Skip to content

آپس کی بات

پپو بھاگتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو قریب ہی بندھی ہوئی بکری کی رسی جو کہ بکری کی چہل قدمی کے باعث تن گئی تھی، سے ٹکرایا اور اماں کے سامنے جا گرا جو کہ صحن میں بیٹھی چاول صاف کر رہی تھیں۔
اماں نے چھان ایک طرف رکھا، پہلے تو پپو کو چاول بکھیرنے پر صلواتیں سنائیں اور پھر تفصیل سے اس کے جسم کو ٹٹولا کہ کہیں کوئی چوٹ نہ لگ گئی ہو۔
اب بول مر کیا ہوگیا ہے۔ اماں غصے سے بولیں تو پپو جو کہ اب سنبھل چکا تھا، مسکرایا اور بولا
اماں اماں چوہدری صاحب اور ان کے سب سے مشہور دشمن کے درمیاں صلح ہو گئی ہے۔ آج بڑی دعوت ہے محلے میں۔

تو پھر، میں کیا کروں۔ اماں نے شان بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔
اماں وہ اس لئے کہ آج پتہ چلا کہ چوہدری صاحب کا دشمن شیدا پہلےان کے لئے کام کرتا تھا۔ پپو نے علمیت جھاڑنے کی کوشش کی تو اماں نے اسے گھورا۔
تو پھر میں کیا کروں؟ اماں کا وہی سوال۔

پپو نئی معلومات کی وجہ سے اتنا پرجوش تھا کہ اس نے اماں کی بیزاریت محسوس ہی نہیں کی اور بولا ۔ اماں آپ کو پتہ ہے کہ شیدے نے سب کے سامنے محلے میں ہونے والی چوریوں ، بٹ صاحب کے گھر ہونے والی ڈکیتی ، اور قریشی صاحب کے قتل کا اقرار کر لیا ہے۔ مگر اماں ایک بات سمجھ نہیں آئی۔ قریشی صاحب کے قتل کا اقرار تو ایک بندے نے کر لیا تھا اور اب وہ جیل میں بھی ہے۔

اماں نے پپو کو گُھرکا ، چل جا اپنا کام کر، بکری کو چارہ ڈال، دیکھ اس نے پانی پیا بھی ہے کہ نہیں۔

پپو اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔

آسمان میں دیکھتے ہوئے بولا اماں، ایس ایچ او صاحب بھی موجود تھے اس صلح میں، اور تو اور ابا نے بھی تقریر کی۔ شیدے نے ساری وارداتوں کا اعتراف کر لیا ہے، چوہدری صاحب نے معاف بھی کر لیا ہے تو کیا ان سب وارداتوں کے نام پر پکڑے گئے سارے بندے چھوٹ جائیں گے؟ اور کیا چوہدری صاحب شیدے کے خلاف پرچہ درج کرائیں گے؟
اماں ایس ایچ او نے شیدے کو کیوں نہیں پکڑا؟ قانون تو سب کے لئے برابر ہوتا ہے۔
اماں کیا اب ہم رات کو گلی میں کرکٹ کھیل لیں گے؟

اماں کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا تھا، انھوں نے تاک کر نشانہ مارا اور چھلنی سیدھی پپو کے سر پر لگی اس کے ساتھ ہی اماں بولیں
منحوس چپ رہ۔ کبھی تو آرام سے بیٹھ جایا کر۔ ایسا نہ ہو اب کی بار شیدے کا قاتل تجھے ٹھہرا دیں ۔ پھر ہم کہاں تھانے کچہری تیرے پیچھےگھومتے پھرتے رہیں گے۔

14 thoughts on “آپس کی بات”

  1. ہا ہا ہا ہا۔ آپ بھی کہانی کار ہو گئے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ شیدا جو کام پہلے کرتا رہا اسے چھوڑنے والا نہیں۔ لیکن اب اسے پناہ دینے والی بڑی چھتری پکڑ لی ہے۔

  2. ڈاکٹر صاحب وہ جنگل کے پیر ہیں انڈا دیں یا کسی کو معاف کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی تو ہے اگر شیدا الٹا انکا ہی گیم بجا دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کے شیدے نے پیر جنگل والے کا کوئی خاص راز رکھا ہوا ہو اپنے پاس ۔۔۔۔۔ اور ابھی جیرے کے بھی سارے قصور معاف ہونے والے ہیں اور پھر مل بیٹھیں گے ـــــــــــ تمام

  3. ہمممم، واہ بھئی واہ۔۔۔۔
    جناب چوہدری صاحب اور شیدے کی دوستی تو ہوئی پر اب چوہدری صاحب کے ہمنوا جو شیدے کے خلاف پروپگینڈا کرتے نہیں تھکتے تھے انکا کیا ہوگا؟

  4. کیا شجاعت الہٰی پرویز الہٰی اور شیخ رشید میں پھر سے صلھ ہوگئی ہے۔ یا یہاں شیادے سے مراد بتیسی ہے۔

    ویسے کیا مانگ نکالتا ہے اور ہمرنگ زمین دام کے مصداق ہم رنگ خصاب چشمہ لگتا ہے۔ اور بتیسی کسی ٹوئتھ پیسٹ اشتہار کی طرح لگتی ہے۔

    اس مرکب و مجموعے کو دیکھ کر تیس کی دہائی کے اٹالو امریکن مافیا کے بردبار قسم کے ڈان ذہن میں جھمکنے لگتے ہیں۔

  5. اعلی کہی ، امید ہے آپ لوگوں کو اس سے بھی روشناس کروائیں گے کہ صلح کی وجہ کیا تھے ؟ کیوں ضرورت پیش آئی ؟ کہیں چودھری عرف “نواب لندنوی” اور شیدے کو گھس بٹھیوں سے خطرہ تو نہی تھا ؟ جن سے دونوں کا رعب جاتا رہے ؟

  6. جاوی گوندل صاحب:: بد قسمتی سے آپ کے اندازے اس مرتبہ غلط ثابت ہو رے ہیں۔ خیر یار زندہ صحبت باقی۔ ان کرداروں سے آپ کی ملاقات کروا دی جائے گی۔

    ابو موسی::اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا مگر تقسیم در تقسیم در تقسیم کی وجہ سے بہت نقصان ہو را تھا۔ اور اگر ایسا ہی رہتا تو چوہدری صاحب کی دھاک ختم ہونے کا اندیشہ تھا۔

  7. شیدے اور چوہدری کی یاری پھر سے تو ہو گئی مگر آپ نے یہ تو بتایا نہیں کہ شیدہ اُس وقت تک ایس ایچ او کی قید مین رہا جب تک کہ وہ دوستی کو تیار نہ ہوا جبکہ قانون سے اُسے ثبوتوں کی عدم دستیابی کی بناء پر کچھ کیسون سے آزادی مل گئی تھی اور کچھ کیسوں میں وہ سزا پوری کر چکا تھا

  8. شعیب ، اگر شیدا حفاظتی تحویل میں تھا اور اسے چھوٹ جانے کا *ڈر* تھا ، تو کہیں پکی آزادی کے خوف نے تو نہی صلح پر مجبور کردیا اسے؟ جیسے کچھ عرصہ پہلے مانے کمپورڈر کو آزاد کر دیا گیا تھا .!!!

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں