Skip to content

قانون کی خلاف ورزی؟

اردو میں گنے چنے بلاگر ہی تو ہیں اور غالبا اردو بلاگنگ یا انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا ہے ان کی اکثریت اردو ویب پر پائی جاتی ہے۔ غالبا سب سے پہلے اردو ویب ڈاٹ آرگ نے بلاگرز کی سہولت کے لئے بلاگ ایگریگیٹر کی شکل میں اردو سیارہ بنایا جہاں تقریبا تمام اردو بلاگز دیکھے جا سکتے ہیں۔ دوسری سہولیات کی طرح، یہاں بھی روز مرہ کے کام چلانے کے لئے کچھ قوانین وضع کئے گئے۔ مندرجہ ذیل قوانین کو میں نے اس ربط سے آپ کی سہولت کے لئے یہاں نقل کیا ہے:

اپنی تحریر میں دوسروں کی دل‌آزاری نہیں کریں گے۔
لغو گفتگو، دھمکی آمیز پیغامات اور گالی گلوچ کی قطعی اجازت نہیں۔
کسی پر تنقید کرتے ہوئے ذاتی حملوں سے پرہیز کریں گے۔
اردو سیارہ تمام مذاہب، عقیدوں اور علاقوں کے لوگوں کے لئے ہے۔ آپ کوشش کریں گے کہ آپ کی تحریر سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ہر کسی کو اخلاق کے دائرے میں یہاں کسی بھی مذہب پر گفتگو کی آزادی ہے۔
نفرت اور تعصب والی تحریریں بالکل قابل قبول نہیں ہوں گی۔
کاپی‌رائٹ کے قوانین کے خلاف مواد اپنے بلاگ پر پوسٹ نہیں کریں گے۔
اردو سیارہ کی انتظامیہ کو کسی پوسٹ کو حذف کرنے یا بلاگر کو بین کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
میں اردو سیارہ کے بارے میں پڑھ چکا ہوں اور اس میں شمولیت کے اصولوں کو سمجھتا ہوں۔

ایک صاحب محمد علی مکی مسلسل ایسی دل آزار تحاریر لکھ رہے ہیں کہ جن سے راسخ العقیدہ مسلمانوں کی دل آزری ہو رہی ہے۔
پہلے تو ہم سمجھتے رہے کہ شائد موصوف دل لگی کر رہے ہیں مگر ان کے نفس کو غالبا اس سے اور ہوا ملتی رہی۔ انبیا پر تنقید اپنی جگہ، انھوں نے اللہ باری تعالی کی ذات کو بھی نہ چھوڑا۔ اب انھوں نے پھر قرآن مجید پر اپنے شکوک و شبہات کا کھلے عام اظہار کیا ہے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اردو سیارہ کو اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانا چاہئے؟

پتہ نہیں کیوں مجھے گمان ہوتا ہے کہ میری یہ درخواست صدا بہ صحرا ثابت ہوگی کہ اس قسم کے مسائل میں ذاتی انا زیادہ طاقت ور ثابت ہوتی ہے، اور شائد کچھ افراد کی ذاتی انا آڑے بھی آئے۔

اگر ان تحاریر سے بھی سیارہ کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تو یا تو ان قوانین کو ہٹا دیا جائے یا پھر صراحت سے ذکر کردیا جائے کہ اللہ باری تعالی کی ذات پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنا، قران مجید کو قصے کہانیوں کی کتاب قرار دینا اور انبیا کے قرآن میں موجود زکر کو نقل شدہ قرار دینا قابل گرفت نہیں، اور عین مسلمانی بھی ہے۔

میری دعا ہے اللہ محمد علی مکی کو ہدایت عطا کرے، ان کے دماغ میں بھرے عقل کے خناس کو نکالے اور توبہ کی توفیق عطا کرے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھائے گئے نکات کی وضاحت بھی چاہوں گا۔

کوئی ہے؟

29 thoughts on “قانون کی خلاف ورزی؟”

  1. بھای جی بلکل ٹھیک کہا آپ نے

    ایک شخص چوک میں کھڑا ہو کر نعرے لگانے لگا کہ میں ابو حنیفہؒ سے مناظرہ کروں گا لے کر آو اسے ، کسی نے کہا جانتے بھی ہو ابو حنیفہؒ کتنا بڑا عالم ہے ہار جاو گے ، کہنے لگا پتا ہے ہار جاوں گا لیکن جہاں بھی جاوں گا لوگ کہیں گے دیکھو یہ ہے وہ جس نے ابو حنیفہؒ سے مناظرہ کیا تھا ۔

  2. DuFFeR - ڈفر

    قانون اور انصاف نام کی کسی چیز کی بات کر رہے ہین آپ؟
    جب ڈرامے کا ڈراپ سین ہو جائے گا پھر سارے چاچے پھپھے جاگ جائیں گے ٹینشن مت لیں

  3. میری بھی شروع میں کوشش ہوتی تھی کہ کسی پر نام لے کر تنقید نہ کروں۔لیکن نامور بلاگر وچکارلا رستہ نکال کر اپنے مخالف پر وار کرتے رہے لیکن کسی نے انتباہ نہیں کی۔
    بحر حال سیارہ والوں کی بھی مجبوری ہے کہ وہ کس کس کی پوسٹ پڑھیں اور سب سےرائے لیں کہ اس کا کیا کیا جائے۔
    سیارہ والے کوئی مالی مفاد تو حاصل نہیں کر رہے کہ ان کے ساتھ سختی کی جائے۔بحر حال ہم سب کی شدید خواہش ہے کہ اب مکی کے بلاگ کو سیارہ سے ہٹا دیا جائے۔

  4. مسٹر مکّی جان بوجھ کر چٹکیاں لے رہے ہیں.دہریہ ہونے میں کوئی ایسی خاص برائی نہیں. اگر وہ اللہ کو نہیں مانتے تو اس میں کوئی حرج نہیں اللہ نے اس زندگی میں انکو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے. لیکن اب جو تازہ مضمون جناب نے لکھا ہے وہ تو خاصا اشتعال انگیز ہے. اور صاف ظاہر کر رہا ہے کہ بات نا ماننے کی نہیں ہے بلکہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی ہے.

  5. ضیاءالحسن خان

    ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔ اب تو ان شاءاللہ خود ہی کچھ کریں گے ۔۔۔۔ اردو سیارہ کے منتطمین میرے خیال سے تمام بلاگرز کے بلاگز کو نہیں پڑھتے ہیں

  6. یاسر :: سیارہ والے ذاتی مفاد حاصل کریں نہ کریں، بدتمیز کا بلاگ کسی قانون کے تحت ہی سیارہ سے ہٹایا گیا تھا۔تب کچھ انسانوں کی تضحیک پر فوری ایکشن لیا گیا تھا۔

    دیکھیں قرآن ، انبیا اور اللہ کی ذات کی تضحیک پہ کیا کیا جاتا ہے۔

  7. میرا نہیں‌خیال کہ سیارہ پر مکی کو بین کیا جائے گا۔
    کچھ مشہور بلاگرز ہیں جو کسی کے احسان تلے اتنے دبے ہوئے ہیں کہ وہ مکی کے خلاف بولنا شاید افورڈ نہ کرسکیں۔
    کچھ لوگ بلاگرز کے علاوہ بھی ہیں جو ان کے خلاف ایک لفظ بھی بولنا نہ چاہئں گے۔
    بہرحال اب یہ طے ہے کہ یہ صاحب مسلسل گستاخیال کرتے رہیں گے۔

  8. ڈاکتر منير عباسی صاحب ۔ السلام عليکم و رحمة اللہ
    ميں آيا تو يہ پوچھنے تھا کہ آپ کے مطالبات کا کيا بنا مگر يہاں کچھ صورتِ حال کی وضاحت کرنا پڑھ گئی ۔
    اُردو سيّارہ ۔ اُردو محفل ۔ وغيرہ ميرے بيٹے کی ملکيت ہين اور ميرے بيٹے اور اس کے چند ساتھيوں کی کاوش کا نتيجہ ہيں ميرا بيٹا شايد 2 سال سے اس طرف توجہ نہيں دے پا رہا اور کوئی اور صاحب شايد نبيل حسن نقوی صاحب اسے ديکھ رہے تھے مگر اُنہوں نے بھی عدم فرصتی کا اظہار کيا تھا ۔ آپ کے بلاگ شروع کرنے سے ايک يا دو بلاگ دينی لحاظ سے دل آزار تحارير کی وجہ سے ہٹائے چا چکے ہيں ۔ بيٹا جيسا کہ آپ نے ميری تحرير “رونق ہی رونق ” ميں پڑھا ہو گا آجکل پاکستان آيا ہوا ہے ۔ يہاں مصروفيت بہت ہے ۔ وہ کمپيوٹر کے قريب بھی نہيں جا پاتا ۔ بہتر ہو گا کہ آپ مندرجہ ذيل صفحہ پر دی گئی معلومات کے مطابق شکائت لکھ بھيجين ۔ کوئی اور صاحب بھی شکائت کرنا چاہيں تو يہی صفحہ پڑھ ليں
    http://www.urduweb.org/planet/urdu-planet.html
    آپ شايد سوچين کہ مين شکائت کيوں نہين کرتا ۔ مين اس کے حق ميں نہيں ہوں ۔ ميرا طريقہ يہ ہے کہ ايک دو بار ايسی تحارير لکھنے والے کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اگر نہ سمجھے تو پھر اس کی خرافات پڑھنا بند کر ديتا ہوں ۔ پھر اگر ہو سکے تو حقيقت کا اظہار اپنی تحرير ميں کرتا ہون

  9. یہ خواہش تو پوری نہیں ہوسکتی کہ سیارہ سے مکی کا بلاگ غائب ہو جائے ۔۔۔۔ اس کی وجہ ہے جو میں لکھ نہیں رہی ۔۔

  10. ہم بھی عجیب سے ہیں۔فیس بک وغیرہ پر کوئی غیر مسلم ایسی باتیں کرے تو ہم توہین کا کہہ کر اس ویب سائٹ کو بند کرانے سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ جبکہ یہاں لکھنے والا، پڑھنے والے اور ایگریگیٹر والے سبھی مسلمان ہیں لیکن ہم پھر بھی حیران ہیں کہ کیا کیا جا سکتا ہے۔انسانوں کی تضحیک پر تو بلاگ ڈی لسٹ کیے جا سکتے ہیں لیکن اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسل کی تضحیک پر بس بات چیت ہی کی جا سکتی ہے۔

    بہر حال میں نے تو آخر کار مکی کے بلاگ کا لنک اپنی بلاگ رول سے ہٹا دیا ہے کہ کم از کم اتنا تو کیا ہی جا سکتا تھا۔

  11. منیر بھائی!۔

    دنیا بھر میں ایک قانون مانا جاتا ہے کہ اکثریت کو درست مانا جائے۔ جس بات، قانون، سیاسی پارٹی، پابندی یا اجازت پہ اکثریت فیسٌہ دے دے اسے بے چون چرا تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اسے درست تسلیم کرنے ہی بنتی ہے۔

    جہاں تک مکی کے بلاگ کا زکر ہے۔
    خواہ وہ بھٹکے ہوئے ہیں۔
    کسی سازش کا شکار ہیں۔
    مزہب سے بیزار ہیں۔
    کسی مخصوص نطریے یا فرقے فتنے کے لئیے اسلام، اسلامی تعلمات ، اسلامی روایات کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔
    عالم اسلام کے مقابلے میں اپنی عقل مندی کے گھمنڈ میں مبتلاء ہوچکے ہیں۔
    یا
    سستی شہرت چاہتے ہیں کہ کیا ہوا؟ کیا نام نہ ہوگا گر بدنام ہوئے ؟
    دیگر کئی ایک وجوہات گنوائی جاسکتی ہیں۔ تو ایسی صورت میں ایک بات سو فیصد درست ہے کہ موصوف اقلیت میں ہیں اور اکثریت کے انتہائی جذباتی دینی معاملات و جذبات سے دھڑلے سے ٹھٹھہ مخول کر رہے۔ مسلمانوں کا تمسخر اڑا رہے۔ مذاق اڑا رہے ہیں ۔

    اسلام سے حد درجہ بغض رکھنے والے متشرکین کی اسلام مخالف پالیسیز کی طرز پہ ، بغیر کوئی مقصد وضع کئیے محض الفاظ کو آگے پیچھے کر کے عام مسلمان کے عقائد پہ حملہ انتہائی شرمناک صورتحال ہے۔جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

    جہمور کے تقاضوں کی مطابق موصوف اقلیت میں ہے اور اکثریت کو ان سے شکایت ہوئی ہے ۔ وہ اپنے تئیں اپنے آپ کو جسقدر مرضی بڑے عالم فاضل اور توپ قسم کی شئے سمجھتے رہیں مگرجمہوری دستور کے مطابق انھیں اب یہ توپ بند کردینی چاہئیے۔

    میں سمجھتا ہوں کہ منتظمین کو اس بارے کوئی قدم اٹھانا چاہئیے۔

    بہت ممکن ہے کہ سیارہ کے منتظمین کو اس بارے علم نہ ہو۔اسلئیے بہتر ہوگا کہ انھیں ای میل سے آگاہ کیا جائے ۔

    ہم سب مسلمان ہیں۔ مسلمان کبھی بھی کسی کا برا نہیں سوچتا۔ اب اگر کسی کو مسلمانوں ہی سے خار ہو تو اسے روکنا، سمجھانا، اور فتنے سے روکنا سبھی مسلمانوں کا فرض ہے۔ کل کو اس بابت بھی پوچھا جاسکتا ہے ۔ تو پھر کیا منہ لیکر جائیں گے؟ اسلئیے جو سب کے بس میں ہے وہ سیارہ کی انتظامیہ کو اطلاع کرنا ہے اور اعتراض کرنے والے جن کے مکی موصوف کی اوٹ پٹانگ کی وجہ سے مذھبی جزبات مجروح ہوئے ہیں وہ یہاں اپنا نام درج کروائیں۔ میں اپنا نام دیتا ہوں کہ مکی کی مذھب پہ تحاریر سے میرے مذھبی یعنی اسلامی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ خدا مکی کو ہدایت نصیب کرے ۔

    پہلا نام 1جاوید گوندل
    ٢؟

    ٢

  12. آج اردو سیارہ کی ای میل چیک کرتے ہوئے ایک عدد رپورٹنگ ای میل پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں کم و بیش انھیں جذبات کا اظہار کیا گیا ہے جیسا کہ یہاں مراسلے اور تبصروں میں کیا گیا ہے۔

    پچھلے دنوں اردو سیارہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں اس قسم کے معاملات پر گفتگو متوقع تھی۔ بعض ناگزیر اسباب کے باعث ہم در پیش کمیونیکیشن گیپ کے لئے معذرت خواہ ہیں۔ نیز یہ کہ ان دنوں اردو سیارہ کو نئی شکل دینے پر کام جاری ہے۔ ان شاء اللہ جلدی ہے اردو سیارہ کی اناؤنسمینٹ بلاگ پر اس حوالے سے ایک مفصل تحریر شائع کی جائے گی جہاں اردو بلاگستان میں اٹھائے گئے ان سوالات پر احاطہ کیا جائے گا۔

    اردو سیارہ ورکشاپ کا ربط:

    http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33824

  13. آپ سب کا شکریہ۔

    ابن سعید:: میری مکی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں، میں نے ان کو دیکھا تک نہیں۔ مگر مجھے دُکھ اس بات سے ہوا کہ جب دو بلاگر آپس میں الجھ گئے تھے تو سیارہ کی انتظامیہ نے ان کے بلاگز کو فورا ہٹا دیا تھا۔ یہاں ایک ماہ سے زیادہ ہو چلا، اللہ تعالی، قران مجید اور انبیا کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔قرآن مجید کو اشاروں کنائیوں میں جھوٹے قصوں پر مشتمل کتاب کہا گیا، اپنے مخالفین کے ٹھٹھے اڑائے گئے، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکوک قرار دیا گیا اور انتظامیہ خاموش۔

    اگر رواداری اور جمہوریت کے نام پر اس سب کو برداشت کرنے کا بھاشن دینے کا کسی کا دل کر رہا ہے تو میں‌ پہلے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ پھر فیس بک پر کچھ ایکٹیویٹیز کے کلاف بائیکاٹ کا اعلان بھی تو غلط تھا نا؟
    کھلے عام اللہ و رسول کو گالیاں دو، ان کا مذاق اڑاؤ اور پھر بھی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر مسلمان قرار دو کیونکہ گالیاں دینے والا روشن خیال مسلمان ہے، مُلا نہیں۔

    آپ کو اس ورکشاپ میں فیصلہ کر لینا چاہئے کہ بحیثیت مسلمان اپنی آخرت سنوارنے کے لئے آپ کس قسم کےاقدامات اٹھانا چاہیں گے۔

    ایک بلاگر کھلے عام دوسروں کو کتے کا بچہ اور حرامی کہہ رہا ہے مگر شائد آزادئی اظہار اس کی اجازت دے رہی ہے۔ اگر اردو سیارہ کی انتظامیہ قوانین نافذ نہیں کر سکتی تو پھر اس پراجیکٹ کو ختم کر دینا چاہئے۔ آپ سب کی نیک نینتی اور رضاکارانہ خدمات اپنی جگہ، مگر جب آپ کام ہی نہیں کر پا رہے تو نیک نیتی خاک مدد دے گی؟

    افتخار اجمل صاحب:: میرا کام آواز بلند کرنا تھا، اس حقیقت سے میں بھی آگاہ ہوں کہ میں اپنی مرضی کسی پہ مسلط نہیں کرسکتا۔ نہ ہی کوئی اور مجھ پہ اپنی مرضی مسلط کر سکتا ہے۔ ایک محمد علی مکی کیا ، دنیا کا ہر فرد آزاد ہے، وہ جو چاہ کہے، جس چیز کو چاہے خدا مانے، چاہے وہ گوگل ہو یا کسی کے جسم کا ناقابل بیان حصہ، حساب اُس نے بالآخر اللہ ہی کو دینا ہے، مگر اس مراسلے کا سبب اردو سیارہ کی بد انتظامی بنی۔

    میں بہت عرصے سے اس بات کو محسوس کر رہا ہوں۔ اور آپ نے مراسلے میں پڑھا بھی ہوگا کہ میں نے اردو سیارہ ہی کے وضع کئے گئے قوانین کا حوالہ دے کر بات کی ہے۔ اگر یہ قوانین موجود نہ ہوتے تو میں کسی بھی صورت یہ مراسلہ شائع نہ کرتا۔

    میرا کام صرف اتنا ہے کہ میں گواہی دوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی شے عبادت کے لائق نہیں، اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

    پس نوشت: اللہ کے فضل و کرم سے ہماری جد و جہد اچھی جا رہی ہے۔ ہم اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے لئے عبوری طور پر جو سہولیات لینے میں کامیاب ہوئے ہیں، ان شاءاللہ اس سے بھی زیادہ کےحاصل ہونے کی امید ہے۔ آپ سے دعاؤں کی درخواست رہے گی۔

    باقی ساتھیوں سے معذرت کہ وقت کی کمی کے باعث آنے والے تبصروں کو ماڈریشن سے بر وقت نہ نکال سکا۔ اس لئے آپ کو علم نہ ہو سکا کون کون رضا کار بن رہا ہے اور یوں ترتیب غلط ہو گئی۔
    ماڈریشن بھی میں نے گمنام تبصروں کی وجہ سے لگائی ہوئی ہے۔ میں نہیں چاہتا کوئی شخص کسی بھی بلاگر کا ای میل پتہ یا ویب سائٹ کا نام استعمال کر کے غلط فہمیاں پیدا کرے۔

  14. میں چوتھے نمبر پہ ہوں بھئی ۔۔۔ باقی لوگ اپنا اپنا نمبر سلیکٹ کرلیں ۔۔

  15. میں بھی شامل ہوں نمبر جو مرضی رکھ لیں ۔ بقول انکل ٹام کے نمبروں میں کیا رکھا ہے ۔ امتحانوں مین تو ویسے ہم زیرو نمبر بھی لیتے رہے ہیں لیکن اگر آپ ایک پر بھی رکھ دیں‌گے تو ہمیں‌قبول ہو گا

  16. اردو سیارہ کی انتظامیہ کو محمد علی مکی کے بلاگ میں سیارہ کے قوانین کے تحت کوئی قابل گرفت بات نظر نہیں آئی لہٰذا ان کا بلاگ سیارہ سے ہتانے کی بابت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس میں کسی قسم کی جانبداری، عیال نوازی یا دوست نوازی کا جذبہ کارفرما نہیں تھا۔ اور نہ ہی کسی کے احسانات کا بار تھا۔ اردو ویب ان آلائشون سے پاک ہے اور اپنے اصولوں پر کھرا اترنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ لوگوں کی سوچ بدلنا اور اپنے موقف کی یقین دہانی کرانا ہمارے فرائض میں شامل نہیں ہے لہٰذا اردو ویب کے تئیں ہم مزید صفائی دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

    عموماً ویک اینڈ پر کچھ فرصت نکال کر سیارہ کی ای میل چیک کرتے ہیں تاکہ درخواستوں کو پروسیس کیا جا سکے۔ اسی دوران جناب محمد علی مکی صاحب کی جانب سے اپنے بلاگ کے سیارہ سے اخراج کی درخواست موصول ہوئی۔ لہٰذا ان کا بلاگ اب سیارہ کا حصہ نہیں ہے۔ مزید وضاحت کر دیں کہ وہ دوبارہ شمولیت کی درخواست دینے کے لئے اتنے ہی آزاد ہیں جتنے دیگر بلاگران۔

    کچھ احباب نے جمہوریت کا حوالہ دے کر اتنے لوگوں کے یک رائے ہونے کی بات کی ہے۔ ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ جمہوریت اور کلیک میں فرق ہوتا ہے۔ آن لائن کمیونٹیز میں ہم خیال لوگوں کا گروپ بنا کر اپنے بات منوانے کا رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بسا اوقات ایسی کوششوں کے نتیجہ میں منتظمین کو جانبدارانہ رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو ہم نہیں چاہتے۔

    اردو سیارے کے قوانین کی وضاحت اور اردو سیارہ کی حالیہ پیش رفت کے حوالے سے جلدی ہے ایک عدد مفصل پوسٹ سیارہ کے بلاگ میں شائع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    @منیر عباسی

    دو بلاگران کی آپسی تو تو میں میں سطحی نوعیت کی زبان اور گالم گلوچ تک آ پہونچتی ہے تب ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔

    کسی مذہب یا مذہبی رہنما کے بارے میں کسی شخص کا خیال اور اس کا اظہار اتنا ہی جائز ہے جتنا اس کی بات پر بھڑک کر ایک دوسرے شکص کا اس پر چڑھ دوڑنا۔ اگر کسی کو اہانت رسول پر سیارہ نے نہیں روکا تو کسی کو کسی کو عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا خدا کا بیٹا نہ مان کر ان کے بعض پیروکاروں کے خیال میں ہوئی ان کی اہانت پر بھی سیارہ نے کسی “مسلمان” کو نہیں روکا۔ کسی بت پرست کے احساسات کو مجروح کرنے، اور ہندو، کافر، مشرک ہونے کا طعنہ دینے والون کے منھ پر بھی سیارہ نے کبھی “خاموش” کا اسٹیکر نہیں لگایا۔ کیا اس سے ایک بڑی قوم کے جذبات مجروح نہیں ہوتے؟ واضح رہے کہ سیارہ کے منتظمین مسلمان ہیں پر سیارہ از خود مسلمان نہیں ہے اور نہ ہی سیارہ کا کوئی مسلک ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ سیارہ کے تمام منتظمیں خدا و رسول کی اہانت کرنے والے کے خلاف آواز بلند کرنے میں آپ کے ساتھ کندھا ملائیں پر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی سے اس کی اظہار رائے کی آزادی کا حق چھین لیں۔ سیارہ کی ہی بدولت ایک بڑی تعداد کو یہ علم ہوا کہ کسی کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ “ابے چپ” کہنے کے بجائے کہنے والی کی بات کو سنیں، سمجھیں اور اپنی بات رکھیں۔

    اردو سیارہ نے فیس بک کے بائکاٹ کے اعلان پر بھی کبھی کوئی مثبت یا منفی رائے نہیں دی۔ لہٰذا اس کا ذکر چہ معنی دارد۔

    اردو سیارہ پر روشن خیالوں اور ملاؤں سمیت کسی پر بھی اظہار رائے کی آزادی ہے۔ کیوں کہ اردو سیارہ کا مقصد اردو کی خدمت ہے نا کہ اسلام یا پاکستان کی۔ سیارہ پر مذہبی یا قومی بنیادوں پر کوئی فیصلہ نہیں لیا جاتا۔ ہاں سبھی مذاہب کے لئے روا داری کا “مشورہ” ضرور دیا جاتا ہے۔ بیہودہ زبان اور خلاف قانون مواد کی تشہیر کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ ہم اس کو اردو کی مناسب ترقی کا ذریعہ نہیں سمجھتے۔

    اردو سیارہ ورکشاپ میں سارے فیصلے ہمیں نہیں لینے تھے بالکہ وہ اردو بلاگستان کے لئے بطور ایک کھلا پلیٹ فارم قائم کیا گیا تھا جہاں سبھی کو اپنی رائے دینے کے لئے کہا گیا تھا۔ ہمیں بطور مسلمان نہیں بطور اردو سیارہ منتظم اقدامات اٹھانے تھے۔

    گوگل کی مدد سے ہم نے تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس نتیجہ پر پہونچے کہ محمد علی مکی صاحب کے بلاگ پر “حرامی” لفظ محض ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے اور وہ بھی ان الفاظ میں:

    “میری انسانیت کی شریعت میں کوئی حرامی یا ابن الزنا نہیں ہے”

    نیز یہ کہ “کتے کا بچہ” اس شکل میں ان کے بلاگ میں کہیں بھی موجود نہیں۔

    اردو سیارہ قوانین کے نفاذ کا کس حد تک اہل ہے اس کا اندازہ انتظامیہ کو بخوبی ہے۔ اور ان قوانین کا ما فی ضمیر کیا ہے اس کا بھی انتظامیہ کو علم ہے۔ ممکن ہے کہ انتظامیہ کی نظروں مین ان قوانین کا دائرہ کار اور مقصد آپ کے سمجھ سے قدرے مختلف ہو۔

    ہمیں امید ہے کہ آپ ہمارے تبصروں کو صحت مند سوچ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں گے۔

  17. محترمی ابن سعید صاحب:: مجھے اب بھی حیرانی ہے کہ انتظامیہ کو اس بلاگ میں کچھ بھی قابل گرفت نظر نہیں آیا۔

    بہر حال جو ہوا اچھا ہوا۔ میں تو صرف یہ چاہتا تھا کہ آزادئی اظہار کا یہ مچلب نہی‌لینا چاہئے کہ انسان دوسروں کے مذہبی عقائد کا ٹھٹھا اڑائے۔ اگر آزادئی اظہار والی بات مجھے سمجھانے کے لئے کہی گئی ہے تو یہی بات محمد علی مکی کو بھی کہی جا سکتی تھی۔

    میں اس پر بھی حیران ہوں کہ محمد علی مکی کے بلاگ پر نوح علیہ السلام کی عمر کے بارے میں جو بحث چھڑی، وہاں یہ کہا گیا کہ قرآن تو اسرائیلیات پو مشتمل ہے، اور رہیں احادیث تو ان کی صحت ہی مشکوک ہے۔

    کیا اس کے بعد بھی آپ کو کوئی قابل اعتراض چیز ملنی چاہئے؟ آپ کے دین کی بنیادی اساس ، کتاب اللہ پر اعتراض اس طرح اٹھائے گئے کہ اس کو پرانے قصوں پ مشتمل کتاب کہا گیا، یہ کہا گئا کہ عقل اس کو نہیں مانتی۔ کیا یہ توہین قرآن نہیں۔ مگر شائد اردو سیارہ کے تحت نہ ہو۔

    جہاں تک حرامی اور کتے کا بچہ والی بات ہے وہ میں نے محمد علی مکی کے لئے بالکل نہیں کہی تھی۔ قلم کاروان بلاگ پر اللہ والوں کی ہڑتال کے نام سے ایک مراسلہ ہے، وہاں ایک بلاگر صاحب، اہنے مخالفین کے لئے یہی الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔

    بہر حال آپ کی حیر جانبداری بعینہ وہی غیر جانبداری لگتی ہے جو محمد علی مکی اختیار کر کے اپنے تئیں قرآن کا پوست مارٹم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

    والسلام۔

  18. برادرم منیر عباسی صاحب، اگر آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہمیں “ذاتی” طور پر ان کے بلاگ میں کوئی قابل اعتراض بات نظر آئی یا نہیں، تو معاف فرمائیے گا، ہم ایسے موضوعات پر اپنی رائے محفوظ رکھنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

    رہا سوال اردو سیارہ کا، تو ہم پچھلے مراسلے میں بھی واضح کر چکے ہیں کہ اردو سیارہ مسلمان نہیں ہے، بلکہ سیارہ کسی بھی مذہب یا قوم کی جاگیر یا ترجمان نہیں ہے۔ اس لئے بات قران کے انسانی کلام ہونے کا ہو،عیسیٰ علیہ السلام کی والادت کا ہو، تثلیث کا ہو یا پھر کرشنا کی راس لیلا کا ہو، سیارہ کی نظروں میں یہ بات آخر کیوں کر قابل گرفت ہو سکتی ہے؟ بلاگران اپنے مضامین کے تئیں خود مختار ہیں۔ سیارہ محض ایک ذریعہ ہے سبھی کی بات کی ترویج کا۔ اور اس کے پیچھے محض “اردو” کی خدمت و اشاعت کا منشاء کار فرما ہے۔ اگر کوئی بلاگر اردو کا پلیٹ فارم استعمال کرکے اپنی قومیت اور مذہبی یا غیر مذہبی فکر کی اشاعت کرنا چاہے تو سیارہ اس میں دخیل نہیں ہونا چاہے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اردو سیارہ تمام بلاگران کو رواداری، تحمل اور بردباری کا مشورہ دیتا ہے نیز اعلیٰ ظرفی و معیاری گفتگو کی توقع رکھتا ہے۔

    آپ محض اتنا یقینی بنا لیں کہ آپ کے سوال کا مخاطب ہماری ذات ہے یا پھر سیارہ کی انتظامیہ؟ اگر ہماری ذات سے سوال ہے تو جواب کی توقع مت رکھیئے گا۔ اور اگر سیارہ کی انتظامیہ سے سوال ہے تو ہمارا خیال ہے کہ ہم سیر حاصل جواب تحریر کر دیا ہے۔ بشرطیکہ سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

    پچھلا تبصرہ خاصی عجلت میں تحریر کیا گیا تھا اس لئے اس میں املا کی بے شمار غلطیاں ہیں۔ اس لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔

  19. محترمی ابن سعید صاحب: مجھے آپ سے کوئی ذاتی بدلہ نہیں لینا ہے،مجھے سیارہ کی پالیسی پر تحفظات ہیں، باجود اس کے کہ میں اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ کسی کا بلاگ، کسی کی ڈائری، کسی کا مجلہ، کسی کی کاپی، کسی کا دل ، اُس کا ذہن اس کے اپنے اختیار میں ہیں، ہر ایک کی مرضی اس میں وہ چاہے کرے۔ مجھے دخل اندازی کا کوئی اختیار نہیں۔

    مگر اس کے ساتھ ساتھ میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ اگر یہ مادر پدر آزادی میرے عقائد کا مذاق اڑاتی ہے تو میں اپنے بس میں جوکچھ ہو، کروں۔ ایمان کا آخری درجہ دل میں بُرا جاننا ہے۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کو غیر محسوس طریقے سے انسانی تصنیف ثابت کیا جا رہا ہے۔ کل کلاں کو پھر تحریف کا سوال اٹھایا جائے گا۔ عقل اور سائینسی کو بنیاد بنا کر قران میں اعتراضات صرف اس لئے سامنے لائے جا رہے ہیں کہ کسی ابن رشد نامی شخص نے بھی یہ کیا تھا۔ یہ تحریک کوئی نئی چیز نہیں۔ ان لوگوں کی پمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ قرآن کو غلط ثابت کیا جائے۔ جو کہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ آپ نے بلاگرز کی آپس کی نوک جھوک پر ان کے بلاگ ہٹا دینے کی بات کی۔ کیا وہ سب آزادئی اظہیار میں نہیں آتا؃؟ کیا آزادئی اظہار صرف اسلام اور شعائر اسلام کی توہین کے لئے ہی مختص ہے؟

    میری سیارہ کے منتطمین سے ایک درخواست ہے کہ اپنی پالیسی کا نفاذ یکساں کریں۔ بس۔ اگر میرے کسی جملے سے آپ کو یوں لگا کہ میں نے ذاتی حملہ کیا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں، میرا مقصد ہر گز یہ نہ تھا۔ والسلام۔

  20. السلام عليکم
    ميں شرمندہ ہوں اور معافی چاہتا ہوں کہ ميں نے لاعلمی ميں لکھ ديا تھا کہ اُردو سيّارہ ميرے بيٹے کی ملکيت ہے ۔ يہ کبھی ميرے بيٹے کی ملکيت تھا مگر اب نہيں ہے ۔ دراصل اس سلسلہ ميں ايک سال سے زيادہ عرضہ ميں ميری بيٹے سے بات ہی نہ ہو سکی کيونکہ 28 ستمبر 2010ء سے آج تک ميں زيادہ تر عليل ہی رہا ہوں

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں