کونسا گھر تھا کہ جس گھر سے دھواں اٹھتا نہ تھا
شہر پر یوں آگ کا بادل کبھی برسا نہ تھا
یوں تو کس شے کی کمی تھی اس مہذب دور میں
آدمی لیکن ہمارے عہد کا اچھا نہ تھا!
تُو قد و قامت سے شخصیت کا اندازہ نہ کر
جتنے اونچے پیڑ تھے ، اتنا گھنا سایہ نہ تھا
ہر قدم پر اجنبیت کی نئی دیوار تھی
اس کے شہر دل میں جانے کا کوئی راستہ نہ تھا
کتنی سڑکیں تھیں کہ سیل روشنی میں بہہ گئیں
کتنے ہی گھر تھے جہاں کوئی دیا جلتا نہ تھا
دنیا والوں نے اٹھا دی ہے گمانوں کی فصیل
اس کے میرے درمیان ورنہ کوئی جھگڑا نہ تھا
اب پریشان ہو کے اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں
اک زمانہ تھا کہ وہ کہتا تھا، میں سنتا نہ تھا
جان عارف یہ تو بس تم پر طبیعت آ گئی
ورنہ ہم نے یوں کسی کو ٹوٹ کر چاہا نہ تھا۔
سید عارف
بہت خوب
تُو قد و قامت سے شخصیت کا اندازہ نہ کر
جتنے اونچے پیڑ تھے ، اتنا گھنا سایہ نہ تھا
Comments are closed.