Skip to content

ملالہ کا ملال

اس بات سے اب کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارا معاشرہ اب باقاعدہ طور پر پولارائز ہو چکا ہے۔ سوچ کے دو واضح قطب نمودار ہو چکے ہیں۔ اور یہ انتہائی دائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو کے قطب ہیں۔ آپ نے اگر اس معاشرے میں زندہ رہنا ہے تو منافقت ہی سہی، مگر ان دونوں میں سے ایک قطب سے چمٹنا ہوگا۔ یہ طرز فکر اپنے خلاف کسی قسم کی کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔

دائیں بازو، یا انتہائی دائیں بازو والوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ ماضی سے چمٹے رہنا پسند کرتے ہیں، ان کی سوچ ایک اٹل قسم کی سوچ ہے جس پر اسلام کا مقامی طرز معاشرت بہت حد تک اثر انداز ہے۔ اس طرز فکر کے لوگ کسی قسم کی بحث مباحثے میں شرکت نہیں کرتے، اور اگر کریں بھی تو ہر وہ خیال، مشورہ یا سوچ جو ان سے مختلف ہے، کافر کی سوچ ہے۔ ایسی سخت سوچ اچھی بھی ہوتی ہے اور بُری بھی، مگر افسوس، کہ موجوہ حالات میں یہ محض نقصان دہ ہی ثابت ہو رہی ہے۔
یہ انداز فکر کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ یہ انداز فکر اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ فرینڈلی فائر کی طرح دوستانہ تنقید کو برداشت کیا جا سکے۔ یا آپ ان کے ساتھ ہیں یا ان کے مخالف ہیں۔ اگر ان کے ساتھ ہیں تو پھر کسی قسم کا اختلاف رکھنے کی گنجائش نہیں دی جا سکتی۔ اگر دینی پڑی تو پھر جاسوس لوگ ان کی صفوں میں تفرقہ پیدا کر سکتے ہیں۔ شائد کوئی اور وجہ بھی ہو، مگر مجھے علم نہیں۔

دوسری طرف انتہائی بائیں بازو والے بھی اسی قسم کی شدت پسندی کا شکار ہیں۔ وہ تنقید کا کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں گے جس میں ان کے انداز فکر کی برتری نمایاں ہوتی نظر آتی ہو۔ یہ اور بات کہ وہ اس بات پر اصرار کر کے اس کے معاشرے پر مرتب ہونے والے نقصانات سے آگاہ نہیں۔
یہ شدت پسندی صرف ان دونوں انتہاؤں پر ہی موجود نہیں۔ ہر جگہ، ہر شعبے میں یہ تنگ نظری موجود ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کو دیکھا جائے تو عمران خان کے امن مارچ کے دوران آنے والے سیاسی بیانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون کس سے کتنا خوف زدہ ہے۔ میں عمران سے کچھ زیادہ امیدیں بھی نہیں لگائے بیٹھا، کیونکہ الیکٹو کریسی کے اس دور میں اس شخص کی اہمیت زیادہ ہے جو سیٹ جتوا سکتا ہے۔ اور یہ تحریک انصاف کی مجبوری ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے اسے تجربہ کار آزمودہ گھوڑے درکار ہوں گے۔ انقلاب کی ایسی کی تیسی۔

ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ایک قابل مذمت فعل ہے۔ اگر ملالہ کی جگہ کوئی اور طالبہ ہوتی، اور اگراس کو ٹارگٹ نہ کر کے بھی نشانہ بنایا ہوتا تو تب بھی یہ فعل قابل مذمت ہوتا۔ مگر اس کی مذمت کرنے والے ان بے گناہوں کی موت کو بھول جاتے ہیں جن کی موت کو سامنے لا کر طالبان کے نام پر دہشت گردی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اگر یہ کولیٹرل اموات نہ ہوتیں تو شائد یہ گروہ عوام میں اتنی ہمدردی نہ حاصل کر پاتا۔ آپ مانیں نہ مانیں، کسی نہ کسی سطح پر طالبان جیسے طرزفکر کے لئے ہمدردی ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ چاہے خفیہ ہو، یا اعلانیہ، یہ ہمدردی ان کے تباہی کے مشن کے لئے ایندھن کا کام کر رہی ہے۔ اپنے اِسی طرز فکر کی وجہ سے طالبان نے ملالہ کو نشانہ بنایا۔ ملالہ کو جتنی کوریج دی گئی، اس کو جس طرح سامنے لایا گیا، ایک کے بعد ایک ایوارڈ دیا گیا، اس کے بعد اُس پیاری بچی کا ایک آسان سا ٹارگٹ بننا ایک فطری نتیجہ تھا۔

مارنے والوں کے نزدیک شائد ملالہ صرف ایک طالبہ نہ تھی۔ شائد انھوں نے ملالہ کو اس لئے منتخب کیا کہ اس کو بے اندازہ توجہ دی جا رہی تھی، اور چونکہ مارنے والوں کی سوچ اور حکومت وقت کی سوچ میں بُعد المشرقین موجود ہے، لہذا بد گمانی کا پیدا ہونا فطری تھا۔ مارنے والوں نے ملالہ کو ایک سٹریٹجک ٹارگٹ کی حیثیت سے چُنا۔ ملالہ کو نشانہ بنا کر در اصل انھوں نے اس نظام کو زک پہنچانے کی کوشش کی ہے جس کے خلاف وہ ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور چونکہ ہمارا معاشرہ پولارائزیشن کا شکار ہے، ملالہ سے ہمدردی رکھنے والوں نے ایسا ردعمل ظاہر کیا کہ ملالہ کو نقصان پہنچانے والوں کو اپنا یہ بھیانک عمل جسٹیفائی کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ ملالہ کی طرح کی اور کتنی بچیاں ہوں گی جن کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کسی سی ایم ایچ پہنچایا گیا؟ دہشت گردی کے خلاف اس مبینہ پاکستانی جنگ میں اور کتنے متاثرین کو پروٹوکول دیا گیا؟ مجھے ملالہ سے ہمدردی ہے۔ میری دعا ہے اللہ اس کو اس سخت وقت سے نکالے اور اس کو صحت ِ کاملہ و عاجلہ عطا کرے، مگر اب وہ ایک علامت بن چکی ہے۔ ہماری قوم کے اس رد عمل کے بعد مجھے نہیں لگتا اُس کی جاں بخشی ہو چکی ہے۔ ملالہ بے چاری پاکستانی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی۔

نظریات کی یہ جنگ ایک فریق کے مکمل تباہ ہونے تک جاری رہے گی۔ یہ جنگ کا فطری نتیجہ ہوتا ہے۔ او رجس طرح یہ جنگ لڑی جا رہی ہے، مجھے اس کے سوا اور کوئی حل نظر نہیں آتا۔
براہِ خدا، اس جنگ میں ملالہ کی طرح کی اور پیاری سی بچیوں کو بطور ایندھن نہ جھونکیں۔

3 thoughts on “ملالہ کا ملال”

  1. بہت خوب جی۔ زبردست تحریر ہے۔ واقعی شدت دونوں اطراف ہے اور اس شدت کا سب سے زیادہ نقصان میانہ رو لوگوں کو ہے کیونکہ یہ بیچارے نہ دائیں کے رہے نہ بائیں کے۔ اس لئے اب ان درمیان والوں کو سوچنا چاہئے کہ آخر ان دونوں اطراف کی مصیبتوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

  2. امن کی آشا کے گھناؤنے شو کے لعنت زدہ کردار کب تک اصل حقائق سے پردہ نہیں اٹھائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ واقعہ امریکہ کیخلاف جہد میں مصروف افغان طالبان کو بدنام کرنے کی ایک عیارانہ چال ہےاورسوچے سمجھے منصوبے کے تحت کئے گئےاس حملے کو بنیاد یا فوری وجہ بنا کر امریکی اور نیٹو دباؤ سےمجبور وزیرستان میں آپریشن شروع کیا جائے گا اور پھرامریکی مفادات کی جنگ کے نتیجے میں حسب سابق قوم کومذید ڈرون حملے اور بم دھماکے بھگتنے ہوں گے؟امن کی آشا کے گیت گانے والےیا نیٹو سپلائی بحال کروا کر ڈالروں کی بارش میں نہانے والے کب تک امریکی سامراج کی کٹھ پتلی بن کر ناچ دکھا کرقوم کو اپنے سنگ نچائیں گے۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ آخر کب تک ہم سب بھی بے وقوف بنتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔

    فاروق درویش

    http://farooqdarwaish.com/blog/?p=932

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں