثلا وزن کم کرنے کے طریقوں میں ایک بہت مشہور طریقہ یہ تھا کہ آپ روزانہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ سے کہیں ” میرا وزن کم ہو راہا ہے ، میرا وزن کم ہو رہا ہے اور میری جسمانی خوبصورتی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے”
تو کچھ ماہ میں ایسا ہو بھی جائے گا۔
ان یہ طریقہ کہاں تک کامیاب ہے اس کے بارے میں متضاد رائیں پائی جاتی ہیں، اور فی الحال میں اس تفصیل میں نہیں جارہا۔

اب سوال یہ اَٹھتا ہے کہ کیا ایک چوہا اگر اپنے آپ کو مسلسل یہ باور کراتا رہے کہ وہ ایک شیر ہے تو کیا وہ واقعی شیر بن جائے گا؟ ترغیب کی تھیوری پر سب سے بڑا اعتراض اسی سوال کی شکل میں ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ ترغیب کی انسانی زندگی پر اہمیت اور اثر کو جانچنے کے لئے ایک سائیکالوجسٹ نے ۱۹۷۹ میں ایک تجربہ کیا۔ان کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ کیا اپنے آپ کو جوان تصور کرنے سے انسان پر کوئی اثر ہوتا بھی ہے؟ بالفاظ دیگر، کیا سوچ انسانی جسم کے طبعی افعال پر اثر رکھتی ہے یا نہیں؟

انھوں نے ایک ہفتے کے لئے کچھ ایسے افراد کو منتخب کیا جن کی عمر ستر برس سے زیادہ تھی۔ اور ان کو کہا کہ وہ ایک ایسے تجربے میں حصہ لینے جا رہے ہیں جو انھیں ۲۰ سال کم عمر بنا دے گا۔

جب یہ لوگ تجربے میں حصہ لینے کے لئے پروفیسر کے دفتر پہنچے تو بقول پرفیسر انھیں اِن لوگوں کی جسمانی حالت دیکھ کر خدشہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ دوران تجربہ اللہ ہی کو پیارے نہ ہو جائیں۔ بہر حال تجربہ شروع ہوا اور پروفیسر اور ان کی ٹیم اپنے کام میں جُت گئی۔
تجربے کی تفاصیل ایک طرف۔ ایک اقتباس آپ کو بتائے گا کہ کیا ہوا:

Pretty soon she could see a difference. Over the days, Prof Langer began to notice that they were walking faster and their confidence had improved. By the final morning one man had even decided he could do without his walking stick.

لیکن سائنسدان تو سائنسدان ہوتا ہے، اس نے تو ثبوت کی تلاش میں سارے بکھیڑے پالے ہوتے ہیں لہذا پروفیسر لینگر نے ان کے جسمانی افعال بھی ماپ رکھے اور نتیجہ یہ تھا:

Obviously this kind of anecdotal evidence does not count for much in a study.
But Prof Langer took physiological measurements both before and after the week and found the men improved across the board. Their gait, dexterity, arthritis, speed of movement, cognitive abilities and their memory was all measurably improved.
Their blood pressure dropped and, even more surprisingly, their eyesight and hearing got better. Both groups showed improvements, but the experimental group improved the most.
Prof Langer believes that by encouraging the men’s minds to think younger their bodies followed and actually became “younger”.

حوالہ

یہ لوگ تو واقعی جوان ہو گئے تھے۔

اب یہ سب کیسے ممکن ہوا، یہ سب ہونا بھی چاہئے تھا یا نہیں، آپ سوچئے ، میں ذرا ملکہ پکھراج کو دو بارہ سُن لوں۔

8 thoughts on “جوانی ، ملکہ پکھراج اور ترغیب ۔”

  1. میں اپنے گھر میں ہوں مگر میرا کمپیوٹر لاہور میں ہے ۔ میں ان شاء اللہ واپس لاہور جا کر آپ کی مکمل تحریر پڑھ کر کچھ لکھنے کی جسارت کروں گا ۔ میرٰ دو چیزوں پر نظر پڑٰی ہے ۔ وڈیو میں نے دیکھی نہیں مگر جو تصویر نظر آ رہی ہے وہ ملکہ پکھراج کی بیٹی طاہرہ سید کی ہے ۔ جر علیہ السلام کے آب حیات پینے کا قصہ آپ نے کہاں پڑھا ہے

  2. السلام علیکم
    واہ بھئی واہ! بات کہاں سے کہاں لے گئے اور پھر واپس وہیں سُروں کے بیچ میں چھوڑ دیا۔ نغمہ سننے کا موقع بھی مل گیا اس طرح۔ آپ نے جو مصرع نقل کیا ہے، وہ میرا خیال ہے کہ غلط لکھ گئے ہیں آپ۔ ایسے ہونا چاہیے:
    “بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا”
    خیر! ہم تو ابھی ویسے ہی ” جینوئن” جوان ہیں، اس لئے ان تحقیقوں میں پڑنے کی فی الحال ضرورت نہیں ہے۔ (:
    ولسلام
    .-= عین لام میم´s last blog ..نئے سال کی صبحِ اول کے سورج!۔ =-.

  3. آپ کی یہ تحریر ابھی زیر مطالعہ ہے۔۔ رسید چھوڑ رہاں ہو کہ ایک باری پڑھ لی ہے لیکن مضمون کے ہمہ جہت ہونے کے سبب کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔

  4. جناب ڈاکٹر صاحب۔۔ اب تفصیل سے۔۔ لنک با لنک پڑھی۔ مزہ آیا۔۔ انسان میں کچھ خاص ہے۔۔ جسے انسان خود سمجھنے سے قاصر ہے۔۔ موت کا ذائقہ سب نے چکھنا ہے کوئی شک نہیں اور موت نا ہونے کے بکھیڑے اتنے ہیں کے شاید کبھی اس کو تسخیر نا کیا جائے۔۔۔ لیکن جوان رہنے میں کیا حرج ہے ویسے بھی دل جوان ہونا چاہیے وہ کیا کہتے ہیں مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور عورت کبھی بوڑھی نہیں لگتی وہ رہ کیا گیا 🙂

  5. جناب افتخار اجمل صاحب:: جماعت چہارم میں اول آنے پر ہمشیرہ کو ایک کتاب انعام میں ملی تھی جس کا نام قصص الانبیاء تھا. آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں،کے واقعات درج تھے. بہت عرصے تک تو ان واقعات کو ہی مستند سمجھتا رہا ، مگر جب ادھر اُدھر سے بھی پڑھنا شروع کیا تو علم ہوا کہ بہت سی باتیں تو فکشن تھیں.

    خضر اور سکندر ذوالقرنین کا قصہ بھی اسی میں تھا کہ سکندتو نامراد واپس لوٹا اور خضر نے پانی پی لیا.

    عین لام میم :: نشان دہی کا شکریہ. حسب منشا ترمیم کر ڈالی تھی.

    جعفر:: گھم گھیریا ں تو تمہید کے طور پر تھیں. اصل بات تو آپ گول کر گئے.

    راشد کامران :: پھر کیا خیال ہے، اپنے آئی پاڈ میں نغمے کو کنورٹ کر کے ڈال نہ دیں؟

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں