Skip to content

قصہ پانچویں درویش کا ۔۔۔

ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد کے مجلہ قراقرم کے  شمارے کے لئے مجھے مدیر اردو توصیف آفریدی نے کافی مؤثر حربے استعمال کرکے مجبور کردیا ہے کہ میں کچھ لکھوں۔  مجھے علم نہیں تھا  توصیف اتنا ضدی نکلے گا، بہر حال، میں جو کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا اس کا  کچھ حصہ مندرجہ ذیل ہے۔ بشرط تکمیل میں مکمل مضمون ، افسانہ، تحریر آپ اس جو بھی کہہ لیں۔ آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔ انشاءاللہ۔

 

ْ۔۔۔۔۔

’صاحبو‘ درویش نے قہوے کی پیالی سے ایک گھونٹ پینے کے بعد سر اٹھا کر کہا، ’ آج سردی واقعی کچھ زیادہ ہے، اور اگر مجھے آپ جیسے مہمان نوازوں کی رفاقت نصیب نہ ہوتی تو شائد میری قلفی بن جاتی جسے والز والے بازار میں بیچ ہی ڈالتے‘۔

درویش کے پاس بیٹھے چاروں درویشوں کی ظاہری حالت میں کوئی فرق نہ آیا۔ دائیں ہاتھ والا درویش اسی طرح سگریٹ سے ’راکٹ‘ بنانے میں مصروف رہا۔ سامنے والا درویش اسی طرح اپنے موبائل فون کی سکرین کو دیکھتا رہا جیسے اسے کسی کی فون کال کا انتظار ہو۔ موبائل فون میں بیٹری نہ ہونے کے باوجود اس کے انہماک میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ بائیں ہاتھ والا درویش کبھی مسکراتا، کبھی اس کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہو کر غائب ہوجاتیں اور کبھی وہ ادھ بجھا سگریٹ منہ میں لے کر، ہاتھ سر کے پیچھے باندھ کر اپنے جگہ پر یوں ہولے ہولے جھولنے لگتا جیسے وہ کسی نیٹ کیفے میں چیٹنگ کر رہا ہو اور دوسری جانب سے کسی بات کے جواب کا انتظار کر رہا ہو۔ چوتھا اور آخری درویش بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھ کر دیوار پر ٹنگی گھڑی سے وقت کا موازنہ کرتا اور بڑبڑاتا ’ پتہ نہیں اس نے بارہ بجے نئے ٹائم کا کہا تھا یا پرانے ٹائم کا؟‘۔

بہر حال یہ پانچواں درویش اتنا بے حال تھا کہ اس نے سب سے پہلے قہوے کی پیالی پر ہاتھ صاف کیا اور پھر کمرے میں موجود پیزے کو بھی اپنا مال سمجھ کر ہڑپ کر گیا۔ اس پر دائیں ہاتھ والے درویش نے اِس کو گھورتے ہوئے کہا،’ سگریٹ بنانے کا ٹائم ہے، ورنہ اتنا فری نہ ہونے دیتا تمھیں۔ آرام سے بیٹھو۔‘

چوتھے درویش نے گھڑیوں سے نظر ہٹا کر نو وارد کی طرف دیکھا اور کہا،’ معاف کرنا بھائی، اس نئے اور پرانے ٹائم کے سیاپے میں تو ہم آپ کا پوری طرح خیر مقدم کرنا بھی بھول گئے، ویسے وہ پیزا چار دن پرانا تھا، ہمارا تیسرا درویش چیٹنگ سےفارغ ہونے کے بعد کھانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اچھا ہوا آپ نے کھا لیا، اب ایک نیا پیزا آسکتا ہے۔ بہر حال، ہم چار درویش تو زمانے کے ستائے ہوئے اس کونے میں آ بیٹھے ہیں جہاں ہمیں بجلی پانی اور گیس کے بلوں کا غم نہیں ہے، ہم سب نے تو دل کا بوجھ ایک دوسرے کو سنا کر ہلکا کر ڈالا ہے، آپ بتاؤ کس چکر میں یہاں تک آ پہنچے ہو؟ کو ئی بچی ۔۔۔؟‘

تِس پر پانچویں درویش کا چہرہ شرم سے اتنا لال ہوا کہ پہلے درویش نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا  ’اوئے یہ کس نے سگریٹ لگا لیا ہے؟‘ اور سامنے والے درویش نے فورا اپنے موبائل کو کان سے لگا کر کہا’ ہیلو ہیلو، تم کچھ کہتی کیوں نہیں ہو، دیکھو میرا موبائل بھی غصے سے لال ہو چکا ہے‘۔ اور بائیں ہاتھ والا درویش اسی طرح مصروف رہا۔۔۔

پانچویں درویش نے ایک ڈکار لی، اور دیوار سے ٹیک لگا نے کے بعدبولا’ بھائیو، اس حقیر پُر تقصیر کا قصہ بڑا غمناک ہے۔ سنو گے تو دل پھٹ جائے گا، جگر سے خون بہ نکلے گا اور پھیپھڑے سانس لینے کو ترسیں گے، ٹانگیں چلنے سے انکار کردیں گی اور آنکھیں اتنی پھیل جائیں گی کہ آپ کو اے ایف سی سے پیزا چرانے کا طریقہ سامنے نظر آئے گا۔ ‘

سامنے والے درویش نے تخیلاتی لیپ ٹاپ کمپیوٹر کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا ، ’ لگتا ہے آپ کسی زمانے میں ڈاکٹر رہے ہو، تبھی اتنی باتیں کر رہے ہو‘۔ اس پر پانچویں درویش نے سر جھکایا، ایک اتنی ٹھنڈی سانس لی کہ پہلا درویش کانپا اور اس کے ہاتھ سے وہ ‘راکٹ’ گر گیا جو ابھی تیاری کے مراحل میں تھا، اور باقی درویش کمرے کے کونوں کھدروں میں پناہ لینے کو بھاگے۔۔

 

(نامکمل) منیر عباسی

10 thoughts on “قصہ پانچویں درویش کا ۔۔۔”

  1. شکریہ دوست. کوشش کروں گا بشرط زندگی و لوڈ شیڈنگ کہ اسے جلد سے جلد مکمل کر سکوں ورنہ توصیف نے جان لے لینی ہے.

  2. بہت خوب ڈاکٹر صاحب، مجھے تو بھئی بہت پسندآیا، مکمل متن کا انتظار رہے گا.
    چھوٹا منہ بڑی بات، لیکن ایک جگہ مجھے تھوڑا سا جھول محسوس ہوا، ملاحظہ کیجیے،
    “’ سگریٹ بنانے کا ٹائم ہے، ورنہ اتنا فری نہ ہونے دیتا تمھیں۔ آرام سے بیٹھو۔‘”
    اگر مناسب سمجھیے تو اس میں مناسب ترمیم کر دیں، کوئی تڑکتا ہوا فقرہ، یقین جانیے لطف آ جائے گا.
    خوش رہیے….

  3. اچھا تو یہ ہے وہ پیروڈی جس کا آپ نے بہت پہلے وعدہ کیا تھا۔۔۔
    عمدہ ہے۔۔۔
    لیکن اتنے لمبے لارے تو کسی معشوق کے ہی اچھے لگتے ہیں
    ڈاکٹر لوگوں کے نہیں
    تو اگلی قسط ذرا جلدی۔۔۔
    ہیں جی۔۔۔
    .-= جعفر´s last blog ..عشق وشق پیار ویار =-.

  4. نہیں جعفر ، یہ وہ پیروڈی نہیں ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا. وہ پھر کبھی، یہ تو بیٹھے بٹھائے ذہن میں آ گئی.

    آج انشاءاللہ اس کو مکمل کر ڈالوں گا. پھر ذرا تدوین کی ضرورت پڑے گی.

    بلکہ مکمل ہو چکی ہے، بس تدوین کا انتظار ہے۔۔

  5. I am unable to type in urdu , dunno how these guys do that, , the lower keyboard doesnt work i guess , anyways this thing looks funny , try to complete it ,before their trip to heavens is over 🙂 , ayubian darwaish !!!  

  6. منیر عباسی صاحب!

    ۔۔۔ کمرے میں موجود پیزے کو بھی اپنا مال سمجھ کر ہڑپ کر گیا۔ ۔۔
    مندرجہ بالا جملے میں۔۔۔ اپنا مال۔۔ کی جگہ ۔۔ پرایا مال۔۔۔ استعمال کریں تو تحریر کا حسن بڑھ جائے گا ۔ اور تحریر ، اردو میں جاری موجودہ روش میں آجائے گی۔

    تحریر بہت مزے کی ہے۔ اور اس میں روانی ہے ۔ آپ سے ضرور مکمل کریں اور اس کا نام آپ چونکا دینے والا رکھنا چاہ رہے ہیں۔
    ویسے ایک بات یہ چاروں درویش ایوب میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹ لگتے ہیں۔ اور پانچواں درویش فارغ التحصیل ڈاکٹر۔ تو پھر جب آپ اسے چونکا دینے والا اختتام دیں گے تو ظاہری سی بات ہے وہ بہت زبردست اختتام ہونا چاپئیے۔ وگرنہ آپ کی اس نامکمل تحریر میں جو چونکا دینے والا انداز ہے آپ اسے ہی اختتام بنائیں تو کم از کم کالج میگزین پڑھنے والوں کو مزے کی تحریر لگے گی۔

    مندرجہ بالا رائے بس رائے ہے۔ اب باقی پلاٹ تو کو علم ہوگا۔ بہرحال تحریر کے باقی حصے کا انتظار رہے گا۔

  7. مجھے علم نہیں اس حُسن ظن کا کیا نتیجہ نکلے گا، مگر جاوید صاحب ، آپ نے مجھ سے جو توقعات رکھ لی ہیں شائد میں ان پر پورا نہ اتر پاؤں.

    اس کا اختتام شائد اتنا چونکا دینے والا نہ ہو جتنا آپ کے خیال میں ہونا چاہئے.

    شائد آج ہی مکمل تحریر یہاں شائع کر ڈالوں.

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں