Skip to content

نومبر رین

جب میں میڈیکل کالج آیا تو بہت سے نئے قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑا۔ اس سے پہلے آرمی اور ائیر فورس کے زیر اہتمام چلنے والے مختلف سکولوں میں پڑھا تھا۔ وہاں کا ماحول کچھ اور تھا اور یہاں کا ماحول کچھ اور۔

ایک وقت میں مختلف قسم کی سوچ رکھنے والے اتنے زیادہ لوگوں کے ساتھ ایک کلاس میں بیٹھنا کچھ عجیب سا لگتا تھا، اور اس پر سر سے پاؤں تک کفن نما اوور آل میں لپٹی ہو ئی کلاس کی لڑکیاں ایک عجیب سا ماتمی ماحول بنائے رکھتی تھیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبا اسلام کے درمیان ایک مسابقت کی فضا قائم تھی، اور اس فضا میں میں کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، لہذا زیاد نور بھائی کی خواہش پر تبلیغی جماعت میں شامل ہو گیا۔۔
دو سال تبلیغی جماعت میں لگائے، عمامہ تک باندھا ، مگر جولانی ء طبیعت کے باعث چل نہ سکا۔ مذہبی پس منظر ہونے کے باعث ایک کسوٹی رکھی ہوئی تھی اپنے پاس اور اس کسوٹی پر سب کو پرکھنا شروع کیا تو مسئلہ سا بن گیا۔ کافی ایڈوینچر بھی کئے۔ میرے ایک دوست پر جب اہل تشیع نے محنت شروع کی تو اس نے مجھے بھی گھسیٹ لیا اور یوں مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ اہل تشیع کا تبلیغی لٹریچر پڑھنے کو ملا۔ بہت سے شکوک کو دور کرنے کا موقع ملا اور بہت سے گمان یقین میں تبدیل ہوئے۔

ایک دو سال بعد اہل حدیث سے ٹاکرا ہوا۔ یہاں تک کہ حافظ سعید کی اقتدا تک میں نماز پڑھ لی۔ مگر دل کو چین نہ ملا۔ واپس اپنی لائن پر۔پھر جماعت المسلمین کے کچھ مبلغین سے ٹاکرا ہوا۔ وہ اپنے ایک ایسے قریشی خلیفہ کے لئے غائبانہ بیعت مانگ رہے تھے جس نے تیراہ کی وادی میں اپنی خلافت کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور بقو ل ان مبلغین کے، اُس وقت یورپ میں لوگوں کو مسلمان کرتا پھر رہا تھا۔ میں نے جب سوال کیا کہ کیا ہم اس قابل بھی نہیں کہ جس خلیفہ یا امام کے ہاتھ ہم بیعت کر رہے ہیں، اُس کو دیکھ ہی سکیں تو مجھ سے پوچھا گیا کہ کہیں میں اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق تو نہیں رکھتا۔ اُن کے ساتھ ایک فلسطینی عالم بھی تھا جو سعودی عرب میں اپنے ساتھ ہونے والے مظالم سُنا کر نہ جانے کیا ثابت کرنےکی کوشش کر رہا تھا۔ یہ واقعہ اس لئے بھی یاد ہے کہ ہم جب اٹھے تو میں نے ان سب مہمانوں کو کہا کہ ” لکم دینکم و لی دین”۔ اوراس پر وہ کافی ناراض ہوئے کیوں کہ یہ آیت کفار کے لئے نازل ہوئی تھی۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ جب وہ ہم مقلدین کو کافر یا مشرک سمجھتے ہیں تو پھر اس آیت کے ذکر پر اتنے پریشان کیوں ہیں۔ بہر حال بات آئی گئی ہو گئی۔

میڈیکل کالج کے تقریبا تمام دوستوں سے رابطہ رہا مگر ان سب میں سب سے جذباتی اور طوفانی دوستی عامر سے رہی۔ لڑائی تک ہوئی۔ مہینوں تک ایک دوسرے سے بات نہ کی، مگر پھر ہمیشہ ایکدوسرے سے گلے ملے۔ عامر نے ہی مجھے اینگما اور گنزاینڈ روزز سے متعارف کرایا۔ وہ اور بہت کچھ بھی سنتا تھا۔، مگر مجھے گنز اینڈ روزز کے بعد سے میٹالکا ، نروانا اور اسی قبیل کا میوزک سُننے کا جو چسکا لگا، اب بھی قائم ہے۔

یہ اور بات کہ اب وقت نہیں ملتا۔ مگر کبھی کبھی دل پشوری کر لیتے ہیں۔ گنز اینڈ روزز کے گانے نومبر رین یا نومبر کی بارش کے بارے مجھے یاد ہے عامر نے کس جوش سے اس گانے کی وڈیو کے بارے میں بتایا تھا۔ بہت عرصے تک تو آڈیو سے ہی گزارہ کیا، اور وڈیو پھر یو ٹیوب کے آنے کے بعد ہی دیکھی۔

میٹالکا کی البم ری لوڈ کا گانا ڈیولز ڈانس، یونی شیطان کا رقص تو کچھ اس طرح ازبر تھا کہ میں نے دو یا تین لیکچر ہالز میں اپنی سیٹ کے سامنے والے تختے پر اس کے کچھ بول کھرچ ڈالے تھے۔ گزشتہ برس الیکشن کیمپین میں کالج جانا ہوا تو میں نے ان سطور کو کھوج نکالا۔ تصاویر بھی بنائیں اور حسب معمول ہارڈ ڈسک کے کسی گمنام فولڈر میں ڈال دیں۔ اب کون ان تصاویر کو ڈھونڈے؟؟
بہر حال آج، نروانا کا ہرٹ شیپڈ باکس سُن رہا تھا تو نومبر رین پلے لسٹ میں ا گیا۔۔ سوچا بلاگ پہ بھی شامل کر ہی دوں۔۔
httpv://www.youtube.com/watch?v=8SbUC-UaAxE

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں