Skip to content

مرتد اجتہاد اور طفل مکتب

میں بہت دنوں بعد اس علمی مجلس میں بیٹھا تھا۔ اس علمی مجلس میں بہت سے متنازعہ اور معترضانہ قسم کے موضوعات پر بحث ہوتی ہے۔ میری شمولیت سے پہلے بھی شائد یہ سلسلہ چل رہا تھا مگر مجھے اندازہ نہ تھا۔ جب محفل کے شرکا کو اندازہ ہوا کہ میں ان باتوں کو برداشت کر سکتا ہوں تو مجھےبتدریج شامل کر لیا گیا۔

مجھے یہ اعتراف کرنے میں ہر گز عار نہیں کہ جو باتیں ہوتی ہیں، ان میں حصہ لینے کے لئے بہت زیادہ علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پڑھے لکھے لوگ جب اپنی دلیل کو ثابت کرنے کے لئے کسی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں تو ان کو علم ہوتا ہے کہ جواب میں دی گئی رد کی دلیل کس کتاب سے دی جائے گی اور پھر یہ لوگ اُس کا جواب بھی دے ڈالتے ہیں۔

بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے باقاعدہ درخواست کی کہ مجھے محفل سے جانے کی اجازت دی جائے کہ میں اُن ثقیل دلائل کو برداشت نہ کر سکتا تھا۔ بہر حال، میں نے جو ایک بات سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا مذہبی لٹریچر ، قرآن و حدیث اور معتبر کتابوں کے علاوہ، کافی حد تک ذاتی پسند و ناپسند کا شکار رہا ہے اور اب یہ موقع آ گیا ہے کہ اس لٹریچر کو پاک کیا جائے۔ میرِ محفل کو جو بات بہت پسند ہے وہ یہ کہ اہل تشیع کی علمی روایت کافی مضبوط ہے۔ ان لوگوں نے کافی زیادہ علمی کام کیا ہے اور اس کام میں اہل سنت کافی حد تک پیچھے ہیں۔ مجھے اس بات کا سیاق و سباق لکھنے کے لئے بہت کچھ لکھنا ہوگا اور مجھے ڈر ہے کہ اپنی کم علمی کی بنا پر میں شائد یہ بات احسن طریق پر بیان نہ کر سکوں۔

دوسری بات جو میں نے سیکھی ہے وہ یہ کہ اہل اسلام میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم جیسے محققین کی اشد ضرورت ہے جو تحقیق برائے تحقیق کر سکیں اور تحقیق کو اپنے تعصبات اور پسند ناپسند سے بالا تر رکھنے میں کامیاب ہو سکیں۔

یعنی ہمیں اجتہاد کی ضرورت ہے۔ مجھے علم ہے کہ کئی جگہوں پر، ،کتابوں میںِ رسالوں میں لوگوں نے اس بات پر کافی زور دیا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ میں کافی عرصے تک اس بات کا قائل تھا۔ بلکہ جب سنہ 2000-2001 کے موسم سرما میں جب میری ملاقات فرزند اقبال رح ، جبان جسٹس جاوید اقبال سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے یہ موضوع چھیڑ دیا۔ چھیڑا کیا بلکہ میں نے سوال کیا تھا۔ انھوں نے اپنا مؤقف مضبوطی سے دہرایا اور میں نے خاموشی سے سُنا۔ وجہ وہی ۔۔۔ میری کم علمی۔ میں اب سمجھتا ہوں کہ وہ درست کہتے رہے ہیں۔ ہمیں پیرا ڈائم شفٹ کی اشد ضرورت ہے۔ ہم لوگ شائد انسیکورٹی کا شکار ہیں اس لئے شائد نئے تجربات سے گھبرا رہے ہیں۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے اپنے دین اور کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے اور اللہ سے زیادہ ذمہ دار کوئی اور ہے؟؟؟

بہر حال۔۔ انھی محفلوں کے دوران مجھے ایک عدد رسالہ ملا۔ اس رسالے میں اسلام میں مرتد کی سزا پر ایک مضمون لکھا گیا تھا۔ میں نے دلچسپی سے پڑھا اور پھر تمام متعلقہ صفحات کی تصاویر لے لیں۔ وہی تصاویر آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ اس مقصد کے لئے میں نے رسالے کے دفتر فون کر کے اجازت بھی طلب کر لی تھی۔ جب میں واپس اس محفل میں کچھ عرصے بعد پہنچا تو مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں یہ مضمون بلاگ پہ نہ شائع کروں۔ وجہ، وہی خوف فساد خلق خدا۔

اس سے پہلے مجھے بی بی سی اردو پر ایک مضمون اسی موضوع پر پڑھنے کو ملا۔ گوگل کو استعمالنے پر علم ہوا کہ جاوید احمد غامدی صاحب بھی اس پر کچھ لکھ چکے ہیں اور حسب معمول ان پر فتاویٰ کی بارش ہو چکی ہے۔ گوگل کو استعمالنے پر یہ بھی علم ہوا کہ مجھ سے پہلے بہت سے لوگ اس موضوع پہ بات کرچکے ہیں۔ لہذا میں اپنی رائے نہیں دوں گا۔

میری رائے بدلنے کی وجہ شائد تحریک ختم نبوت کا ماہنامہ لولاک ہے۔ اس میں شائع ہونے والا ایک مضمون میرے لئے بہت عجیب سا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ اس کا مطالعہ کیا اور پھر اپنے بلاگ پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ وہ تحریر آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک جگہ قادیانیوں کے ہی بارے میں بات ہو رہی تھی تو اندازہ ہوا کہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ مرتد تو وہ تھے جنھوں نے ارتداد کیا اور اب ان میں سے اکثریت زندہ نہیں ہے۔ موجودہ لوگ تو صرف غیرمسلم ہیں اور ان سے اسی طرح کا سلوک کرنا چاہئے جیسا کہ دوسری غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ۔ بہر حال۔۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات ذہن میں آئی کہ اگر ان کے ساتھ دوسری غیر مسلم اقلیتوں جیسا سلوک ہونا چاہئے تو پھر عالمی مجلس ختم نبوت اور اس قبیل کی دوسری تنظیموں اور تحریکوں کا تو کوئی مقصد ہی نہیں رہ جاتا۔۔

اس سے زیادہ میں نے سوچنے کی کوشش نہیں کی۔ بات کہیں اور جا رہی تھی۔۔ کہیں قادیانیت نوازی کا فتویٰ نہ لگ جائے۔ بہر حال میں مندرجہ ذیل مضمون کے مندرجات سے کافی حد تک متفق ہوں۔ اپ بھی مطالعہ کیجئے اور اپنی رائے قائم کیجئے۔

ہاں جو بات ذہن میں تھی، اب آئی۔ یہ ماہنامہ در اصل غلام احمد پرویز کی تحریک طلوع اسلام کے زیر انتظام شائع ہوتا ہے اور فتنہ انکار حدیث میں موصوف کی خدمات کسی سے چھپی ڈھکی نہیں۔ ان کے خلاف کافی فتاویٰ موجود ہیں۔ مزید تعارف نہیں کروا سکتا۔ اورشائد یہی وجہ تھی کہ مجھے اس مضمون کو اپنے بلاگ پر لگانے سے منع کیا گیا۔ واللہ اعلم۔

[imagebrowser id=6]

1 thought on “مرتد اجتہاد اور طفل مکتب”

  1. یہ صرف آپ کی ہی مسئلہ نہیں ہے۔
    ہر وہ شخص اپنا سانس گھٹتا محسوس کرتا ہے۔
    جو غیر جانبدار ہو کر دین کے متعلق مطالعہ کرتا ہے۔
    میں اہل تشیع مسلک سے لیکر بریلوی ،دیوبندی سارے مسلک اختیار کرکے دیکھ چکا ہوں۔
    آخر کار اباجی کا مسلک یعنی اہل حدیث ہی مجبورا اختیار کیا !
    اب کچھ لکھتا بھی ہوں تو حدیث اور آیات کریمہ لکھنے سے انتہائی پر ہیز کرتا ہوں۔
    منکر حدیث کا مسئلہ انتہائی مشکل ہے ۔ کتنی حدیث کے انکار کرنے والا منکر حدیث ہو گا؟
    مزید کچھ کہنے سے پرہیز ہی کروں گا، کہ آپ مجھ زیادہ جانتے ہیں۔
    قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے میں کوئی شک نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن دوسرے مسالک بھی ۔۔۔۔۔ہیں جی۔
    عافیت اسی میں ہے کہ چھ کلمے یاد رکھے جائیں ، باقی اللہ واحد کی ذات سب سے بڑی

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں