Skip to content

پاکستان کے تعلیمی ادارے، مسائل اور ممکنہ حل

میرا پاکستان نے نذر حافی صاحب کی ایک تحریر بعنوان پاکستان کے دینی مدارس کو در پیش مشکلات اور اُن کا حل شائع کی ہے۔ تحریر اپنی جگہ پر بہت اچھی ہے، اور ان کے دلائل کافی پر زور ہیں ، مگر صرف دینی مدارس پر توجہ دینے سے کچھ ایسا تاثر ابھرتا ہے کہ جیسے ملک کے موجودہ بحرانی حالات کے ذمہ دار صرف اور صرف یہی ادارے ہیں۔ میں نے اس بات کی طرف توجہ وہاں بھی دلائی اور درخواست کی کہ کچھ دیگر اداروں کے بارے میں بھی ارشاد ہوجائے۔ نذر حافی صاحب کے دلائل دو دھاری تلوار کی طرح ہیں، معمولی رد و بدل کے ساتھ انھیں کوئی اور بھی اپنے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کوشش میں‌نے بھی کی۔ کافی حد تک ان کے دلائل کی تدوین کے بعد بھی مجھے یہ کہنے میں‌عار نہیں کہ ان کی ترتیب اسی طرح ہے ۔

میرا مراسلہ یہاں سے شروع ہوتا ہے:

جدیدیت کے جنون میں مبتلا اسلامی دنیا میں عصری علوم کی تعلیم کے لئے قائم کئے گئے اداروں کو کو جو اہم حیثیت حاصل ہے وہ کسی اور ادارے کو حاصل نہیں۔کسی بھی اسلامی ملک کے عوامی حلقوںمیں عصری علوم کے بارے میں شعورجتنا زیادہ ہو مدارس کا اثر و رسوخ بھی اتنا ہی زیادہ ہوتاہے۔ان اداروں کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ بعض اوقات ایک ایسا ادارہ بیک وقت کئ ذیلی اداروں ،شعبہ جات، کمپیوٹرسنٹرزاورلائبریریوں نیزدیگر سماجی سرگرمیوں کی فعالیت کامرکزہوتاہے۔ جب ہم پاکستان جیسے اسلامی ملک میں قائم شدہ عصری علوم کے اداروں کی صورت حال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اعتراف کرناپڑتاہے کہ یہاں پر ان تعلیمی اداروں کو عوامی حلقوں میں وہ مرکزی اہمیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے۔ظاہرہے کہ جب کسی بھی مرکزی سطح کے ادارے کومرکزی اہمیت نہ ملے تو عوام پراس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے اورلوگوں میں اس کی مقبولیت کا گراف بھی نیچے آجاتا ہے۔ پھرلوگ ایسے اداروں کو معاشرے پر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور یا پھر انہیں آثار قدیمہ کی متبرک عمارتوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ جو بلڈنگ بھی عصر حاضر کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دیتی وہ خود بخود آثار قدیمہ کا حصہ بن جاتی ہے۔
نظام تعلیم سے متعلقہ افراد کو مندرجہ اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ ایسے طالب علم جو خود تو پاکستان کے کسی ایسے تعلیمی ادارے میں نہیں پڑھے لیکن بیرون ملک زیر تعلیم ہیں اور ان کا ہر روز پاکستان سے پڑھ کر آنے والے طالبعلموں سے واسطہ پڑھتاہے۔
۲۔ ایسے طالب علم جو پاکستانی اداروں سے تحصیل علم کے بعد اب بیرون ملک کے اداروں میں زیر تعلیم رہے۔
۳۔ ایسے طالب علم جو پاکستانی اداروں میں کچھ عرصے کے لئے بطور مدرّس اپنی خدمات انجام دےچکے ہیں۔
۴۔ ایسے طالب علم جو بیرون ملک زیرِ تعلیم ہیں لیکن پاکستان میں بعض اداروں کے نظام تعلیم سے بھی مربوط ہیں۔
۵۔ ایسے حضرات جو بیرونی ممالک سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستانی اداروں میں مشغول تدریس ہیں یا پھر انہوں نے اپنےتعلیمی ادارے قائم کئے ہوئے ہیں۔ ہماری جمع کردہ معلومات اور اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کو کچھ خارجی اور کچھ داخلی مسائل درپیش ہیں ۔
سب سے پہلےہم خارجی مسائل کا ذکر کرتے ہیں بعد میں داخلی مسائل اور آخر میں ان کا حل ذکر کریں گے۔
تعلیمی اداروں کو لاحق خارجی مسائل:
۱۔ حکومتی پالیسی : سب سے بڑا خارجی مسئلہ یکساں حکومتی پالیسی کی غیر موجودگی ہے۔ ایک ہی حکومت کے ہوتے ہوئے کم و بیش 4 قسم کے تعلیمی نظام اس ملک میں چل رہے ہیں۔ دینی مدارس اس کے علاوہ ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی نظام تعلیم پر حکومت کو مکمل اختیار حاصل نہیں ہے۔ اور جہاں اختیار ہے، وہاں ارباب اقتدار کو علم ہی نہیں کہ کونسی جہت اختیار کرنا ضروری ہے۔ وقتی بنیاد پر تعلیمی نظام میں تبدیلیاں لانا اور پھر انھیں لوٹانا کنفیوز ارباب اختیار کا مرغوب مشغلہ ہے۔ ایسا وزیر تعلیم جو کہ مغربی نظام تعلیم کا سند یافتہ ہے، کہاں ملے گا جسے قرآن مجید کے سپاروں کی تعداد ہی نہ آتی ہو؟ مگر یہ سب اس سرزمین میں ممکن ہے جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیتے ہیں۔ ایلوپیتھک طبی تعلیم کا تفاوت تو اپنی جگہ پر، ابھی تک فیصلہ ہی نہیں کیا جا سکا کہ طبیہ کالجز سے فارغ التحصیل اطبا کو کیا مقام دیا جائے۔ ہومیو پیتھک طریقہ علاج پر کڑی نظر نہ رکھنے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ میٹرک فیل لوگ ہومیو ڈاکٹرز کا بورڈ لگائے لوگوں کی جانوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے “عصری ” نظام تعلیم کی سب سے بری خامی جعل سازوں کے احتساب میں ناکامی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جعلی اسناد کے بل بوتے پر ہمارے حکمران اس قوم کے نیا ڈبورہے ہیں۔ عامر لیاقت حسین ہو، عبدالباسط ہو یا بابر اعوان، یہ سب حکومتی پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اتنی واشگاف خامیوں کے باوجود اگر اس نظام تعلیم کو اچھا کہا جائے تو حیرت ہی ہوگی۔

۲۔ میڈیا کا کردار : جیسا کہ پچھلے نکتے میں عرض کیا گیا، جعلی اسناد کے حامل ہمارے حکمرانوں کااحتساب بہت ضروری ہے، مگر جہاں صرف انگریزی تعلیم کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہو، اور جہاں رٹے کی بنیاد پر تین گھنٹوں میں پرچے حل کروا کر پاس یا فیل کروایا جاتا ہو، وہاں معروضی بنیادوں پر تعلیم کاخواب کیسے شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟
جعلی اسناد کے حاملین کو جب میڈیا اہمیت دے تو لوگوں کے ذہنون میں لا محالہ یہ خیال تقویت پکڑے گا کہ تعلیم وغیرہ کچھ نہیں، اصل چیز اختیاراور طاقت ہے چاہے جیسے حاصل کی جائے۔ نتیجہ معاشرے میں ایسے بگاڑ کی صورت میں نکلے گا جس کا علاج شائد کبھی ہو نہ سکے۔میڈیا کو چاہئے کہ وہ لوگوں میں یہ شعور پیدا کرے کہ وہ لوگ جو آج کل پوری قوم کےحالات کے ذمہ دار ہیں، اکثر یا تو غیر تعلیم یافتہ تھے، یا پھر پڑھے لکھے جاہل تھے۔ ملک و قوم کی سب خرابیوں کا ذمہ دار صرف ایک مخصوص قسم کے نظام تعلیم کو ٹھہرانے سے اگر مسائل حل ہو جاتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
۳۔ بعض علاقائی و مقامی با اثر شخصیات کا کردار : اپنی چوہدراہٹ کو قائم رکھنے کے لئے ایسے لوگ اکثر تعلیمی اداروں میں بگاڑ پیدا کرنے کا مؤجب بنتے ہیں۔ اور اس مقصد کے لئے یہ عناصر سیاسی جماعتوں کی بچہ تنظیمیں بنا کر ان سے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ایسی کئی مثالیں آپ اپنے گردو پیش میں دیکھ سکتے ہیں۔
۴۔ عوامی رائے عامہ حکومت، میڈیا اور کرپٹ عناصر عوام کی سادہ لوحی سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت سنی سنائی باتوں پر اپنی رائے قائم کر لیتی ہیں۔اس لئے وہ اکثر اوقات عوامی رائے عامہ کوتعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے خلاف اکسانے میں مصروف رہتے ہیں، جس سے عوام ایک تو ایسےتعلیمی اداروں کی مشکلات کے بارےیں ہمدردانہ غور و فکر نہیں کرتے اور دوسرے حکومت یا بدعنوان عناصر کے خلاف مدارس کی پشت پناہی بھی نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اکثر بد عنوان عناصر کے بارے میں خاموش رہنے میں ہی عافیت تصور کرتی ہے۔
۵۔ تعلیمی اداروں میں باہمی رابطے کا فقدان : تعلیمی اداروں کے لئے ایک بڑی مشکل باہمی رابطے کا فقدان ہے، اور اس کی بڑی واضح مثال ان کے تعلیمی نصاب اور ان کے امتحانی نظام میں فر ق سے نظر آئے گی۔ نصاب اور طریقہ تعلیم کا یہ فرق کبھی کبھی ایک ہی گلی میں کھلے دو سکولوں کے طلبا کے موازنے سے بھی ہو جائے گا اور کبھی آپ کو اے اور او لیول کے طلبا کے لئَ قائم شدہ ٹیوشن اکیڈمیوں کے باہر کھڑی گاڑیوں کی تعداد سے۔ ملک کے تقریبا تمام سکولوں کا نصاب اور طریقہ تعلیم ان سکولوں سے جدا ہے۔ مگر اے اور او لیولز کا رجحان ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔عصری تعلیم کے اداروں میں موجود اس فرق کو اگر ختم نہ کیا گیا تو ڈر ہے کہ جلد ہی ایسے جاہل کثیر مقدار میں ملیں گے جو پڑھ لکھ تو سکتے ہیں مگر ان میں کسی دوسرے نقطہ نظر کو برداشت کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔
۶۔ وزارت تعلیم کی پالیسیاں : آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ وزارت تعلیم کا کام کیا ہے۔ وزیر تعلیم کی مثال اوپر دی جاچکی۔ میری نظر سے نرسری کی کلاس کا اردو حروف تہجی کا ایک قاعدہ گزرا جس میں الف سے انجن بتایا گیا تھا۔ انجن اگرچہ انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے مگر قاعدے کے مصنفین نے تنوع اور سمارٹ بننے کے چکر میں بنیادی باتیں ہی بھلا دیں۔ ایک کتاب میں تو یہ بھی لکھا دیکھا کہ دنیا کے تمام مسلمان مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ ایسا نظام تعلیم رٹو توتوں کو جنم تو دے سکتا ہے مگر ۔۔۔ یکساں نصاب کی غیر موجودگی، اور پھر اسکے نفاذ کے اہتمام کے ناکافی ہونے سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں وہ ارباب اقتدار کی نفس پرستی کی وجہ سے نظر انداز ہو رہے ہیں۔ موجودہ بجٹ میں تو تعلیم کا حصہ اور بھی کم کر دیا گیا۔
۷۔ ٹرسٹیز کی صورتحال: کچھ جگہوں پریہ دیکھنے میں آیاہے کہ تعلیمی اداروں کو چلانے کے لئے ٹرسٹ بنائے جاتے ہیں ۔بعض اوقات یہ ٹرسٹ ایسے افرادپرمشتمل ہوتےہیں جن کا شعبہ تعلیم سے کسی طرح کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے افراد ٹرسٹ میں اپنی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں اورادارے کے پرنسپل یا منتظم کو اپنی پالیسوں کے تحت چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے ادارے کے قیام کے مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے اور اسی طرح بعض مقامات پر جان بوجھ کرمحض فنانس اکٹھاکرنے کے لئے ہر طرح کے افراد کو ٹرسٹ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ظاہر ہے اس طرح کے ٹرسٹ بنانے سے بڑی بڑی عمارتیں تو بن جاتی ہیں لیکن کو ئی علمی و فکری پیش رفت نہیں ہو پاتی۔ مثال کے طور پر نجی طبی تعلیمی ادارے۔جن میں چند ایک اداروں کے سوا باقی سب کے اساتذہ مالک ادارہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

8۔علماء سو اورنام نہاد مفکرین کاکردار بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر اپنے چہروں پر دینداری کاماسک چڑھایاہواہوتاہے۔یہ صرف اور صرف اپنے نام و نمود اور رقم بٹورنےکے چکرمیں ہوتے ہیں۔فتویِ بازی اور دین میں بدعات کو فروغ دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔اسی طرح بعض حضرات فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ٹھگوں کی طرح اپنے نام کے ساتھ “ڈاکٹر”اور”پروفیسر”لگاکربھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ مثالیں پیش کی جا چکی ہیں۔
یہاں تک تو تعلیمی اداروں کے خارجی مسائل کا ذکرتھا، آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کےتعلیمی اداروں کے داخلی مسائل کیا ہیں۔

۱۔ تعلیمی نظام کی مشکلات ان تعلیمی اداروں میں مقدمات اور علوم اصلی تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن علوم عملی پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ مقدمات سے لے کر علوم اصلی سمیت تمام طالب علموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ مثلاً جو طالبعلم،بی ایس سی کر کےمیڈیکل کالج میں داخلہ لیتا ہے اور جو ایف ایس سی پاس کر کے آتا ہے دونوں کے ہاتھ میں ایک ہی کتاب تھما دی جاتی ہے۔ کتابوں کو تبدیل کرنے، مطالب کو نئے انداز میں ڈھالنے یا نئی کتابیں لکھنے کو گویا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ان ادروں کے تعلیمی نظام میں طلاب کی ذہنی سطح کی درجہ بندی کے مطابق اُنہیں تعلیم دینے کا کوئی خاص نظام موجود نہیں۔ جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک طلاب قدیم کتابوں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور جب معاشرے میں عملی خدمت انجام دینے کے لئے قدم رکھتے ہیں تو جدید علمی تقاضوں کو نبھانے کے سلسلے میں ان کا ہاتھ خالی ہوتا ہے۔
۲۔ تربیتی نظام کا نہ ہونا ارباب علم و دانش پر واضح ہے کہ یہ ادارے فقط تعلیمی ادارے نہیں ہیں بلکہ تعلیمی و تربیتی ادارے ہیں۔ ایک تعلیمی ادارے میں تعلیمی نظام بدن کی جبکہ تربیتی نظام روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ فرض کیا کہ تعلیمی نظام کے حوالے سے ان اداروں کے پاس کسی حد تک ایک لائحہ عمل موجود ہے لیکن تربیتی حوالے سےلیکچرز کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے پھر زیادہ سے زیادہ اخلاقی دروس کا اہتمام کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ طالب علموں کی تربیت ہو رہی ہے حالانکہ تربیت فکری سے بڑھ کر عملی چیز کا نام ہے۔ مگر ہمارے ان تعلیمی اداروں کے اکثر اساتذہ کرام روز مرہ کی مشکلات کا حل ٹیوشن کو قرار دے کر اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس طلبا کے لئے تربیت کا کوئی عملی نمونہ نہیں ہوتا۔ اس عملی نمونے کی غیر موجودگی کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلبا رٹے ہوئے اسباق کو عملی زندگی کے بے رحمی کا شکار ہو کر بھول جاتے ہیں اور پھر ان میں اور جہلا میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔
۳۔ اساتذہ کے تعیّن، ترقی اور علمی رُشد کا انتظام نہ ہونا عصری علوم کی ساکھ اور فعالیت کو متاثر کرنے والی ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ عام طور پران اداروں کے پاس اساتذہ کے تعیّن، ترقی اور علمی رشد کا کوئی انتظام نہیں۔ اکثر جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کو جو مضمون آتا ہے وہ بعد میں وہی مضمون پڑھانے لگ جاتا ہے۔ ایسا شخص ممکن ہے کہ “کتاب” تو پڑھا لے لیکن چونکہ بطورِ استاد اُس کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی لہذا اُسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک استاد کو کن اخلاقی و معنوی اوصاف سے آراستہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ برس ہا برس کی محنت کے باوجود ایسے استاد کے حلقہ درس سے خود اس کی سطح کے طالب علم بھی نہیں نکلتے۔ ایسے اساتذہ کے وجود میں آنے کے باعث ایک تو دیگر طلاب کی علمی ترقی رک جاتی ہے اور دوسرے خود ایسے اساتذہ بھی علمی طور پر ترقی نہیں کر پاتے اور انہی کتابوں کو جن کی تدریس کر رہے ہوتے ہیں لگے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے تعلیمی سلسلے کوآگے جاری نہیں رکھتے حالانکہ اسلام میں علمی ارتقاء کے رُکنے کا کوئی جواز نہیں۔
۴۔ مدارس کی سماجی سرگرمیاں بعض تعلیمی اداروںمیں سماجی سرگرمیاں تو مذہبی سیاسی ٹھیکیداروں کی وجہ سے نہیں ہو پاتیں، اور بعض کی سماجی سرگرمیوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ سرگوشیوں میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔سماجی سرگرمیاں اہم ضرور ہیں لیکن سماج کی تربیت کرنے کی خاطر نہ کہ سماج پر تسلط اور دھونس جمانے کی خاطر۔ چونکہ یہ تعلیمی ادارے اور ان کے اساتذہ اور طلبا اسی معاشرے کا حصہ ہیں اس لئے یہاں بھی وہی افراط و تفریط نظر آتی ہے جو ہمارے معاشرے کی پہچان ہے۔
۵۔ طلبا کے انتخاب کے سلسلے میں مشکلات تعلیمی اداروں کے قیام کے وقت مکمل منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جس کی بناپر اکثر یہ ہوتا ہے کہ جس شعبے کے ماہرین کی زیادہ قدر ہونی چاہئے، اس شعبے کے تعیمی ادارے یا تو کم ہوتے ہیں، یا پھر دور دراز کے علاقوں میں۔
۶۔تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں کا فعال ہونا تعلیمی اداروں کی ایک داخلی مشکل یہ بھی ہے کہ ان کے طلبا اتنی زیادہ طلبا تنظیموں کے ہوتے ہوئے ایک باقاعدہ تربیت سے محروم ہیں جس سے ان کی اجتماعی،علمی اور سیاسی شخصیت میں نکھار نہیں آر اداروں میں یہ تنظیمیں ہاسٹلوں پر قبضے، مخالفین پر پوائینٹ سکورنگ اور امتحانات میں دخل اندازی کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ جس سے بسا اوقات ادارے کے نظم و ضبط پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ طلبا کی شخصیت کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ اپنی جگہ پر ناقابل تلافی ہے۔
۷۔ اساتذہ اور مدیران کی یونین کا نہ ہونا
پاکستانی تعلیمی اداروں کی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ ان کے اساتذہ اور مدیران کوئی فعال یونین نہیں اور اِن کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جس پر جمع ہوکر یہان اداروں کو درپیش مشکلات سے نکالنے کے لئے غوروفکرکرسکیں۔
۸۔ سکول بطورِ ذریعہ آمدن اکثر جگہوں پر یہ ادارے ذریعہ آمدن کے طور پر کھولے جاتے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ خود جدید تعلیم سے آشنا نہیں ہوتے وہ بھی مخیر حضرات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جدیدتعلیم کا نعرہ لگا کر مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر اِن حضرات سے جدید تعلیم کی تعریف پوچھی جائے تو اِن کے نزدیک انگریزی پڑھا جانے اور کمپیوٹر پرسی ڈی چلانے کا نام جدید تعلیم ہے۔اس طرح کے مدارس کے وجود میں آنے سے حقیقی معنوںمیںقوم کی تعلیم و تربیت کا فرض کیسے ادا ہوگا، آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

یہاں تک تو ذکر تھامسائل کا،آئیے اب ان مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔مدارس کی مشکلات کو حل کرنے کے سسلسلے میں ہماری جمع کردہ تجاویز اور مشوروں کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے:
الف۔ ایک مشترکہ تعلیمی نظام کی بنیاد کی طرف قدم اٹھایا جائے جس میں ہر نظام تعلیم کی خوبیوں کا اعتراف کیا گیا ہو اور اس کی خامیوں کی نشاندہی کر کے ان کا حل بتایا گیا ہو۔
ب۔ دینی علماء اور سیکولر دانشوروں پر مشتمل ایک ایسی ایجوکیشنل ٹیم تیارکی جائے جو نظام تعلیم کے حوالے سے پہلے سے فعال اداروں کی فعالیت و کارکردگی کا جائزہ لے کر بے لاگ رپورٹ لکھے اورپھر ان تعلیمی پروگراموں کے اجراء کے لئے منصوبہ بندی کرے جن کے اجراء کرنے میں یہ ادارے ناکام رہے ہیں۔ جن شعبوں کے ماہرین کی ملک کو اشدضرورت ہے، ان شعبوں کی ترقی و ترویج کا عمل ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے۔
ج۔ ملت کے مختلف ماہر ین اقتصادیات کو جمع کر کے تعلیمیاداروں کے لئے فنانشل سپورٹ فنڈ کاپروگرام بنایا جائے تاکہ کوئی بھی ناخواندہ نہ رہ سکے۔ اس سلسلے میں اگر تعلیمی ٹیکس کا نفاذ بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔
د۔ اساتذہ کے انتخاب اور ان کی علمی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ایک ٹھوس لائحہ عمل بنایاجائے۔ جس میں ان کو تحقیقی کام کا پابند کیا جائے۔ مگر یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوگا جب ایک استاد کل کی فکر سے آزاد ہو گا۔
ز۔ تعلیمی نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام سے ہم آہنگ تربیتی نظام بھی نصاب میں شامل کیا جائے۔
ر۔ پاکستان میں ملکی سطح پر حقیقی معنوںمیں بین الاقوامی معیار کے اداروں کی تشکیل کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے۔ س۔ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں جہاں لوگ بچوں کو ابتدائی تعلیم دلوانے سے بھی قاصر ہیں وہاں پر بھی ایسےادارے ترجیحی بنیادوں پر قائم کئے جائیں جو دینی و بنیادی تعلیم کو پہلے مرحلے میں مقدمات کی حد تک فراہم کرسکتے ہوں۔
ص۔ دینی مدارس میں دینی و دنیاوی تعلیم کی تقسیم ختم کر کے کالج اور یونیورسٹی کے درمیان ایک حسین امتزاج قائم کرنے کے لئے سنجیدہ طور پر غور و فکر کی جائے۔
ض۔ مدارس کے اندر علوم کو عملی طور پر قابل استفادہ بنانے کے لئے ریسرچ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے جو مندرجہ ذیل شعبوں پر کام کریں۔
۱۔ ترجمہ ۲۔ تصنیف ۳۔ تالیف ۴۔ تحقیق ۵۔ تبلیغ ۶۔ تقریر۷۔ تحریر ۸۔ تکلم [اردو،فارسی، عربی، انگلش]۔ ۹۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ۱۰۔تدریس ۱۱۔مدیریت ۱۲۔علوم سیاسی
واضح رہے کہ یہ فہرست اور ممکنہ حل ناکافی ہیں۔ ان سب نکات پر ایک اتفاق رائے کے بعد ہی عمل ہو سکتا ہے۔ اور یہ اتفاق رائے جتنا جلد ہو، اتنا ہی اچھا ہے۔

Ping list

8 thoughts on “پاکستان کے تعلیمی ادارے، مسائل اور ممکنہ حل”

  1. آپ کے بورے تبصرے میں تحقیق کے متعلق صرف اور صرف دو جمنلے ہیں۔ جبکہ میرے نزدیک مسلمان ممالک کے تعلیمی نظام کا مسئلہ نمبرایک ہی تحقیق کا فقدان ہے۔

    کوشش کروں گا کہ مستقبل قریب میں میں خود ہی اس موضوع پر قلم اٹھاؤں۔
    شکریہ!
    .-= عثمان´s last blog ..تکلفات =-.

  2. نذر حافی

    صرف دینی مدارس کو زیربحث لانے کی وجہ یہ تھی کہ عصر حاضرمیں استعمار اپنی پوری توجہ دینی مدارس پر مرکوز کئے ہوئے ہے اسی طرح فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں ان کے اصلی مسائل اور حقیقی دشمنوں سے آگاہ کرنا بھی ہر صاحب شعور کی ذمہ داری ہے۔بہر حال”دینی مدارس کی مشکلات اور ان کا حل”یہ موضوع بہت بڑا ہے اور ابھی اس کے بہت سارے پہلو توجہ اور غوروفکر کے طالب ہیں۔یہ ہم سب کی زمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے دینی و ملکی اداروں کی مشکلات کو حل کرنے کے حوالے سے ہر ممکنہ جدوجہدکریں۔
    آخرمیں تصحیح کرنے والے پڑھنے والے اور اپنی تجاویز و آرا ارسال کرنے والے تمام اہل درد حضرات کا شکرگزار ہوں اور خداوندعالم سے دعاگوہوں کہ وہ ہم سب کو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر دین و ملک اور عالم بشریت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

  3. السلام علیکم!عرض یہ ہے کہ دینی مدارس کو موضوع بحث بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت استعمار اپنی پوری توجہ دینی مدارس پر مرکوز کئے ہوے ہے اگر چہ فوج اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے بھی کام کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے ۔یہ ہم سب کی مشترکہ زمہ داری ہے کہ ہم سب ملکر تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر پورے عالم بشریت اور دین و وطن کی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکنہ کوشش کریں۔
    “دینی مدارس کی مشکلات اور ان کا حل”یہ موضوع بہت بڑا ہے اور اس پر ابھی کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔یہ صرف ابتدائی طور پر ایک خاکہ ہے جو صاحبان فکرونظر کی خدمت میں پیش کیا گیاہے۔
    آخر میں شکرگزار ہوں ان تمام احباب کا جنہوں نے میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو پڑھنے کے قابل سمجھا،تصیح کی اوراپنی تجاویز و آرا بھی ارسال کیں۔
    خداوندعالم ہم سب کو نیک اور ایک بننے کی توفیق عطافرمائے۔والسلام

  4. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    دراصل اصل حقیقت یہ ہے کہ جس کااعتراف سب کرتےہیں کہ حکومت بس دعوےکرتی ہےآج تک عملی طورپرکوئی بھی ایساقدم نہیں اٹھایاگیاکہ تعلیم کوعام کیاجائےبس واجبی سےپروگرام ہرحکومت نےکیئےہیں۔کیونکہ حکمران یہ بات اچھی طرح جانتاہےکہ جب عوام تعلیم یافتہ ہوگئےتوپھروہ حکمرانی کیسےکرسکتےہیں۔ آپ کی تجاویزبہت اہم ہیں لیکن حکومتی طورپراس پرکوئی بھی عمل نہیں ہونےکاان پربس اسی طرح عمل کیاجاسکتاہےکہ عوام میں سےجوکہ درددل رکھتےہیں وہ ان کی روشنی میں ایک طریقہ کاروضع کریں پھرشایداس قوم کی حالت بدل جائے۔ حالانکہ قرآن جوکہ کلام ربانی ہےاسکاپہلاقاعدہ اقراء،پڑھ سےشروع کیاگیاہےلیکن ہم لوگوں نےقرآن مجیداوراحادیث مبارک کی تعلیمات کوبھلادیا۔ہماری پستی کی وجہ بھی یہی ہے۔ اللہ تعالی ہم پراپنارحم وکرم کرےاورہمارےدلوں میں تعلیم کی اہمیت ڈال دے۔ آمین ثم آمین
    والسلام
    جاویداقبال

  5. عثمان:: مجھے امید ہے اس بارے آپ کی تحقیق سے بھرپور گزارشات پڑھنے کو ملیں‌گی۔ میں‌سدت سے آپ کے افکار کا انتظار کروں‌گا۔
    یہ کوشش میں‌نے صرف اس لئے کی کہ میں‌ آپ سب قارئین کی توجہ اس امر کی طرف مبذؤل کروانا چاہتا تھا کہ مسائل تو سب تعلیمی اداروں‌ کے ہیں، چاہے وہ مدرسے ہوں یا مروجہ سکول کالجز وغیرہ۔ پھر صرف دینی اداروں‌کو ہی اپنی تنقید کی توپوں‌کا نشانہ کیوں‌بنایا جاتا ہے؟

    حال آنکہ اس بات سے سب واقف ہیں‌کہ ایم ایم اے کی حکومت کے علاوہ پاکستان میں‌آج تک جتنے بھی حکمران آئے اور جتنوں‌نے بھی اس ملک کے عوام کے مستقبل کے ساتھ بھیانک مذاق کئے ان میں سے کوئی بھی مدرسوں‌کا فارغ ا لتحصیل نہ تھا۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے صڑف مدرسوں‌ہی کو تنقید کا نشانہ بنانا ظلم ہے۔ ہاں، اگر غیر دینی تعلیمی نظام ایک مثالی نظام ہوتا، جس میں‌یہ سب کچھ نہ ہوتا جس کی طرف میں‌نے اشارہ کیا اور اگر دینی مدارس سے فارغ‌التحصیل لوگ آرمی کے جنرل، عدلیہ کے جج، اخباروں‌کے ایڈیٹڑ، وکیل اور پارلیمنٹ کے ممبر ہوتے تو پھر یہ سب اعتراضات ٹھیک تھے۔ مولوی بے چارہ ۔۔ اچھا کھانے پینے پہ دنیا پرست کہلاتا ہے اور اور دنیا دار نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ معاشرے پہ بوجھ ہے کیونکہ یہ کچھ کما نہیں‌رہا۔

    نذر حافی صاحب:: توجہ دلانے کا شکریہ۔ میں‌آپ کی آمد پر ممنون ہوں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ میں‌آپ سے اختلاف کی جسارت بھی کروں‌گا۔ اس وقت جتنی ضرورت عام مروجہ تعلیمی اداروں‌کا قبلہ درست کرنے کی ہے، اتنی مدرسوں‌کی نہیں۔ آپ صرف تناسب سے اندازہ لگا سکتے ہیں‌کہ ملک میں ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے کتنے طلبا مدرسوں‌سے نکلتے ہیں‌اور کتنے دوسرے اداروں۔ اکثریت کو نظر انداز کر کے اقلیت پر توجہ دینا میرے خیال میں‌حماقت ہو گی۔

    پھپھے کٹنی:: عصری علوم کا مطلب ہے وہ تمام علوم جو کہ ایک سکول یا کالج میں‌پڑھائے جاتے ہیں‌اور ان کا مدرسے میں‌ پڑھانئے جانے والے مذہبی علوم سے کوئی تعلق نہیں۔
    اب تو تبصرہ کریں‌گی نا آپ؟

    ڈفر:: یہ سنڈے میگزین کا مراسلہ ہے۔ مگر میری کوئی اپروچ نہیں‌کہ چھپوا سکوں۔ کچھ لوگوں کی فرمائش پہ تو کالم بھی لکھے جاتے ہیں‌اور کچھ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔ چلیں‌جانے دیں۔ پڑھ لیا ہوتا تو زیادہ اچھا ہوتا :p

    جاوید اقبال صاحب:: جی بالکل۔ اگر حاکم وقت دلچپسی نہ لے تو عوام کو اپنی تعلیم و تربیت سے کوئی سروکار نہیں۔ عربی کا مقولہ ہے
    العوام کالانعام۔

  6. ثوبیہ بلوچ

    کسی نے توجہ نہیں کی اور بغیر پڑھے ہی تبصرے کر دیے ہیں۔اس مضمون میں دینی مدارس کو تمام مسائل کا زمہ دار قرار نہیں دیا گیا بلکہ دینی مدارس کو درپیش مشکلات بیان کی گئی ہیں اور ان کا حل بتایاگیاہے۔
    اس کہتے ہیں سوال گندم جواب چنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں