Skip to content

طالبان اور ان کی تعلیمی قابلیت

پاکستان میں متحرک طالبان اور ان کے عزائم پر بہت بحث ہو چکی ہے۔ ہر پاکستانی پریشان ہے کہ آخر اس گروہ سے نمٹنے کا کوئی مؤثر طریقہ اب تک دریافت کیوں نہیں ہو سکا۔ میں نےیہاں کچھ عرض کیا تھا ۔۔ اور اب اس کی جزوی تصدیق مندرجہ ذیل سروے سے بھی ہورہی ہے۔ یہ سروے ای میل میں ملا تھا۔ اس بارے میں بتانے سے قاصر ہوں کہ اس کا مآخذ کیا ہے۔ اگر آپ کو علم ہو تو میری تصحیح کر دیجئے ۔۔ شکریہ ۔۔
یہ سروے ایک تصویری شکل میں یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس تصویر کو اس مراسلے میں ہی شامل کر لوں مگر ناکام رہا۔۔
بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ تمام نامی گرامی طالبان رہنما یا تو مدرسہ گئے ہی نہیں یا پھر وہ کچھ عرصہ مدرسہ میں گزارنے کے بعد بھاگ نکلے۔ وجہ خواہ جو کچھ بھی ہو۔
اس سروے کے بعد اس بات کو اور بھی تقویت ملتی ہے کہ ان کا نفاذ اسلام کا مطالبہ ایک ڈرامہ تھا اور یہ کہ اس ڈرامے کا اور کوئی مقصد نہیں تھا سوائے اس کے کہ اسلام پسندوں کو بدنام کیا جائے۔

10 thoughts on “طالبان اور ان کی تعلیمی قابلیت”

  1. یہ خبر تو پاکستانی خبر رساں ادارے [URL="http://ann.com.pk/index.php"]ایشین نیوز نیٹ ورک [/URL]کی ہے۔اگر آپ تاریخ‌بتائیں تو ہوسکتا ہے میں کچھ تفصیل معلوم کرسکوں‌

  2. عنیقہ ناز

    آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ اگرچہ یہ بات کچھ لوگ نجانے کیوں تسلیم نہیں کرتے لیکن پاکستانی طالبان کا ایک بڑا حصہ ایسے ہی محروم اور احساس کمتری کےشکار لوگوں سے بنا ہوا ہے۔ انکے اس احسا س کی وجہ ہمارے انتظامی معاملات بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسے کیوں قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو وہاں کے با اثر عناصر کے حوالے کر دیا گیا۔ باقی ملک کے لئے جمہوریت کی تحریکیں چلانے والے کیوں ان افراد کے بنیادی حقوق کی تحریک چلانے سے گریز کرتے رہے۔ کیوں باقی سارے ملک سے الگ ہم نے وہاں اسلحے کی سیاست پنپنے دی۔آخر کیوں ہم نے انہیں ہر جگہ سے کاٹ کر رکھا۔ جنگ میگزین میں چھپنے والے عمران خان کے مضامین میں۔ میں نے ایک دفعہ پڑھا کہ وہ قبائلی علاقوں کے جرگہ نطام سے بڑے متائثر ہیں۔ حالانکہ وہ خود ہمیشہ مہذب کیا مہذب ترین معاشرے کے فرد بنے رہے۔ لیکن حقائق سے لاعلم اور افسانویت کے شکار لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی آسانیوں پہ سب انسانوں کا حق ہے اور جنہیں نہیں مل رہا ان کے لئے ہمیں اپنے نظام میں تبدیلی لانی چاہئیے۔ آپ مذہب کی لالی پاپ دیکر محروم شخص کو زیادہ دیر بہلا نہیں سکتے۔

  3. عنیقہ بی بی نے ٹھیک کہا …
    محرومی کے مارے ہوئے لوگوں کی اکثریت ہے…
    اگر اب بھی ہم نے اپنا نظام نہ بدلا…
    تو اگلی دفعہ کوئی فوج ان پر قابو نہیں پاسکے گی…
    ایک جملہ معترضہ …
    اسلام نفاذ کا نہیں عمل کا تقاضہ کرتاہے…

  4. منیر عباسی جی سیدھی سی بات ہے انکی گفتگو بتا رہی ہے کہ کتنا علم ہے انکے پاس ۔ جہاں تک مدرسے جانے کا سوال ہے تو مدرسے ہم سب کے سامنے ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے ۔ اور کیا ہوتا آیا ہے ۔ پھر اگر خود علم حاصل کیا ہوتا تو علم کو یوں بدنام نا کرتے ۔

  5. منیر عباسی

    جعفر، میں یہاں آپ سے اختلاف کی جسارت کروں گا. ٹھیک ہے محرومی ایک اہم نکتہ ہے. مگر آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ قیادت کا فقدان وہ اہم عنصر ہے جس نے ان جیسے لوگوں کو اختیارات سنبھالنے اور اہم فیصلے کرنے پر مجبور کیا.

    اگر اچھی قیادت ہوتی تو وہ ان جیسے لوگوں کو سامنے نہ آنے دیتی.
    اگر آپ کو یاد ہو تو قبائلی علاقوں میں بہت سے خود کش حملے جرگوں پر ہوئے تھے. جو لوگ اس سسٹم سے واقف نہیں ان کے لئے عرض کرتا چلوں کہ جرگوں میں شامل مشران یا بزرگ لوگ اکثر معمر اور تجربہ کار ہوتے ہیں، ان کا زندگی بھر کا تجربہ اور دانش ہی لوگوں کے کام آتا ہے. یہاں میں ان جرگوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں جو کم عمر بچیوں کا نکاح زبردستی بڑی عمر کے لوگوں سے کر دیتے ہیں یا ونی اور اس طرح کی دوسری ظالمانہ رسموں کی توثیق کرتے ہیں.

    جن جرگوں اور خود کش حملوں کا ذکر میں نے کیا، ان میں بہت سے دانا اور تجربہ کار لوگ مارے گئے، وہاں جب قیادت کا فقدان ہوا تو رد عمل کے طور پر ایسے عناصر سامنے آئے جن کے اقدامات نے حالات کو بگاڑا..

    ان سب لوگوں میں ایک بات مشترک ہے.. یہ سب لوگ جن کا ذکر اس سروے میں ہے، یہ سب لوگ اصلاح کا نعرہ لے کر سامنے آئے ہیں، یہ اور بات کہ اصلاح کی جگہ کچھ اور ہی ہوا ہے..

    تانیہ صاحبہ، مدارس پر تنقید اپنی جگہ مگر ایک بات ہے، آٹھ یا دس سال پڑھنے کے بعد نکلنے سے انسان میں تھوڑا بہت تو فرق نظر ہی آجاتا ہے.تعلیم انسان کا بہت کچھ سنوارتی بھی ہے، چاہے جیسی بھی ہو.
    سیاسی علماء پر تنقید اپنی جگہ پر جائز ، مگر آپ اُن سے اس قسم کی بے وقوفی کی توقع کبھی بھی نہیں عکھ سکتے جیسی کہ یہ لوگ کرتے چلے جا رہے ہیں.

  6. منیر عباسی

    اسلحے کی سیاست، … عنیقہ صاحبہ، میرا خیال ہے آپ بھی بس وہاں کے بارے میں سنی سنائی کی حد تک ہی اپنے حاصل کردہ علم پر انحصار کئے جا رہی ہیں. وہ لوگ سب کچھ کر لیں گے، مگر اسلحہ نہیں چھوڑیں گے.

    ایک استثنائی صورتحال کے بارے میں اپنے ابا جان سے سُنا ہے، والئی سوات نے سوات میں ایسا نظام قائم کیا تھا کہ پوری ایک نسل ہتھیار چلانا بھول گئی تھی.. یہ اور بات کہ والی صاحب کے سب اقدامات اچھے نہیں تھے..

    یہ بحث پھر کبھی .. یار زندہ صحبت باقی ..

  7. منیر عباسی

    اور زین مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ سروے روزنامہ مشرق پشاور یا روزنامہ جنگ راولپنڈی سے لیا گیا ہے ..

    کب؟ اس تاریخ کا تعین باقی ہے ..

  8. آپ نے جو کہا میں اس سے بالکل متفق ہوں…
    ہر علاقے کی اپنی ثقافت اور رسوم ورواج ہوتے ہیں اور کوئی بھی فیصلہ ان کو کلی طور پر نظر انداز کئے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا…
    ایک بات ہم جذبات میں یا دانستہ طور پر نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس سارے فساد کی جڑ امریکہ کی افغانستان میں آمد ہے. اس سے پہلے نہ تو خودکش حملے تھے اور نہ ہی فوج کے خلاف جنگ کی صورتحال … آج سلیم صافی نے بھی لکھا ہے کہ پشتو کی کہاوت کے مطابق جب تندور دہکتا ہے تو سب اپنی اپنی روٹیاں لگانے آ جاتے ہیں. اس ساری صورتحال کا فائدہ اب بھارت، روس، ایران، اسرائیل، امریکہ سب اٹھار ہے ہیں.
    ہمیں امریکہ کے مفادات کی عینک اتار کر اس ساری صورتحال کو اپنے ماحول اور مفادات کے تناظر میں حل کرنا پڑے گا.. ورنہ
    سو پیاز اور سو چھتر والا حال ہوگا….

  9. میں ایک طالبان کے ساتح ہمدردی رکھنےو الافرد ہوں، میں نے دین بھی مدارس سے مکمل پڑھا ہے اور دنیا بھی سکول کالج اور یونیورسٹیز سے اتنی پڑھی ہے کہ آپ میں سے شاید کوئی دوبارہ پیدا ہوکر آجائے تو نہیں پڑھ سکتا۔ ویسے یہ تو بتائیں کہ بش اور اوباما نے تو کافی پڑھا ہے اور ظلم میں روزانہ پی ایچ ڈی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں مگر؟؟؟؟ جارحیت اور تشدد سے پھر بھی باز نہیں آتے کیوں؟ آپ کی محترم فوج ہو یا محترمات سیاست سب نے خوب پڑھا ہے کرپش سے باز نہیں آتے کیوں؟ ذرا میڈیا کی یہودیانہ آنکح سے باہر بحی دیکھئے۔۔ معلوم ہوجائے گا کہ جنگ پڑھے لکھے یا ان پڑھ کی نہیں نظام کی ہے۔۔۔

  10. دیکھئے حافظ صاحب،
    بات اگر نظام کی بھی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم یافتہ قیادت زیادہ دور اچھے فیصلے کرسکتی ہے۔

    اس سب سے میرا مقصد اس طرف توجہ دلانا تھا کہ طالبان اور اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پہ جو لوگ کوشش کر رہے ہیں وہ تو باقاعدہ اس نظام سے مستفید بھی نہیں ہوئے، ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک منصفانہ نظام قائم کریں گے جس میں کسی سے ناانصافی نہیں ہوگی، عبث ہے۔

    اور یہی بات ان کے خلاف جاتی ہے۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں