Skip to content

اردو محفل پر ایک پوسٹ کے جواب میں میرا تبصرہ

اردو محفل کا دھاگہ
[quote=”امجد میانداد, post: 1433011, member: 7008″]السلام علیکم،
کل تقریباََ 8 سے 10 لوگ راولپنڈی میں بربریت کا شکار ہوئے اور بے رحمی سے ہلاک کر دیے گئے۔
آج 1 بجے سے 2 بجے تک میں تمام چینل دیکھتا رہا باری باری بدل بدل کر لیکن ان کے خون آلود کپڑے اٹھا اٹھا کر نہیں دکھائے جا رہے تھے۔
ان پر حملہ آور لوگوں کو نہیں دکھایا جا رہا تھا، ان کو ذبح کرتے نہیں دکھایا گیا۔ کوئی خبر نہیں کوئی ذکر نہیں۔
جیو نیوز اور جیو تیز پر الطاف کی طرف سے بلائی گئی پارٹی میٹنگ اور نیٹو کنٹینر پر فائرنگ ہی ٹکرز کا موضوع تھے۔
دنیا نیوز پر شہید اور حرام موت پر بحث ہو رہی تھی
ڈان نیوز پر محرم کی حرمت پہ بات چل رہی تھی، جس میں ایک خاتون اپنی حالیہ مصروفیت کی وجہ سے خراب گلے کے باوجود پورا زور لگا کر محرم کی روح بیان کر رہی تھیں۔
اور کم و بیش یہی حال تمام چینلز کا تھا۔
یہاں اردو محفل پہ شیعہ جنیو سائڈ اور شیعوں کی نسل کشی کی خبریں دینے والے بھی بہت خاموش ہیں۔
ٹوئیٹر پر ہر ذاتی رنجشوں کے واقعات کو بھی بنیاد بنا کر شعیہ جینو سائڈ کی ہیش ٹیگ  کے ساتھ ٹویٹس کی بھر مار کرنے والے بھی آج خاموش ہیں۔
انسانیت کا بول بالا کرنے والے مسنگ پرسنز اور بلا بلا پر چیخنے والوں کو بھی کل مرنے والے انسان نظر نہیں آئے۔
ترازو کے دو پلڑے اور ان دونوں میں موجود اجزاء اب کھل کر سامنے ہیں۔ کہ کون کس پلڑے میں ہے اور کون کس پلڑے میں۔
تف ہے ایسی انسانیت پر ، لعنت ہے ایسے میڈیا پر، انسان دوستی پر اور انسانیت کا پرچار کرنے والوں پر۔[/quote]
ارے امجد صاحب، آپ تو ایسے ہی جذباتی ہو ریلے۔ انسان مرتے تو انسان دوست میڈیا سب کچھ چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتا۔ انسان مرتے تو ان کی موت کی مذمت کے لئے سڑکوں پر ان کے جنازوں کو رکھ کر دھرنا دیا جاتا۔ انسان مرتے تو  ہڑتالیں کی جاتیں۔ انسان مرتے تو عاصمہ جہانگیر، انصار برنی اور اسی قبیل کے سارے بھونپو اپنے اپنے بلوں سے نکل آتے اور ہم سب کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگاتے کہ کیا ظلم ہوچکا ہے۔
کل انسان تو نہیں مارے گئے۔ کچھ کیڑے مکوڑے تھے جو انسانوں کے قدموں تلے آ کر پس گئے۔ اہم کام تو عزا داری تھی۔ اس کو ہر حال میں مکمل کرنا تھا۔ نواسہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی مظلومیت پر تقاریر کرنی تھیں۔ ان کے جانے کا سوگ منانا تھا۔ وہ زیادہ ضروری کام تھا۔ اآپ بھی نا بس!!
احتیاطا یہاں شائع کیا۔ کیونکہ وہاں میرے مراسلے ایک مرتبہ حذف ہو چکے ہیں۔ ابن سعید وغیرہم کو میری صآف گوئی شائد پسند نہیں آئی تھی۔

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں