Skip to content

کیا قرآن میں واقعی امیہ ابن ابی الصلت کا کلام موجود ہے؟؟۔ حصہ دوم

گزشتہ سے پیوستہ:

اب ہم حضور ﷺ اور امیہ کی زندگی کے ان اہم واقعات کو تلاش کرتے ہیں جن کا اس واقعہ سے تعلق بنتا ہے ۔
اول: سب سے پہلے تو یہ کہ شاعر جیسا کہ روایتوں میں آیا ہے نبی “ان ویٹنگ” کی توقع کئے ہوئےتھا۔جس وقت اسے ،علوم ہوا کہ نبوت اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہے تو وہ طائف میں اس آدمی کے قریب اپنی رہائش باقی نہ رکھ سکا جس کے بارے میں تقدیر کا فیصلہ یہ ہوا کہ وحی اس پر نازل ہو ،پس وہ اپنی دو بیٹیوں کو لیکر یمن بھاگ گیا۔مطلب اس کا یہ ہوا کہ شاعر : محمد کی وجہ سے ذہنی تشویش میں مبتلا تھا نہ کہ اس کا برعکس۔یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ شاعر طائف چھوٹ کر کیوں بھاگا اور محمد کا سامنا کیوں نہیں کیا؟ اگر قرآ ن نے اشعار امیہ سے اقتباسات لئے ہوتے توایسی صورت میں اس کو حضور ﷺ کا سامنا کر نا چاہئے تھا اور یہ کہنا چاہئے تھا کہ یہ جو خیالات قرآن میں آپ پیش کر رہے ہیں میں انکو پہلے ہی اپنے اشعار مین پیش کر چکا ہوں ۔ شاعر کے پاس یہ اس بات کی پکی دلیل ہوتی کہ محمد بر حق نبی نہیں ہیں اور میں ان سے افضل ہوں ( کہ وہ میرے اشعار چرا رہے ہیں)۔اگر قرآن نے اقتباسات لئے ہوتے توکیا عقل مذکورہ صورت حال کا تقاضہ نہیں کرتی؟جبکہ شاعر مشرکین مکہ کو خون کا بدلہ لینے پر تو ابھارتا رہا ،خودخون کے گھونٹ بھی پیتا رہا، اپنی اوٹنی کے بھی پاؤں کاٹ ڈالے مگر کبھی اس نے آگے بڑھ کر متذکرہ بالا بات نہ کہی۔

دوم: نبی پاک ﷺ دعوت و تبلیغ کے کام کیلئے طائف گئے تھے یہ سوچتے ہوئے کہ مکہ والے تو اس دین کو قبول نہیں کر رہے شائد طائف والے اس کو قبول کریں اور میرے ساتھ اچھا سلوک کریں مگر طائف والوں نے نہ صرف دین قبول نہیں کیا بلکہ آپ کے ساتھ انتہائی برا معاملہ کیا۔ اب کومن سینس کو کام میں لائیے اور بتائیے کہ اگر امیہ نے مذکورہ اشعار کہے ہوتے اور حضور نے انکی چوری کی ہوتی تو کیا آپ ایسا کلام لے کر شاعر کے شہر جاتے؟کیا یہ اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارنے کے جیسا نہیں ہے۔ نیز طائف والوں نے اس وقت کے مہمانی کے اصولوں کے خلاف شہر کے اوباشوں کو تو آپ کے پیچھے لگادیا جنہوں نے آپ کو جسمانی اور روحانی ہر طرح کی تکلیف پہنچائی،اور کونسا برا سلوک ہوگا جو انہوں نے آپ کے ساتھ نہیں برتا مگر انہوں نے نہیں کیا تو یہی کام نہیں کیا کہ حضور پہ امیہ کے اشعارکی چوری کا الزام لگاتے۔کس چیز نے ان کو یہ الزام لگانے سے روک دیا؟
سوم: حضور کی مدح و توصیف پہ مشتمل امیہ کےیہ اشعار دیکھیں

لك الحمد والمنّ رب العبا * د. أنت المليك وأنت الحَكَمْ
ودِنْ دين ربك حتى التُّقَى * واجتنبنّ الهوى والضَّجَمْ
محمدًا ارْسَلَه بالهدى * فعاش غنيا ولم يُهْتَضَمْ
عطاءً من الله أُعْطِيتَه * وخصَّ به الله أهل الحرمْ
وقد علموا أنه خيرهم * وفى بيتهم ذى الندى والكرمْ
نبىُّ هدًى صادقٌ طيبٌ * رحيمٌ رءوف بوصل الرَّحِمْ
به ختم الله من قبله * ومن بعده من نبىٍّ ختمْ
يموت كما مات من قد مضى* يُرَدّ إلى الله بارى النَّسَمْ
مع الأنبيا فى جِنَان الخلو * دِ، هُمُو أهلها غير حلّ القَسَمْ
وقدّس فينا بحب الصلاة * جميعا، وعلّم خطّ القلمْ
كتابًا من الله نقرا به * فمن يعتريه فقدْمًا أَثِمْ
(أمية بن أبى الصلت- حياته وشعره” لبهجة عبد الغفور الحديثى/ 260- 264

ان اشعار میں امیہ نے حضور ﷺ کی تعریف کی ہے ، یہ اشعار واضح طور سے قرآن سے انسپائرڈ ہیں ۔بالفاظ دیگر امیہ نے قرآن سے الفاظ لئے ہیں، اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوتا یعنی حضور نے امیہ کے اشعار چرائے ہوتے تو امیہ کو ان اشعار میں حضور کی تعریف کرنی چاہئے تھی یا ہجو؟
چہارم : ہمارے سامنے امیہ کی بہن فارعہ کے علاوہ شاعرکے قبیلے ثقیف سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگ بھی ہیں ۔ان دی لوگوں میں ایک صاحب کنانہ بن عبد یالیل ہیں۔ یہ اپنے زمانہ میں قبیلہ ثقیف کے سردار تھا ۔یہ اسلام کے بڑے دشمن ابو عامر کے ساتھ اسلام اور رسول کے خلاف سازش میں شریک تھا،اپنی اس سازش کو انجام تک پہنچانے کیلئے یہ دونوں قیصر روم کے پاس بھی گئے اوراسلام کے خلاف قیصر کی مدد کا وعدہ کیا۔ جب قیصر کے ہاں کامیابی نہ ملی تو ابو عامر تو شام میں ہی رک گیا اور کنانہ یہاں وہاں ٹکرے کھانے کے بعد واپس آگیا اور اسلام لانے کا اعلان کیا ۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مرتد ہوگیا تھا بعد میں دوبارہ اسلام لایا۔سوال یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ نے امیہ کے اشعار چرائے ہوتے تو کنانہ جیسا آدمی جس نے باقاعدہ حضور کے خلاف سازش رچی اور اس سلسلہ میں سپر پاور طاقت سے ملاقات بھی کی ،کیسے خاموش رہ گیا ؟ اس کو تو یہ بات اپنے اہم ہتھیار کے طور پہ استعمال کرنی چاہئے تھی اور اس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے دلوں پہ حملہ کرنا چاہئے تھا اور اپنے آپکو اپنی قوم کو اور سارے جزیرۃ العرب کو حضور کے فتنہ سے نجات دلانی چاہئے تھی

پنجم: شاعر کی بہن کے علاوہ لوگوں میں سے ایک عروہ بن مسعود ثقفی بھی ہیں۔ یہ اپنی قوم اور قبیلہ کے اسلام لانے سے کافی پہلے اسلام لے آئے تھے ، اپنی قوم سے محبت کی وجہ سے ان کی یہ خواہش تھی کہ میری قوم بھی حضور کے ہاتھ پر ایمان لے آئے چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے حضور سے اپنی قوم میں جاکر دعوت کا کام کرنے کی اجازت چاہی ،حضور نے اندیشہ ظاہر کیا کہ وہ تمہیں مار ڈالیں گے ،عروہ بن مسعود کا اپنی قوم سے محبت کی وجہ سے یہ خیال تھا کہ یہ میرے قبیلے والے ہیں میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کریں گے چنانچہ انہوں نے دوبارہ اجازت چاہی،حضور نے پھر اپنے اسی اندیشہ کا اظہار کیا ،انہوں نے تیسری مرتبہ اجازت چاہی تو حضور نے اجازت دے دی ۔جب عروہ نے اپنی قوم میں جاکر لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا تو چاروں طرف سے لوگ ان کے پاس جمع ہوگئےاور تیر مار مار کے انکو شہید کر ڈالا۔ اللہ ان سے راضی ہو۔(أبو نعيم الأصفهانى/ دلائل النبوة/ ط2/ حيدر أباد الدكن/ 1950م/ 467).
یہاں کئی سوال ہیں ۔اگر حضور ﷺ نے اس امیہ کے اشعار چرائے ہوتے جس کی اسلام کے خلاف سازش بہت بعد تک چلتی رہی تو کیا عروہ اپنی قوم کے دھرم کے خلاف حضور کے دین میں داخل ہو سکتے تھے ؟ داخل اگر ہوبھی گئے تھے تو حضور نے انکو دوبارہ انکی اپنی قوم میں کیوں بھیجا( چور کو تو اپنے بھانڈے کی بڑی فکر رہتی ہے۔ ابو نجمہ)پھر اگر وہ چلے بھی گئے تو قوم کو انکو تیر کا زخم پہنچانے کی کیا ضرورت تھی وہ یہ کہہ کر باتوں کا زخم بھی تو پہنچا سکتے تھے کہ تم جس رسول کے دین کی جانب ہمیں بلا رہے ہو ذرا اسکی خبر تو لو۔وہ تو چور ہے اس نے ہمارے شاعر کے اشعار چرائے ہیں،اور انکو قرآن بتاکر کہتا پھر تاہے کہ یہ آسمان سے بطور وحی کے میرے پاس آیا ہے ۔کیا قبیلہ ثقیف نے یہ سنہرا موقعہ اپنے ہاتھ سے گنوا نہیں دیا ؟
ششم: قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والوں میں ایک شاعر صاحب ابو محجن بھی ہیں جو شراب کے عادی تھے ۔کئی مرتبہ ان پہ اس سلسلہ حد بھی جاری ہوئی ۔ حضرت عمر نے انکو جلا وطن بھی کیا تھا یہانتک کہ جنگ قادسیہ ہوئی جس میں ان کا واقعہ بڑا مشہور ہے کہ دوران جنگ انہوں نے شراب پی تھی ،اس جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاس کے پاس حد جاری کرنے کی فرصت نہیں تھی تو فرصت تک انہوں نے ابو محجن کو قید میں ڈال دیا تھا۔ دوران جنگ وہ سپہ سالار کی اہلیہ سے بیڑی کھولنے کو لے کر اصرار کرتے ہیں تاکہ وہ بھی جہاد میں شریک ہوسکیں ۔جب انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد میں بھاگوں گا نہیں بلکہ واپس آکر اپنے پاؤں میں خود بیڑیاں ڈال لوں گا تو اہلیہ نے بیڑیاں کھول دیں ۔چنانچہ انہوں نے جنگ میں شرکت کی اور حق ادا کر دیا ۔ جنگ کے بعد واپس آکر وعدہ کے مطابق انہوں نے اپنے آپ کو قید میں ڈال دیا ۔ انکی حسن کارکردگی سے خوش ہوکر سپہ سالار سعد بن ابی وقاص نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان پر کبھی حد جاری نہیں کریں گےجس کے جواب میں ابو محجن نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ کبھی شراب نہیں پئیں گے اور یہ بھی کہا کہ میں شراب اس سے پہلے چھوڑ سکتا تھا مگر اس وقت لوگ یہ کہتے کہ میں نے سزا کے ڈر سے شراب چھوڑی مگر اب کوئی یہ بات نہیں کہے گا ۔ دین اسلام میں شراب کی حرمت کے بغاوت کے طور پر ابو محجن کا دیوان انگور کی بیٹی کی تعریف سے بھرا پڑا ہے۔فتح مکہ کے بعد جب مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کیا تو مدافعت کرنے والوں میں سے ایک ابو محجن بھی تھے اور ان کا ایک تیر حضرت ابو بکر کے بیٹے کو لگا تھا ۔ (الزركلى/ الأعلام/ ط3/ 5/ 243، ودائرة المعارف الإسلامية/ الترجمة العربية/ 2/ 597- 598، وديوان الشاعر، وبهجة عبد الغفور الحديثى/ أمية بن أبى الصلت/ 42- 43).
سوال یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ نے ان کے قبیلہ کے ایک شاعر کے اشعار چرائے ہوتے تو ابو محجن جیسے شاعرنے اس بارے میں کچھ گفتگو کیوں نہیں کی؟
ہفتم : قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والوں میں ایک صاحب حجاج بن یوسف بھی ہے جو اپنے باپ کی طرح شروع سے ہی قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا۔مال کیلئے نہیں بلکہ اللہ کا ثواب حاصل کرنے کیلئے۔ پھر یہ بنو امیہ کے بڑے گورنروں میں سے ایک بڑا گورنر بنا۔ اسی نے قرآن پر اعراب وغیرہ لگوائے ۔ اپنی قساوت قلبی کے باوجود قرآن کی پابندی سے تلاوت کیا کرتا تھا ۔لوگوں کی قرآن حفظ کرنے پہ ہر طرح سے حوصلہ افزائی کیا کرتا تھا اور حفاظ قرآن کو اپنے قریب رکھتا تھا ۔ (أحمد صدقى العَمَد/ الحجاج بن يوسف الثقفى- حياته وآراؤه السياسية/ دار الثقافة/ بيروت/ 1975م/ 86- 87، 96، 474، 477- 478، وهزاع بن عيد الشّمّرى/ الحجاج بن يوسف الثقفى- وجهحضارى فى تاريخ الإسلام/ دار أمية/ الرياض/ 44).
سوال یہ ہے کہ کہ وہ کیا چیز تھی جس نے حجاج بن یوسف کو اسلام کا اور قرآن کا اتنا پر جوش حامی بنا رکھا تھا؟ اگر اس کو ذرا سا بھی شک ہوتا تو وہ قرآن کے مصادر مآخذ کی کھوج ضرورلگاتا، خاص طور سے اس وقت جب قرآن کا مصدر اورسورس اس کے قبیلہ کے ایک فرد کو بتایا جارہا ہو، اس کے قبیلہ کےایک فرد کونہیں بلکہ اس کے خاندان کے ایک فرد کو( امیہ حجاج کی چوتھی پشت کی نانی کی خالہ کا بیٹا ہے۔ حجاج کا نسب دیکھئے۔ وجه حضارى فى تاريخ الإسلام” لهزاع بن عيد الشّمّرى/ 15).)
کوئی یہاں یہ گمان نہ کرے کہ امور سیاست میں مشغول ہونے کی وجہ سے حجاج امیہ کے اشعار سے سروکار نہ رکھتا ہوگا ۔کیونکہ حجاج سے یہ قول مروی ہے کہ:
ذہب قوم یعرفون شعر امیہ :امیہ کے اشعار جاننے والے اٹھ گئے
(د. جواد على/ المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام/ 6/ 483 )
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ قرآن سے مشابہت رکھنے والے مذکورہ اشعار ہم تک تو پہنچ گئے جبکہ وہ شخص جو شاعر سے خون کا رشتہ رکھتا ہے اس کو ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے
ہشتم :سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امیہ کی بہن فارعہ اور ان کے بیٹے قاسم ،امیہ، ربیعہ، اور وہب اپنے قبیلہ کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔ان میں سے قاسم،امیہ اور ربیعہ شاعری کیا کرتے تھے لیکن ان میں سے کسی سے اور نہ ان کے علاوہ ان لوگوں میں سے کسی سےجو امیہ بن ابی الصلت سے نسبی تعلق رکھتے ہیں ،کوئی ایسی بات مروی نہیں ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہو کہ حضور نے شاعر مذکور سے کسی بھی طرح کا استفادہ کیا ہے۔ کیا ان حضرات کا اسلام کے سامنے سر نگوں ہونا بذات خود اپنے باپ کی تکذیب اور حضور سے وابستگی کی دلیل نہیں ہے؟
(مصنف نے اس کا حوالہ کوئی نی دیا احباب غور فرمائیں ۔سعید)۔

نہم : حضور ﷺ کی وفات کے بعد بہت سے قبائل مرتد ہوئے تھے۔اور ہر قبیلہ کے پاس اپنے ارتداد پر لنگڑےاعذار تھے جن کے ذریعہ سے انہوں نے اپنے ارتداد کو جواز کی شکل دینے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ مرتد ہونے والے قبیلوں میں سے کسی قبیلہ نے مشابہت والے موضوع کو چھیڑا ہو،بلکہ قبیلہ ثقیف نے بھی ارتداد کا ارادہ کیا تھا اگر عمرو بن العاص نے انکو اس گھٹیا کام پر نفرت نہ دلائی ہوتی تو ان میں سے کوئی ہدایت کی طرف نہ لوٹتا لیکن وہ نہ صرف لوٹے بلکہ ان میں سے اکثر نے پورے اخلاص کے ساتھ مرتدین سے جنگ کی۔سوال یہ ہے کہ قبیلہ ثقیف نے ارتداد کے اردہ کے وقت اور عمرو بن العاص کے سمجھانے کے وقت چوری والی بات کو بہانہ کیوں نہیں بنایا جبکہ یہ بہانہ بڑا معقول تھا
دہم : ایک صاحب یوحنا دمشقی بھی ہیں جنکا تذکرہ ڈاکٹر جواد نے اپنی کتاب میں کیا ہے(“المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام”/ 6/ 493) یہ ان اولین عیسائیوں میں سے ہے جنہوں نے اسلام پر حملہ کرتے ہوئے کتابیں لکھیں۔حکومت بنو امیہ کا زمانہ اس کا زمانہ ہے ۔ اگر قرآن کو اشعار امیہ سے ذرا بھی تشابہ ہوتا تو یہ متعصب پادری اور وہ لوگ جو اسلام کو بیچ چوراہے پہ ڈھادینا چاہتے ہیں اور اپنے پورے وسائل کے ساتھ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ محمد بر حق نبی نہیں تھے ایسے لوگ یہ نادر موقعہ ہاتھ سے جانے دیتے؟

اس ساری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نہ امیہ نے ،نہ اس کے بیٹوں میں سے کسی نے ،نہ اس کے رشتہ داروں نے، نہ اس کے قبیلہ نے، نہ عرب میں سے کسی نے ،عرب ہی نہیں بلکہ ان یہود و نصاری میں سے بھی کسی نے نہیں ،جنہوں نے حضور کا زمانہ پایا ہے یا حضور کے تھوڑے بعد آئے ہیں ،ان سب میں سے کسی نے بھی کسی بھی اسٹیج پہ قرآن کی اشعار امیہ سے مشابہت رکھنے والے معاملہ کو نہیں اٹھا یا۔ کیا ہمیں اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ لوگوں اور مذکورہ زمانہ کے ختم ہونے کے بعد اس معاملہ کو اٹھانے والوں کا مقصد کیا ہوگا؟
ایک احتمال بعض مستشرقین یہ بھی نکالتے ہیں کہ حضور اور امیہ دونوں نے ایک تیسرے مصدر سے چوری کی ہے۔یہ احتمال نکالنے والوں میں دیوان امیہ کا ناشر المانی مستشرق شولتس بھی ہے۔ لیکن یہ ایسا احتمال ہے جس کے پاؤں نہیں ہیں ۔ کیونکہ اس صورت میں یہ سوال ضرورہوگا کہ وہ تیسرا مشترک مصدر کہاں ہے؟ اتنے زمانے گذرنے کے باوجود اب تک ظاہر کیوں نہیں ہوا حضور اورامیہ بعد مکانی اور بعد روحانی رکھنے کے باوجود دونوں ایک مصدر تک کیسے پہنچے؟پھر سارے عرب کو چھوڑ کر صرف یہ دونوں ہی مصدر تک کیوں پہنچے؟ سارےعرب کو چھوڑ کرنہیں بلکہ ساری دنیا کو چھوڑ کر کہئے۔

تو قارئین یہ تھا اس استدلال کا جواب کہ قرآن امیہ بن ابی الصلت کی شاعری کے سامنے چغلی کھاتا نظر آتا ہے۔

13 thoughts on “کیا قرآن میں واقعی امیہ ابن ابی الصلت کا کلام موجود ہے؟؟۔ حصہ دوم”

  1. بنیاد پرست

    اللہ آپ لوگوں کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے۔
    آپ نے قرآن کے دفاع کا حق ادا کیا ہے۔ انشا اللہ قیامت والے دن قرآن آپکی شفاعت کرے گا۔
    اللہ آپ کے اخلاص کو قبول فرمائے

  2. جواب تو اچھے ہیں لیکن یہ قائل نہیں ہوسکے گا کیونکہ شیطان نے اس کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیا ہے۔
    کاش ہم اسے ذلیل ہوتا دیکھ سکیں۔

  3. یہ کام کیا ہے جواں‌مردوں‌والا
    اب یہ دعا بھی کریں کہ اللہ ان حضرت کو بھی سیدھی راہ پر آنے کی توفیق دیں

  4. اتنے صبر سے اتنی طویل بحث پڑھنے پر میں ابو نجمہ سعید صاحب کی طرف سے آپ سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو کام شغل سمجھ کر شروع کیا تھا، مجھے اندازہ نہ تھا کہ اس کو اتنی سنجیدگی سے کرنا پڑے گا۔ صرف ابو نجمہ ہی نہیں آپ کو اور مجھے کچھ اور دوستوں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہوگا جنھوں نے اس مضمون کی تیاری میں ہر طرح سے مدد کی۔ جنھوں‌ نے خام مال فراہم کیا، مناسب مقام پر تنقید بھی کی اور ہمت بھی بندھائی۔

    استاذی آپ کی اشیرواد سے کُل ڈیڑھ پاؤ خون بڑھا ہے۔ بہت بہت شکریہ۔

  5. اتنی محنت پر میں مصنف اور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں

  6. جناب منیر صاحب اور جناب ابو نجمہ صاحب۔۔۔ اللہ آپ کو آپ کی محنت اور نیت کی جزا عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔

    میری دعا ہے کہ اللہ مکی صاحب کو بھی ہدایت عطا فرمائے اور انہیں اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے بارے میں گستاخی کرنے سے باز رکھے۔۔۔

    چونکہ مکی صاحب کے بارے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کو ڈھونڈتے ہوئے وہ رستہ بھٹک گئے ہیں۔۔۔ اور عام مسلمانوں‌کے جذبات کو وہ نہایت نیچھ سمجھتے ہیں۔۔۔ اس لیے انہیں عقل و دانش سے ہی جواب دینا چاہیے۔۔۔ اور آپ کی اس تحریر کے مطالعے کے بعد، میں حد درجہ سکون محسوس کر رہا ہوں کہ بطور عام مسلمان آپ حضرات نے اپنی محنت سے مکی صاحب کی کچھ گستاخیوں کا جواب نہایت مدلل انداز میں دیا ہے۔۔۔ اب مکی صاحب سے امید کرتا ہوں کہ وہ نا صرف ان جوابات پر غور کریں گے۔۔۔ بلکہ ان کا ماننے میں بھی کچھ ہچکچاہٹ نہیں کریں گے۔۔۔ اللہ ان کو سمجھ عطا فرمائے۔۔۔

  7. محمد سعید پالن پوری

    میں ڈاکٹر صاحب کے تبصرہ پہ صاد کرتا ہوں

  8. اللہ تعالٰی آپ کو ۔ جناب محمد سعید پالن پوری‌صاحب اور ہر اس مسلمان کو جس نے اس مضمون کی تیاری میں مدد فراہم کی۔ ہر اس مسلمان کو جس نے کسی بھی طریقے سے اپنے فہم و دانش سے مکی کی بے ہودہ تحاریر پہ بے چینی محسوس کی اور اسے مسنھانے کی کوشش کی ۔ اللہ سبحان و تعالٰی انھیں جزائے خیر دے۔

    منیر بھائی اور محمد سعید پالن پوری صاحب!! آپ دونوں صاحبان نے جسقدر کوشش سے مکی کے مضمون سے مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کی ناکام کوشش کو انجام تک پہنچایا ہے یہ یقینا لائق تحسین اور سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ اور مھمد سعید پالن پوری صاب کی محنت پہ دل عش عش کر اٹھا ہے۔ خدا جزائے خیر دے۔

    مکی نے اپنی علمیت کا بھانڈا اسی پوسٹ پہ بیچ چوراہے پھوڑا ہے۔ جس پوست کا ذکر آپ نے کیا ہے ۔ وہاں خرافات لکھتے ہوئے آخر میں اس نے ، اسے سمجھانے والوں کو حریف کہتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ اس کے حریف نے (مکی کو سمجھانے والے جنہیں وہ حریف کہہ رہے ہی( امیہ بن ابی السلت کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ نیز شیخی بگھارتے ہوئے گھٹیا الفاظ میں چیلنج کرتے ہیں کہ” اب کس نے پنگا لینا”؟ اور میں یہ الفاظ پڑھ کے مسکرا دیا تھا کہ یہ شخص مشترقین کی اسلام کے خلاف بڑی محنت سے پروپگنڈہ کی گئیں باتوں سے اپنی عقل گروی رکھ کر مسلمانوں کو چیلنج کرنے پہ اترآیا ہے۔ پتہ نہیں اسے یہ کیوں وہم ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی گھاس عقل چرنے چلی گئی ہے اور جو بھی وہ انت شٹنٹ بیان کر رہا ہے اسے مکی کی دھاک پیٹھ جائے گی۔ حالانکہ میں اسے کئی مسلمان کئی ایک کتابوں کے حوالے دے سکتے تھے مگر اسے سمجھانا مقصود تھا نیچا دکھانا مقصود نہیں تھا۔ اور انکی اپنی عقل دیھوں مشترقین کے جھوٹے پروپگنڈے میں آگئے۔

    جس طرح دیہات اور گاؤں محلے کے کم علم مولوی صاحابن اپنے واعظوں میں قصہ یوسف علیۃ والسلام وغیرہ سناتے رہتے ہیں ۔جبکہ اس میں ساری باتیں قرآن کریم سے اخذ نہیں ہوتیں ۔ تو اسکا کیا مطلب بنا قڑان افضل ہے ا قصہ یوسف علیۃ والسلام ۔ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم ہی افضل ٹہرا ۔ اب کوئی ہزار بارہ سو برس بعد یہ کہے کہ پاکستانی مسلمان قرآن کریم کی وجہ سے نہیں بلکہ قصہ یوسف علیہ السلام کی وجہ سے مسلمان تھے تو کیا یہ بات لطیفہ کے زمرے میں نہیں آئے گی ۔ یا مکی جیسا کوئی شخص قرآن کریم کے ظہور اور قصہ یوسف علیۃ والسلام میں عصری فرق پہ غور کیے بغیر یہ دعواہ کر دے کہ قرآن کریم میں قصہ یوسف علیہ والسلام سے کچھ حصے شامل کئیے گئے ۔ تو اسکی عقل پہ ماتم کرنے کو ہی جی چاہتا ہے۔

    اسی طرح اس دور میں بھی شاعر لوگ قصے کہانیاں توحید کی بیان کرتے تھے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد تک کئی صدیوں سے کہے۔ اور قریب کے زمانے میں یہ سارے قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ،اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی ، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل ، ورقہ بن نَو فَل ، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی ، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی یہ سارے لوگ شامل تھے ۔

    اسی طرح اس دور کے عرب شاعر اور سوچ رکھنے والے لوگ جو صرف امیہ بن ابی الصلت ہی نہیں تھا بلکہ بلامبالغہ سینکڑوں لوگ تھے جو کسی نہ کسی صورت میں پہلے سے گزرے انبیاء علیہ السلام کے بارے جانتے تھے اور توحید پہ عقیدہ رکھتے تھے۔ ان میں شائر ببھی تھے جنہوں نے توحید کو شاعری کا موضوع بنایا ۔ جن میں ابی الصلت بھی شامل تھا ۔ مگر جب نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور اسکی خواہش کے مطابق نہ ہوا تو وہ اس دور کے اپنے روائتی عرب بغض پہ اتر آیا ۔ اور آپ صلی اللہ کی نبوت کے ماننے سے عاری رہا۔

    ظاہر ہے کہ اسکی شاعری توحیدی تھی اور احادیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بارہا سنی ۔ اور فرمایا کہ قریب تھا کہ وہ مسلمان ہوجاتا۔ اور وہ توحید پسند ہونے کے باوجود کیوں مسلمان نہ ہوا اسکی وضاحت آپ نے بخوبی کردی ہے۔ نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم کی انہی احادیث مبارکہ کی وجہ سے مشترکین نے نہائت محنت سے یہ جھوٹ گھڑا کہ قرآن میں ابی الصلت کی شاعری سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اب چون کہ احادیث ایک ریکارڈ ہیں کہ نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم امیہ ابن ابی الصلت بارے جانتے تھے تو کیوں نہ ایسا اسکنڈل گھڑا جائے جس سے کم فہم یا لاعلم مسلمان پریشان ہوجائیں ۔ اور لازمی طور پہ یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابہ اکرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کے دور کے بعد اس بارے سازش شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ کیونکہ یہ اگر نبی کریم صلی اللہ علی وسالم کے دور میں یا اصحابہ اکرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کے دور میں ہوا ہوتا تو ایک تو اسبارے روایات ملتیں اور دوسرا اس فتنے کا قلع قمہ تبھی کردیا گیا ہوتا۔

    ایک اور بات جس پہ یہ گمراہ طبقہ بہت اصرار کرتا ہے کہ قرآن کریم میں یہ بات وہ بات انجیل اور دیگر دوسری الہامی کتابوں سے نقل کی گئی ہے۔ تو ظاہر ہے وہ الہامی کتابیں تھیں جن میں ردو بدل کیا گیا اور اسلام آنے سے وہ منسوخ کر دی گئیں ۔ جبکہ وہ بھی اللہ کریم نے بیجھیں تھیں اور قرآن کریم انکی تصدیق کرتا ہے اور قرآن کریم کے انے سے وہ پہلی تمام شرعیتیں منسوخ ہوگیں اور صرف قرآن کریم کی شریعت تاقیامت باقی رہے گی۔ اب قرآن میں اللہ کریم نعوذ بااللہ کیوں غلط بیانی کریں گے اور وہ واقعات نہیں بیان کئیے جائیں گے جو قرآن کریم سے پہلے کی الہامی کتابوں میں تھیں ؟ جبکہ وہ بھی تب اللہ تعالٰی نے بیجھیں اور قرآن کریم بھی اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو قرآن کریً کے سچے ہونے پہ ایک دلیل ہے جو پرانی قوموں کا حال بیان کرتا ہے ۔ کیونکہ جو کچھ تب تک دنیا میں ہوا تھا وہ اللہ کے حکلم سے ہوا تو طاہر ہے سبھی الہامی کتابوں میں خواہ وہ دنیا سے مفقود ہوچکی ہوں مگر اس میں اکثر وہی وقعات دہرائے جائیں گے جو ہو چکے۔ اب اسے یہ کہنا کہ یہ انجیل سے یا تورات سے نقل ہے تو ایسا کہنا درست تصور نہیں کیا جائے گا۔

    ذیل میں تفہم القرآن سے ایک حاشیہ ۔ اس کے علواہ بھی بہت جگہوں پہ امیہ بن ابی اصلت اور اس دور کے دیگر شاعروں کے بارے مولانا مودودی نے مدلل روشنی ڈالی ہے۔

    سورة السجدۃ حاشیہ نمبر۵

    یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے ۔ تم خود جانتے کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے ۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے ۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے ۔
    واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے ۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے ۔اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے ۔ یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا ۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا ۔ بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے ۔
    یہاں ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں ۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہو گی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھی کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت دے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے ۔ یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں ، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئی ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ،حضرت داؤد ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے ۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین ، دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی ۔ شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ کوجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے ، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ،اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی ، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل ، ورقہ بن نَو فَل ، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی ، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا ۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیروالرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے ۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’ الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے ۔۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصرورا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں ۔اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں ، اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹائے نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔۴۶۵)

    www.tafheemulquran.net

  9. خالد حمید

    آج سے آپ حضرات میری دعاؤں‌میں شامل ہوگئے۔
    اللہ سب کو خیر کے علم سے نوازے ۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں