Skip to content

الیکشن, امیدوار ,منشور, برادری اور خلافت۔۔

آج قریبی مسجد کے امام صاحب نے جمعہ کے خطبے میں عمران خان کو کافر قرار دیا اور اس کے بعد ہنگامہ برپا ہو گیا۔ گو کہ میں نے کچھ لوگوں کو قسمیں کھا کر کہتے سُنا کہ عمران کو کافر نہیں کہا گیا تھا، صرف تنقید کی گئی تھی، مگر یہ بعد کی بات تھی۔ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان کو اطلاع ہو ئی ، کچھ ارکان موقع پر فورا پہنچ گئے اور کچھ بعد میں پہنچ گئے۔ انھوں نے، جیسا کہ ہوتا آرہا ہے، حسب معمول سڑک پر احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ آمد روفت کے بہاؤ میں خلل پڑا اور یوں گاڑیاں جمع ہوتی گئیں۔

مجھے اس بات کا اندازہ معاملہ بگڑنے کے وقت ہوا، جب امام صاحب کی حمایت میں ایک کالعدم تنظیم کے ممبران پہنچ گئے۔ انھوں نے اپنے چہرے رومال سے چھپائے ہوئے تھے، صرف آنکھوں کا اندازہ ہوتا تھا۔ میں اُس وقت گھر سے نکلا تھا اور ابا جان کے لئے دوا خریدنے کی نیت تھی۔ جیسے ہی میں مسجد کے قریب پہنچا، ہوائی فائرنگ شروع ہو گئی۔ کس نے کی،اور کیوں کی اس کا علم مجھے نہیں۔ مگر یہ فائدہ ہوا کہ فالتو لوگ بھاگ نکلے۔ اس اثنا میں پی ٹی آئی کے کارکن ایک ٹویوٹا ہائی لکس کے گرد جمع ہو گئے۔ مجھے لگا شائد کوئی زخمی ہوا ہے۔ مگر بعد میں مغرب کے وقت علم ہوا کہ کوئی بھی زخمی نہ تھا۔

اسی دوران متحدہ دینی محاذ کے ایک امیدوار بھی موقع پر پہنچ گئے۔ اب صرف ایک گروپ جو کہ امام صاحب کا حمایتی تھا، موقع پر موجود تھا اور دوسرا گروپ تتر بتر ہوچکا تھا۔ میں نے بھی اپنی جان بچانے میں عافیت سمجھی اور گھر لوٹ آیا۔

مغرب تک مسجد کے باہر رش کم نہ ہوا۔ ایک محلے دار نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ اب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس شروع ہو چکی ہے مسجد میں۔ ایک اور شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ کسی نے یہ بھی کہا کہ ایسے امام سے ابوجہل بہتر تھا کیونکہ وہ منافق نہیں تھا، آپ کا کیا خیال ہے۔ میں نے کنی کترانے میں عافیت سمجھی اور بتایا کہ میں گھر میں تھا، مجھے اس معاملے کی تفصیل کا علم نہیں۔ اور یوں جان چھڑانے میں کامیاب ہو گیا۔

الیکشن سے ایک دن پہلے سب کے جذبات حساس ہوتے ہیں۔ کسی بھی چنگاری سے آگ بھڑکنے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ لہذا دانش مندی کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انسان فساد سے دور رہے۔ پی ٹی آئی والوں نے دانش مندی کا مظاہرہ کیا اور نکل گئے۔

یہ ایک معمولی واقعہ ہے بھی اور نہیں بھی۔ یہ واقعہ ملک میں جاری کشمکش کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت ملک میں دو طرح کی سوچوں میں تصادم چل رہا ہے۔ اور یہ تصادم ان دونوں سوچوں کے تابعین کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت بھی جب کہ مغرب کی نماز کو ادا کئے کافی وقت ہو چکا ہے، مجھے مسجد کی طرف سے ہجوم کا شور سنائی دے رہا ہے۔ طاقت کا یہ مظاہرہ اس عدم برداشت کو ظاہر کر رہا ہے جو دونوں سوچیں اب پال رہی ہیں۔

برداشت کرنے والے اب شائد عوام میں ہی ہوں۔ قیادت چاہے جو بھی ہو، عدم تشدد کو، برداشت ، رواداری اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کو اپنی کمزوری سمجھنے لگی ہے۔ گزشتہ دنوں میں اسلام آباد گیا تو ریستورانت میں ایک لڑکے نے خا مخا بحث میں اُلجھانا چاہا۔ وہ شیر کو ووٹ ڈالنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا ، “ست بسم اللہ” اس نے پوچھا میں کس کو ووٹ دوں گا؟ میں نے جان چھڑانی چاہی تو وہ گلے پڑ گیا۔ عمران کی ماں بہن ایک کرنے لگا۔ میں نے آخر کار اسے منع کیا اور کہا کہ میرا ہیرو جنرل پرویز مشرف ہے جس نے تمھارے قائد کو دس سال ملک سے باہر رہنے کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ وہ خاموش ہو گیا۔ اب اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اور وہ چلا گیا۔

یہ تو ایک واقعہ یاد آ گیا۔ در حقیقت میں جمہوریت کی موجودہ شکل میں یقین نہیں رکھتا۔ نہ ہی میرا یقین اس بات پر ہے کہ ہم اس ملک میں نظام خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ دونوں سوچیں انتہائیں ہیں۔ اور انتہاؤں پہ جانے سے کام نہیں چلتا۔

میرا ماننا ہے کہ ایک اچھا نظام وہی ہے جس میں حکمران خوف خدا رکھتا ہو، اسے یقین ہو کہ اسے کسی نہ کسی کو جواب دینا ہے۔ احتساب اگر عوام نہ کرے تو خدا تو کرے گا ہی۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک بحث میں اس طرح شامل کرنے کی کوشش کی گئی تو ان بزرگ کو میں نے کہا کہ اخباری رپورٹوں کے مطابق گزشتہ حکومت نے جاتے جاتے پاکستانی خزانے کو کھربوں کا نقصان پہنچایا۔ جس طرح فنڈز ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے ، اس کی مثال نہیں ملتی۔

سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس میں تمام سابق ارکان اسمبلی کو جو مراعات دی گئیں وہ قومی خرانے پر بہت بڑا بوجھ تھا۔ حال آنکہ یہ ایک بہت نقصان دہ فیصلہ تھا جو کہ اخلاقی طور پر بھی معیوب تھا مگر اپوزیشن نے اس کی برائے نام مخالفت تک نہ کی اور احتساب یا احتجاج کرنے کی بجائے یہ قرارداد اور مراعات متفقہ طور پر منظور کرنے میں پوری مدد کی۔ لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم مجھے ظہیر الدین بابر سے منقول ایک جملہ یاد دلا گیا جو کہ کچھ اس طرح تھا کہ

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

راجہ پرویز اشرف نے اربوں روپے کے کنٹریکٹ ٹھیکہ داروں کو دئیے۔ اپنے ہی حلقے میں۔ زیادہ جاننا ہو تو رؤف کلاسرہ کے دنیا ٹی وی پر پروگرام یا ان کے اسی اخبار میں کالم پڑھ لیں۔

تو میں نے ان سے کہا کہ اس جمہوری نظام میں تو سارے کھلے عام کھا پی رہے ہیں۔ کیا فائدہ اس نظام کا۔ اس میں تو وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جو خود سے بچنا چاہتے ہیں۔ جن کو اپنے نفس پر کنٹرول حاصل ہے۔ انھوں نے حسب توقع مجھ پر حملہ کیا کہ خلافت کے نظام میں بھی تو اچھے خلیفہ صرف چار ہی تھے اس کے بعد تو ملوکیت شروع ہو گئی تھی۔ انھوں نے معاویہ رضی اللہ عنہہ کی مثال دی۔ میں سمجھ گیا۔

میں نے عرض کیا کہ جس طرح ملوکیت میں بھی اچھے اور بُرے حکمرانوں کی مثال دی جا سکتی ہے ، اسی طرح جمہوری نظام حکومت میں بھی۔ مگر یہ بات ہم دونوں متفقہ طور پر مان چکے ہیں کہ انسان کا اپنا ضبط نفس ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ وہ کرپشن کرے گا کہ نہیں۔ اپوزیشن کی موجودگی یا چناؤ کے طریقے سے کوئی نظام بہتر نہیں بن جاتا۔ اور یہ عوامی چناؤ کا طریقہ تو بہت ہی بلیک میلنگ والا طریقہ ہے۔ اس الیکشن کے نتائج میں اگر معلق حکومت بننے کے امکانات ہوئے تو نتائج تباہ کن ہوں گے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے چکر میں اتحاد بنیں گے اور اتحادی زیادہ سے زیادہ وزارتیں اور فوائد لینے کے چکر میں عوام کی ماں بہن ایک کر دیں گے۔

ہمارے ملک میں جمہوری نظام حکومت اس وقت ذات اور برادریوں کے ہاتھوں یر غمال بنا ہوا ہے۔ لوگوں کی باتیں سنتا ہوں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کل ہونے والے پولنگ کے نتائج کچھ زیادہ مختلف نہ ہوں گے۔ مجھے اس وقت اندازہ ہے کہ گوجروں کے ووٹ کس امیدوار کو زیادہ پڑیں گے۔ جی ہاں کیونکہ وہ امیدوار ان میں سے ہے۔ تنولیوں کا امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑا ہے مگر وہ جیتنے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان ابھی سے کرچکا ہے۔ گو کہ ذات اور برادری کی اس اہمیت کا اعتراف کھلے عام نہیں کیا جاتا، اور کوئی بھی امیدوار یہ نہیں کہے گا۔ مگر حقیقت یہی ہے۔ میں نے مقامی اخبارات میں برادریوں اور جنبوں سے متعلق بیانات اخبارات میں پڑھے ہیں اور اندازہ لگایا ہے کہ وہی امیدوار مضبوط ہے جس کی برادری کی حمایت اچھی ہے۔ معدودے چند امیدوار شائد پارٹی سے تعلق کی بنیاد پر جیتیں مگر جیتیں گے تبھی جب ان کی برادری ان کو ووٹ دے گی۔ گزشتہ الیکشن میں ریٹائرڈ جنرل صلاح الدین ترمذی کے ساتھ جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ مانسہرہ کی طرف تو سادات برادری جیسے الفاظ بھی پڑھنے کو ملے۔ اس کا مطلب ہے جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں یہ اپنی لیوریج استعمال کر رہے ہیں۔ اب اس صورت حال میں کہاں کا منشور اور کیسی جمہوریت۔ ایم کیو ایم ہی کی مثال لے لیجئے۔ پورے ملک میں بہت سے حلقوں سے اس پارتی کے امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، مگر جن نشستوں پر اس پارٹی کو کامیابی کا یقین ہوگا وہ یقینا کراچی ، حیدر آباد اور سکھر وغیرہ میں ہی ہوں گی۔

تحریک انصاف ہی کے کئی نو آموز امیدواروں کے بارے میں لوگ گلہ کرتے پائے گئے کہ یہ لوگ نا آموز ہیں۔ جیت نہیں سکیں گے۔ پرانے امیدوار جیت جائیں گے۔ میں نے پوچھا جب آپ تحریک انصاف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں اور اس کا امیدوار بھی ہے حلقہ میں تو وہ کیسے ہارے گا۔۔ اکثر جواب میں خاموشی اور ایک عجیب سی نظر کا سامنا کرنے کو ملا۔

ہمارے ملک میں جمہوریت کا نفاذ ایک خواب ہے۔ یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا مگر لوگوں کو ذات برادری کی بنیاد پر تقسیم ضرور کرتا چلا جائے گا۔ میں حیران ہوں کہ اب اس ملک میں اور رہ کیا گیا ہے تقسیم ہونے کو۔

میں اس گندے نظام کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ میں ووٹ نہیں دوں گا۔ میں نے ووٹ دینے بارے میں سوچا ہے۔ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ بھی ہے میرے علم میں جس میں انھوں نے ووٹ کی شرعی حیثیت کو اجاگر کیا ہے۔ مگر کیا ہر مرتبہ چھوٹی برائی ہی کو منتخب کرنا چاہئے؟ کیوں نہ سب قسم کی برائیوں کو مسترد کر دیا جائے؟

یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ میں جانتا ہوں یار لوگ کہیں گے کہ بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی برائی منتخب کر لینی چاہئے۔ مگر کیوں۔ ہم ان سب برائیوں کو مسترد کیوں نہیں کر سکتے؟َ ہمیں یہ اختیار کیوں حاصل نہیں۔ جب الیکشن کمیشن نے خالی خانہ متعارف کرانے کا اعلان کیا تو میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے ووٹ اور پولنگ سٹیشن کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ کیونکہ میں ان سب کو مسترد کرنا چاہتا ہوں۔ جب وہ اختیار مجھ سے لے لیا گیا تو اب میں گھر بیٹھوں گا اور ووٹ نہ دوں گا۔ میں نے سوچا اور فیصلہ کیا کہ میں ووٹ صرف مذہبی جماعتوں کو دوں گا۔ جماعت اسلامی کے امیدواروں میں سے ایک تو کافی عرسے سے اپنے علاقے میں برادری کی بنیاد پر ووٹ لینے کے لئے اپنی انتخابی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ ان کو دیکھا اور نظر انداز کر دیا۔ ایک اور امیدوار کا منشور دیکھا اور کافی انقلابی قسم کی باتیں پڑھنے کو ملیں۔ کافی سن بعد کھلکھلا کر ہنسا اور ان کو بھی مسترد کر دیا۔ ایک اور امیدوار نے آج اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ مسترد۔ مولانا فضل الرحمان بہت اچھی سیاست کر رہے ہیں مگر مذہب کا صرف نام ہی ہے۔ مسترد۔ رہ کیا گیاَ؟ عمران خان؟؟ مجھے یقین ہے میرے علاوہ ساری قوم پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دے گی۔

کل اگر بجلی رہی، تو میں اپنے ٹائم ٹیبل میں سے کافی وقت نکال کر کچھ فلمیں دیکھوں گا۔۔ انشا ء اللہ ۔

1 thought on “الیکشن, امیدوار ,منشور, برادری اور خلافت۔۔”

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں