Skip to content

صوبہ سرحد کے ڈاکٹرز کی تحریک اور میرا استعفیٰ

یہ سال صوبہ سرحد کے ڈاکٹروں کے لئے بالعموم اور ایبٹ آباد کے ڈاکٹروں کے لئے بالخصوص ایک اہم سال تھا ۔اس سال ایک ایسی تحریک چلی جس میں سب ڈاکٹر اپنی سیاسی اور علاقائی شناخت بھلا کر متحد ہوئے اور اس متحدہ کوشش کے نتیجے میں انھیں اپنے متعین کردہ اہداف میں سے کچھ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ باقی اہداف کے لئے کاغذی کارروائی جاری ہے اور امید ہے کہ حکومت سرحد کے اعلان کردہ چار ہفتوں کے وقت کے اندر اندر  بہت کچھ حاصل ہوجائے گا۔ مگر میں شائد پی ڈی اے کی ایگزیکٹو کونسل کی رکنیت سے کل استعفیٰ دے دوں۔

اس سے پہلے صوبہ سرحد کے ڈاکٹرز پشاور کی پی ڈی اے اور ایبٹ آباد کی پی ڈی اے میں منقسم تھے، دونوں فریق ایک دوسرے کی حیثیت کو متنازعہ قرار دیتے تھے اور اپنےآپ کو ڈاکٹرز کے حقوق کے لئے جدو جہد کرنے والی نمائندہ تنظیم قرار دیتے تھے۔ ان حالات میں ۲۰۰۸ میں جب ایبٹ آباد میں پی ڈی اے کے الیکشن ہوئے توکامیاب فریق کے بلند و بانگ دعووں میں ایک دعویٰ ڈاکٹرز کی مالی حالت درست کرنے کے بارے میں تھا۔ اس پینل میں جو لوگ شامل تھے، ان کے سیاسی ماضی سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور ، حالانکہ میں نے انھیں ووٹ نہیں دیا تھا، مگر مجھے یقین تھا کہ جس بھاری اکثریت سے یہ پینل انتخاب جیتا تھا ، ہمارے کچھ مسائل جلد ہی حل ہوجاتے، مگر ایک سال گزرنے کے بعد بھی کچھ نہ ہوا۔

ہم سب مایوس ہو چکے تھے اور یہ بات طے تھی کہ اس پینل کی وقعت اب نہ ہونے کے برابر تھی، جب، سی پی ایس پی کے کونسلر  جناب ڈاکٹر شعیب شفیع نے ہمارے ہسپتال کا دورہ کیا۔ ٹرینی ڈاکٹرز کی ٹریننگ اور دیگر امور پر ان سے بحث ہوئی اور ہمارے پروفیسر صاحبان نے بھی ہمارے مسائل کی حمایت میں ان سے سیر حاصل بحث کی، تب ہمیں یقین ہو چلا کہ اب خود ہمت کر کے تحریک چلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ یہی بات جناب شعیب شفیع نے بھی کی۔ ہمیں ایک لحاظ سے دُکھ بھی ہوا کہ یہ سارے ادارے فیس وصولی میں تو کوئی رعایت نہیں کرتے اور جب ہمارے مسائل کی بات آتی ہے تو الٹا ہمیں جد وجہد کا مشورہ دے کر خود ملازمتی اوردوسرے قوانین کی مجبوریوں کا حوالہ دے کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

بہرحال ڈاکٹر حفیظ اللہ ، جو کہ ہمارے ٹرینی دوست ہیں، نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بنا ڈالی۔ اس کام میں ہمیں پنجاب سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے تمام عہدے داروں ، بشمول ڈاکٹر سلمان کاظمی اور ڈاکٹر رانا سہیل کا تعاون  حاصل رہا۔ جب ہم سپریم کورٹ کی طرف مارچ کر رہے تھے تو ڈاکٹر طلحہ احمد شیروانی نےجو کہ نائب صدر ہیں پنجاب  ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے، ہمارے جلوس کی قیادت کی اور  اور یہ بہت بڑی بات تھی کہ وہ اپنا کام چھوڑ کرآئے اور ہمارے ساتھ اس گرمی میں اسلام آباد کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ ہم یقینا بہت متأثر ہوئے۔ینگ ڈاکڑز ایسوسی ایش میں میرا عہدہ پریس سیکریٹری کا تھا۔ میں نے پوری کوشش کی کہ میں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں، جیسا کہ آپ نے امید سحر کے عنوان سے میری گزشتہ پوسٹس دیکھی ہوںگی۔

قصہ مختصر کرتے ہیں، ہماری اس جدوجہد کے دوران ہم پر بہت الزام لگے، بہت سی افواہیں بھی پھیلائی  گئیں۔ مگر ہمارا مقصد ایک تھا، ـ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ ہمیں دھمکیاں بھی دی گئیں، ایسے نوٹیفیکیشن بھی جاری کئے گئے جن میں ہمیں غیرقانونی تنظیم قرار دے کر بند کرنےکا فیصلہ کیا گیا۔پھر ایک فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب پشاور کی پی ڈی اے نے ہمارے مؤقف کی حمایت کرتےہوئے پشاور میں احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا۔جون ۲۰۰۹ سے شروع ہونے والی تحریک میں جولائی کے وسط تک اور بہت سے لوگ اور تنظیمیں ہمارے ساتھ شامل ہو چکی تھیں ، اور ہم نے فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ وقت ڈکٹرز کے اتحاد کا ہے، لٰہذا انفرادی کریڈیٹ لینے کے بجائے اجتماعی بات کرنی ہوگی تو ہم نے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کو فی الحال معطل کر کے پی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ، اس بارے میں دونوں پشاو ر اور ایبٹ آباد کے دھڑوں کا اجلاس ہو اورآپس کے شکوے دور کرائے گئے۔ اس کے بعد اس تحریک نے جو ایبٹ آباد سے شروع کی ،گئی تھی، نے پورے صوبے میں اپنی موجودگی منوالی۔ یہ تحریک اس لحاظ سے منفرد ہے ، کہ ، یہ ایبٹ آباد کی تاریخ کی سب سےلمبی تحریک ہے، جس میں ایک شیشہ نہیں تو ڑاگیا، کسی سینئر کو گالی نہیں دی گئی اور ایڈمنسٹریشن سے خا مخواہ الجھنے سے گریز کیاگیا، بلکہ بعض مواقع پر تو الٹا ایڈمنسٹریشن نے ہماری مدد کی۔ اور پھر یہ تحریک جزوی طور  پرسہی جیسا کہ ان سطور کےلکھنے تک ہے، اور بعض امور اب تک تصفیہ طلب ہیں، مگر کامیاب ضرور ہوئی۔ یہ کریڈٹ ڈاکٹر حفیظ اور ان کے ساتھیوں کو اسلئے بھی جاتا ہے کہ ان سب کاکوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں تھا۔کسی سیاسی جماعت کو ان پر کسی قسم کا اعتراض کرنے کا موقع نہیں مل سکا، بلکہ اگر کسی نے اعتراض کیابھی تو ہم نے انھیں یہ پیشکش کی کہ وہ اگر یہ مسائل حل کر سکتے ہیں تو آگے آئیں، ہم رضاکارانہ طور پر پیچھے ہٹ جاتے ہیں، مگر یہ تنقید صرف پوائینٹ سکورنگ کی حد تک تھی۔بہرحال تحریک کامیاب ہو ئی، گرفتاری کی افواہیں پھیلیں، ۳ ایم پی او اور ۱۶ ایم پی او کے تحت گرفتاری بات چھڑی اور ہمیں، جو سرکردہ رہنما تھے ، جان بچانے کے لئے اسلام آباد میں دو تین دن رہنا پڑا۔ قبل از گرفتاری ضمانت کی بات آئی، اور بہت سی باتیں تھیں جن کا ذطوالت کے خوف سے مجھے چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ اس سب عرصے کے دوران مجھےاور میرے دوستوں کو یہ احساس شدت سے ہوا کہ پی ڈی اے کا نظام جس کسی بھی طرح ایک پیشہ ورانہ تنظیم کے طور پر نہیں چل رہا،۔ اس میں بہتری کی بہت سی گنجائش ہے اور ہم نئے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم  فارغ ہوتے ہی اس تنظیم نو پر غور کریں گے۔

اس تنظیم نو کے سلسلے میں ہم تمام ڈاکٹرز کے پاس گئے اور ہم نے ان سے چندہ اکٹھا کیا۔  اس چندے سے پی ڈی اے کے لئے بہت سے کام کرنے تھے ، مگر افسوس، کہ ہماری قوم کی مجموعی طور پر جزوقتی منصوبہ بندی آڑے آگئی اور جوان اور جوشیلے کارکنوں نے اس رقم سے جشن منانے کا فیصلہ کی۔ میں نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی اور میری دلیل یہ تھی کہ ہم پر اعتماد کرکے یہ رقم لوگوں نےبحیثیت چندہ ہمیں دی ہے، اور اگر ہم اس ا مانت میں خیانت کریں گے تو آئندہ ہمیں شائد ہی کوئی جائز کام کے لئے چندہ فراہم کرے۔ مگر مجھ جیسے لوگوں کو خاموش کرا دیا گیا ور گزشتہ شب ایک موسیقی کا پروگرام ترتیب دیا گیا جو کہ بارش کی نذر ہو گیا۔ اس پروگرام کا سارا خرچہ ان پیسوں سے نکالا گیا تھا جو پی ڈی اے کو ڈونیشن کی مد میں حاصل ہوئے تھے۔

میرا مؤقف یہ تھا کہ ابھی ہمیں جزوی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور جب تک سروس سٹرکچر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا ہمیں کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے، مگر مجال ہے جو اس بات کو کسی نے سنجیدہ لیا ہو۔ میں نے یہ بھی درخواست کی کہ اگر آپ جشن منانا چاہتے ہو تو اپنی جیب سے خرچ کرو، کسی کی امانت کو یوں ضائع نہ کرو، مگر کسی نے میری بات نہ سنی اور  اُلٹا مجھے دھمکیاں دی گئیں، اور بد زبانی کی گئی۔ میں نے ایگزیکٹو کونسل کے کچھ ممبران سے بات کی، وہ میرے مؤقف سے متفق تو تھے، مگر یہ فضول خرچی رکوانے میں بے بس نظر آتے تھے۔ بہر حال میں نے فیصلہ کیا کہ کل انشاٗاللہ میں اپنا استعفیٰ دے دوں گا، کیونکہ اگر یہ لوگ ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰۰ کی معمولی رقم کو ایمانداری سے خرچ نہیں کر سکتے تو کچھ بعید نہیں کل بڑی رقم آنے پر یہ اور بڑی کرپشن کریں، اور میں یہ نہیں چاہتا کہ میں اس کام میں شریک ہوں، لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ کل ہونے والی میٹنگ میں اپنا استعفیٰ پیش کردوں  گا۔

پس نوشت:

اس تحریک سے ہمیں کچھ باتیں پتہ چلیں،  ایک یہ کہ کسی تحریک میں آج کل جسےنئی ٹیکنالوجی استعمال کرنا آتی ہے، وہ کامیاب ہے۔  میں نے پریس سیکرٹری کے طور پر، کمپیوٹر اور موبائل فون ایس ایم ایس  کا کافی استعمال کیا، اور موبائل ایس ایم ایس کی وجہ سے ، ۱۰ سے۱۵ منٹ میں ہمارا پیغام۳۰۰ سے ۴۰۰ ڈاکٹرز تک پہنچ جاتا تھا۔ اور اس نے ہماری تحریک کی کامیابی میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اس موبائل میسنجنگ کی بدولت جب ہم اسلام آباد جارہے تھے تو ہم ہر ایک سے رابطے میں تھے، اور ہمیں بظاہر کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔

اب مستقبل کی ڈاکٹرز کمپین اب ایس ایم ایس اور کمیپوٹرز پر لڑی جائےگی۔

10 thoughts on “صوبہ سرحد کے ڈاکٹرز کی تحریک اور میرا استعفیٰ”

  1. وہی داستاں ہے ہر سو اس دیار میں ۔ آپ نے مجھے 1974 اور 1975 کا زمانہ یاد کروا دیا جب اللہ نےمجھے توفیق عطا کی تھی کہ میں پاکستان کے انجنیئرز کے لئے کام کروں ۔ اللہ کے فضل سے تمام جونیئر انجنیئرز کو پانچ پانچ انکریمنٹ مل گئے ۔ میں ان دنوں سینیئر انجنیئر تھا ۔ بعد میں مڑ کر دیکھا تو میدان خالی تھااور اور مجھے اکیلا پا کر بڑے لوگوں نے سب حساب چکتے کئے تھے ۔

  2. ڈاکٹر صاحب
    آپ جیسا آدمی اس جیسے معاشرے میں فٹ نہیں ہوتا
    لہذا یا معاشرہ بدل لیں
    یا خود کو بدل لیں

  3. افتخار اجمل صاحب:: ہمارے ساتھ بھی یہی ہونا تھا، اور اس مرتبہ یار دوستوں نے بڑی کوشش کی کہ کوئی ایسی حرکت ہم سے کروائی جائے جس کے بعد یہ لوگ اپنی مرضی کا سلوک ہم سے کرسکیں۔ مثلا ہمارے ہسپتال کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے ہمیں نوکری سے برخاست کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ بے روزگاری بڑا عذاب ہے اور یہ کہ آپ لوگ بے روزگاری برداشت نہیں کر سکو گے، ہم نے کہا کہ ہم تو ٹرینی ڈاکٹر ہیں ہسپتال کے نوکر نہیں، وہ ہمیں کیسے برخاست کریں گے؟
    پھر ہمیں جیلوں سے ڈرایا گیا ، اور یہ بات اتنی عام ہوئی کہ ہمارے بہت سے سپورٹر جوشغل میلہ پر یقین رکھتے تھے، گھروں کو بھاگ گئےاور جب اسلام آباد میں ہمیں افرادی قوت کی ضرورت تھی، ہمیں ان کا گھروں کو بھاگنا کافی شدت سے محسوس ہوا۔ سروس سٹرکچر ہمارا مسئلہ با لکل نہیں تھا، یہ ہمارے سینئر ڈاکٹرز کا مسئلہ تھا، اور انھی سینئر ڈاکٹڑز میں سے کچھ نے کام میں روڑے اٹکائے اور پھر ایک سے تو مجھے کہنا پڑا کہ سر مجھے علم ہے کہ آپ کل فلاں ڈاکٹر پر کیس کریں گے، لہٰذا ایسا نہ ہو کہ کل آپ ہمارے پاس دوبارہ آجائیں مدد کی درخواست لے کر، پھر شائد ہم انکار بھی کر دیں۔
    ہم نے پوری کوشش کی کہ ڈاکٹرز جذبات میں آ کر کسی کو گالی نہ دیں، کسی کا گریبان نہ پکڑیں ، اور نہ ہی کسی سے الجھیں، اور یہی بات وہ لوگ چاہتے تھے، کہ اندیشہ نقص امن پیدا ہو اور ان کا کام آسان ہوجائے۔اور یہ بات ہمیں علم تھی کہ اگر ہماری قلم چھوڑ ہڑتال میں ایسا کوئی بھی واقعہ ہو جاتا تو پھر شائد جعفر کی دعائیں قبول ہو چکی ہوتیں اور میںدوسرے دوستوں کےساتھ کسی جیل میں نا قابل ضمانت جرم کی دفعہ کے تحت پڑا ہوتا۔

    جعفر ::: اب تو میرا آئیڈیلیزم کافی کم ہو گیا ہے، آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔

    کنفیوز کامی ::: حوصلہ بڑھانے کا شکریہ۔

  4. ڈنگ ٹپاؤ‌ پالیسی اور چھوٹی چھوٹی سی بے ایمانیاں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ یہ ہمارا بیڑہ غرق کردیتی ہیں بعد میں۔

  5. ارشاد علی

    اِس جدوجہد میں ایک بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ ہڑتال کے خاتمے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب صوبائی حکومت نے مشکِل سے پانچ میں سے صرف ایک مطالبہ پورا کرنے کی حامی بھر لی تھی، جس سے ایک مخصوص طبقہ ہی اصل فائدہ حاصِل کرسکیگا۔ تاہم چونکہ ھڑتال میںجان ڈالنے والوں کی اکثریت کا مسئلہ اِسی ایک مطالبے سے پورا ہوتا تھا لہٰذا ہم جیسے اِس ہڑتال کے ثمرات سے براہِ راست مستفید نہ ھونے والے ڈاکٹروں نے بھی اِس جزوی کامیابی پر نہ صرف اِطمینان بلکہ خوشی کا اِظہار کر لیا۔

    لیکن ہم شائد یہ تصور نہ کر سکے کہ “کام پورا، پنڈت شیخوپورہ” کے مصداق اِس تحریک کے روحِ رواں عنقریب اپنے مفادات کا ہدف پورا ہونے پر باقی ماندہ مسائِل بھول جائینگے۔

    اور بات پھر “تُو کون ہے، میں کون ہوں؟” کی طرف چلی جائیگی۔ ایک بار پھر “اتحاد، اتفاق، محنت، خدمت، بے لوث قیادت” جیسے نعرے مالِِ تجارت کی طرح عام ھوجائینگی۔

    کیا پتہ یہ ڈاکٹروں کے اندر پیدا ہونے والی بے مثال اتحاد کو ختم کرنے کی سازش ہو۔

    کیا پتہ مذکورہ بالا سینیئر ڈاکٹر کا آ۔س میں ہاتھ ہو۔

    کیا پتہ امریکہ، مشرف، زرداری یا این۔ آر۔ او کی وجہ سے ہو۔

    وجہ جو بھی ہو، میرے خیال میں اِس وقت ایک مخلِص قیادت کا استعفٰی عقلمندی نہیں۔

  6. پس نوشت پر تبصرہ۔
    بالکل درست فرمایا جناب۔۔ ٹیکنالوجی کا استعمال نہ صرف یہ کہ تحریکوں کو نئی جہت فراہم کررہا ہے بلکہ
    سازشی عناصر کے لیے بھی ایک درد سر ہے اور مستقبل میں کئی تحریکیں اس استعمال کی بدولت ماضی کی
    نسبت مختلف نتائج دیں گے۔

  7. معاشرے کو بدلنے کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ۔ اگر خود کو بدل لیا تو پاکستان جوں کا توں رہے گا ۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے ایک مینر صاحب نہیں کہیں مینر عباسی چاہئے ،

    1. شکریہ تانیہ رحمٰن صاحبہ، یہ بات درست ہے کہ ایک فرد اگر ہمت کرے تو تاریخ کی دھار موڑ سکتا ہے، مگر فرد وہ ہو جو ایک لشکر کی قیادت کرے، ایک ہجوم کی نہیں۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں