Skip to content

کولہو

========================================================
کلب میں اپنی دوستوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بھی وہ اپنے ہینڈ بیگ کی طرف متوجہ تھی اور جیسے ہی اس کے موبائل پہ ایک نوٹیفیکیشن آیا اُس نے جھپٹ کر ہینڈ بیگ اٹھایا۔ موبائل کو دیکھا تو اس کے باس کی طرف سے ایک میسج تھا۔ اس نے ایک بڑی ڈیل طے ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ کل وہ دفتر جلد پہنچے تاکہ کام جلد سے جلد شروع کیا جاسکے۔ اُس نے بے دلی سے موبائل ہینڈ بیگ میں پھینکا اور اپنی دوستوں کی طرف متوجہ ہوگئی۔ آج ایک سائیکاٹرسٹ کے ساتھ ایک عدد ملاقات بھی طے تھی اور جب سے سائیکاٹرسٹ نے اس کا علاج شروع کیا تھا وہ قدرے بہتر محسوس کرنے لگی تھی۔
سائیکاٹرسٹ سے ملاقات کے بعد جب وہ واپس اپنے فلیٹ پہنچی تو اس نے حسب معمول کمپیوٹر کھولا، اور خلاف معمول ایک عدد پیغام دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ یہ پیغام اُسی پاکستانی لڑکے کی جانب سے آیا تھا جو اب تاک خاموش بیٹھا تھا۔ جلدی جلدی جواب بھیجنے کے بعد اس نے جب غور کیا تو اس کو اندازہ ہوا کہ پیغام آئے کافی دیر ہو چکی تھی اور وہ شائد اب کہیں مصروف تھا۔
” شائد کسی اور لڑکی کے ساتھ گپ شپ کر رہا ہو” اُ سکے دل میں کہیں ایک درد سا اٹھا اور بلا اختیار اس نے آئینے کی طرف دیکھا۔

==========================================

اس نے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے ہوئے اپنی حالت پر غور کیا۔ گزشتہ چند دن تو گویا اس کی زندگی کے دن تھے ہی نہیں۔ اس کی اندگی کی کایا پلٹ گئی تھی، کہاں وہ دن کہ اُس کے ساتھ کوئی بات کرنا پسند نہ کرے اور کہاں یہ دن کہ وہ ایک عدد لڑکی کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا، گو کہ لڑکی اس سے عمر میں زیادہ تھی، مگر تھی تو لڑکی ہی نا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیم یافتہ تھی، بات کرنے کا سلیقہ تھا اس کے پاس اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے اجداد کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اس کے ساتھ باتیں کرنے میں وقت گرنے کا پتہ ہی نہ چلتا ، دونوں کے درمیان وقت کے فرق کو بھی وہ خاطر نہ لائے اور دن رات بات چیت چلتی رہتی۔ اس دوران لڑکی نے کافی مرتبہ اصرار کیا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتی ہے، مگر اُس کو یہ منظور نہ تھا۔ شائد دل کے کسی خانے میں یہ ڈر پوشیدہ تھا کہ یہ کوئی اپنا دوست ہی ہو سکتا ہے جو اس کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ اس کے باوجود اس نے کامیابی سے لڑکی کو ٹالے رکھا۔ مگر آج تو کچھ اور ہی ہو گیا تھا۔ لڑکی نے حسب معمول اصرار کیا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتی ہے مگر ہاں میں جواب نہ پا کر الجھ سی گئی۔ اور جلد ہی چلی گئی۔ جانے سے پہلے اس نے صرف اتنا کہا ” تو گویا تم بھی وقت گزاری کرر ہے ہو اور تم بھی مجھے چھوڑ جاؤ گے۔۔ “”

====================================================

اُس کی بے چینی کو اس کے دوستوں نے کافی تشویش سے نوٹ کیا۔ اُس نے ایک دو دن سے معمول کے کام چھوڑے ہوئے تھے، حتیٰ کہ سائیکاٹرسٹ کے پاس بھی نہیں گئی تھی۔ محفل میں ہوتے ہوئے بھی غائب دماغ رہنا، تاش کے پتے ہاتھ میں لے کر ان کو گھورتے رہنا اور بلاوجہ غصہ کرنا تو اس کی سرشت میں نہ تھا۔ اُس کی شخصیت کا یہ پہلو گو کہ نیا نہ تھا مگر خال خال ہی نظر آتا تھا۔ جب اُس کا غصہ حد سے بڑھنے لگا تو سب لوگوں نے مل کر اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ سائیکاٹرسٹ نے اسے ہسپتال میں داخل کر کے ایک عدد سکون آور دوا دی اور یوں وہ کئی دن بعد چین کی نیند سوئی۔

Pages: 1 2 3

6 thoughts on “کولہو”

  1. بہت پر تجسس ابتدا ہے، اگلی قسط کا انتظار شروع ہو گیا ہے

  2. جناب عالی، کیا آپ نے مکمل تحریر کے مطالعہ کے بعد اپنے اشتیاق کا اظہار کیا ہے؟ یہ پوری تحریر تین صفحات پر مشتمل ہے۔ تینوں صفحات کا لنک تحریر کے آخر میں دیا ہوا ہے میں نے۔

  3. بہت خوب ۔۔۔۔۔ انداز میں بہت پختگی ہے۔ اختصار سے لکھنے میں بھی مہارت نظر آرہی ہے۔ مگر موضوع؟؟؟
    اگر موضوع اور کہانی کچھ ایسی ہو کہ جس کے اختتام کے بارے میں حتمی طور پر کہنا ممکن نا ہو تو ہی زیادہ مزہ آتا ہے۔ نیم مزاحیہ اور نیم افسردہ قسم کے اختتام مختصر افسانوں کی پہچان بن چکی ہے۔ اس کے باوجود ایک نہایت عمدہ کوشش ہے اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔

    1. جناب، اختصار ضروری تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ اس کی بقیہ اقساط ہمیں اپنے آس پاس بکھری ہوئی نظر آ سکتی ہیں۔ اس کو جاری رکھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

  4. ام عروبہ

    السلام علیکم
    بہت دلچسپ سا انداز اور کہانی ہے- آغاز کی طرح انجام بھی دلچسپ ہے- ادھورا سا اور تشنہ سا- اورمیرے لئے تو اسکی آخری قسط آپ کا آخری کمنٹ ہے- یعنی کچھ to whom it may concern یا انجام حسب زائقہ، جیسا۔ ۔ ۔
    کولہو کے بیلوں کو اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کرنی چاہئے- وہ دائرے کے قیدی ہی تو رہتے ہیں-

  5. علامتی اور بیانیہ کہانی کا فیوژن لگا مجھے۔
    دلچسپ ہے۔ میری ناقص رائے میں اسے ذرا اور تفصیل سے لکھا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں