پچھلی صدی کی آخری دہائی میں طالبان تحریک کے ابھرنے کے بعد سے ہمارے خطے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور ان تبدیلیوں میں ایک اصطلاح طالبانائزیشن کا استعمال بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے علم نہیں اس اصطلاح کے استعمال کرنے والے اس سے کیا مراد لیتے ہیں۔ مگر اسے میں باقی نفرت آمیز اصطلاحوں میں سے ایک شمار کرنا چاہوں گا۔ یعنی جب کسی کی توہین کرنا چاہو، خصوصا جو شخص حلیے یا خیالات کے اعتبار سے لچک دکھانے پر آمادہ نہ ہو تو
اسے طالبان کہہ کر دھتکار دو۔
اس اصطلاح کا استعمال کراچی میں بہت ہوتا ہے، اور خصوصا ۲۰۰۸ کے الیکشن کے بعد سے تو بہت زیادہ ہو رہا ہے جب اے این پی نے ۲ نشستیں کراچی سے جیت
لیں۔ کراچی کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا۔ اور اگر کراچی میں پٹھانوں کی آمد کو کسی طریقے سے روکا نہیں جاتا تو کچھ سالوں بعد کراچی میں شائد اے
این پی، لسانی بنیادوں پر ہی، کیونکہ باقی سیاسی جامعتوں کی طرح اس کے پاس بھی کوئی کام کا ایجنڈا نہیں ہے، دو سے زیادہ سیٹیں جیت سکتی ہے۔ اور طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے شہر میں۔ اس کا نتیجہ اور کچھ نہیںہوگا مگر اور لسانی فسادات ہوںگے۔ اس لئے طالبانائزیشن کا ہوا کھڑا کرنا انتہائی مناسب بات ہے۔ اب اس کے ساتھ
ساتھ اگر ڈرگ، لینڈ، ٹرانسپورٹ اور پتہ نہیں کیا کیا مافیا کا تڑکا بھی لگا دیا جائے تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو جائے۔
یہ سب تمہید تو عادت سے مجبور ہو کر میں کر گیا ، یہ مراسلہ لکھنے کی اصل وجہ وہ ایس ایم ایس بنا جو ہمارے مخالفین آج کل کی سیاسی مہم میں ہمارے خلاف بڑے جوش و خروش سے چلا رہے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ کیجئے:
Do You want Ayub Medical Institution Environment to be polluted by Politics, Racism, Linguistics, Nationalism, & Talibanisation? If NO… Solution is simple… VOTE for Democrats
مجھے سمجھ نہیں آتی، نیشنلزم ، اور پالیٹکس اگر نہ ہوں تو پھر سیاست کا کیا فائدہ۔ لگتا ہے ایس ایم ایس بنانے والے کوخود بھی نہیں پتہ کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ ہمارا تو انتخابی نشان سٹیتھو سکوپ ہے ، اور چونکہ مخالفین کا انتخابی نشان باز ہے ، تو میں تو ہر ڈاکٹر کو یہی کہتا ہوں کہ وہ سٹیتھو سکوپ کو ایک جانور پر ترجیح دیں۔
دیکھیں کیا ہوتا ہے۔۔۔ امید ہے ہمارے تعلیم یافتہ ووٹر حضرات سوچ سمجھ کر اگلے دو سالوںکے لئے نئی کابینہ کا انتخاب کریںگے۔
میں غلطی کی نشاندہی کے لئے احمد عرفان شفقت کا ممنون ہوں۔
آپ کے خیالات کسی حد تک درست ہیں
کراچی میں ووٹ لینے کے لیے اکثر پولنگ اسٹیشن اغوا ہو جاتے ہیں
یار Linguistics نے کیا قصور کردیا۔
پچھلی صدی کی آخری صدی میں۔۔۔
شاید پچھلی صدی کی آخری دہائی میں۔۔۔لکھنا مقصود تھا۔۔
آپ نے مجھے وہ زمانہ ياد کرا ديا جب ميں گارڈن کالج راولنڈی ميں گيارہويں جمات مں پڑھتا تھا يعنی پچپن سال قبل ۔ ايک آل پاکستان سٹوڈنٹس آرگنائزيشن بنی تھی جس کا نعرہ تھا ترقی کی طرف قدم بڑھاؤ جاہل مُلا کو چھوڑ دو ۔ اس ميں پہلے ميں بھی شامل ہوا ۔ ان کا قومی کنوينشن کوئٹہ ميں ہوا جہاں ميں نہ جا سکا مگر جو لوگ گئے تھے ان ميں سے ايک بڑے عہديدار نے مجھے بہاولپور سے خط لکھا کہ ميں فوری طور پر استعفٰے لکھ کر دے دوں کيونکہ اس آرگنائزيشن کو غيرملکی فنز مل رہے ہيں
املا کی غلطيوں کيلئے معذرت خواہ ہوں ۔ ہونا چاہيئے
ميں گيارہويں جماعت ميں پڑھتا تھا
غيرملکی فنڈز مل رہے ہيں
ڈاکٹر صاحب سیاست کا ایک اثر تو آپ کے اوپر واضح ہے۔۔ اب آپ ہشت پہلو گفتگو کرنے لگے ہیں۔۔۔ برے انداز میں نہیں۔۔ مگر مبہم گفتگو جس سے ایک ہی انسان موافقت اور مخالفت کا پہلو نکال سکتا ہے 🙂
تعریف کا شکریہ راشد کامران صاحب۔
Comments are closed.