Skip to content

صوبہ ہزارہ ۔۔ مشکل یا نا ممکن؟

اپریل 2010 کا مہینہ ایبٹ آباد کے لئے قیام پاکستان سے لے کر اب تک سب سے خونی ثابت ہوا۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں خیبر پختونخوانام کے خلاف ہونے والے مظاہرے پر تشدد ہو گئے، پولیس نے مظاہرین پر گولی چلائی اور 10 سے 12 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
یوں صوبہ ہزارہ کی تحریک میں ایک نئی جان پڑ گئی۔
صوبہ ہزارہ کی تحریک 1987 سے آصف ملک ایڈووکیٹ مرحوم چلا رہے تھے۔ کئی مرتبہ قید بند کی تکالیف اٹھائیں، مگر کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ سارے سیاست دان جو آج صوبہ ہزارہ کی تحریک کی قیادت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، یہیں رہتے رہے ہیں اور آصف ملک مرحوم سے واقف تھے۔ مگر ماضی میں شائد اس تحریک میں اتنی کشش نہ تھی جتنی آج ہے۔ لہٰذا مرحوم کو خود ہی جدو جہد کرنا پڑی۔ مزے کی بات میں نے کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے مرحوم کا ذکر خیر بھی نہیں سُنا۔
بہر حال، یہ تو ایک اجمالی خلاصہ تھا، اب ذرا کچھ اور نکات کی جانب بڑھتے ہیں۔
صوبہ ہزارہ کے حامیوں کی طرف سے ایک بہت زوردار قسم کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پشاور کے پختون بالخصوص اور پختون بالعموم متعصب ہوتے ہیں اور یہ لوگ جب بھی اپنے کسی کام سے صوبائی دارالحکومت گئے، انھیں ہمیشہ اس تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔
مگر گزشتہ کچھ دنوں میں میں نے دیکھا کہ ایبٹ آباد میں پشتو ٹی وی چینل “اے وی ٹی خیبر ” کی نشریات اس تحریک کے دوران بند کروا دی گئیں، پختونوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور بہت سے منچلے اپنے طور پر یہ کہتے پائے گئے کہ پٹھان اٹک پار چلے جائیں۔ اگر چہ تحریک کے قائدین نے ان باتوں میں اپنے قول و فعل سے کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی، مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ سیاسی رہنما عوامی مزاج کے مطابق اپنا مؤقف تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ لہذا اگر ان جذبات میں خدا نخواستہ شدت آ گئی تو کون جانے کل کونسا سیاسی لیڈر ایسا کوئی بیان داغ دے؟

اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ تعصب کسی قوم کی میراث نہیں ہے۔ اللہ نے یہ صفت ہر قوم کو اس کے مزاج کے مطابق مناسب مقدار میں دی ہے۔ اب اگر کوئی پختونوں پر متعصب ہونے کا الزام لگاتا ہے تو وہ پہلے اپنے گریبان میں جھانک لے۔
اس تحریک کے دوران بہت سے لوگ، اور سیاسی قائدین لوگوں کو یہ تاثر دیتے پائے گئے کہ اگر صوبہ ہزارہ بن گیا تو اس صوبہ کی ترقی میں تربیلا ڈیم سے ملنے والی بجلی کی رائلٹی ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ اس بات پر بہت سے لوگ پر جوش دکھائی دیئے مگر یہ بات شائد بہت کم لوگوں کے علم میں تھی کہ قانون کے مطابق اگر ایک ڈیم ایسے دریا پر بنایا جاتا ہے جو دو صوبوں کے درمیان سرحد کا کام دیتا ہے تو رائلٹی اس صوبے کو ملے گی جس میں ڈیم کا پاور ہاؤس قائم ہوگا۔ تربیلا ڈیم کا پاور ہاؤس ٹوپی کے علاقے میں ہے جو کہ ضلع صوابی کا حصہ ہے اور یہ علاقے خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں۔
کچھ ایسے بیانات پڑھنے سننے کو بھی ملے کہ اگر ہمیں رائلٹی نہ ملی تو ہم ڈیم اڑا دیں گے!!!!!!!۔
وکی پیڈیا پر ہزارہ ڈیویژن کے بارے میں مضمون پڑھیں تو علم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے تک ہزارہ کا علاقہ بنیادی طور پر ایبٹ آباد مانسہرہ اور ہری پور پر مشتمل تھا۔ 1901 میں جب برطانوی حکومت نے شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا تو ان علاقوں کو پنجاب سے کاٹ کر اس صوبے کے ساتھ ملا دیا گیا۔ آج کا ہزارہ ڈویژن پانچ اضلاع پر مشتمل ہے، جن میں ہری پور، ایبٹ آباد ، مانسہرہ، کوہستان اور بٹگرام کے اضلاع شامل ہیں۔
اس علاقے کا نام ہزارہ کیوں پڑا ، اس بارے میں بہت سی روایات ہیں، امپیریل گیزیٹر آف انڈیا کے مطابق اس نام کے مآخذ پر اتفاق کم ہی پایا جاتا ہے۔

وکی پیڈیا کے مطابق ہزارہ کی آبادی 2005 تک پنتالیس لاکھ کے آس پاس تھی۔ اس آبادی میں 60 فیصد لوگ ہندکو بولتے ہیں۔ مگر، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پنتالیس لاکھ آبادی تمام پانچ اضلاع کی آبادی ہے اور بٹگرام میں 70 سے 80 فیصد لوگ پشتو بولتے ہیں اور کوہستان میں کوہستانی بولی جاتی ہے جو کہ ہندکو اور پشتو دونوں سے مختلف ہے۔ مانسہرہ میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، اگر انتظامی لحاظ سے دیکھا جائے تو مانسہرہ میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں کے رہنے والے صرف پشتو پولتے ہیں اور اکثر علاقے ایسے ہیں جہاں صرف ہندکو بولی جاتی ہے۔ اس طرح اگر ان تمام اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ ہندکو بولنے والوں کی اکثریت ایبٹ آباد، گلیات، مانسہرہ اور ہری پور کے علاقوں میں مرتکز ہے۔ اور تمام ہزارہ ڈویژن میں کوئی ایک زبان ہر جگہ نہیں بولی جاتی۔
وکی پیڈیا میں ہی ایک اور مقام پر دعوٰی کیا گیا ہے کہ ہندکو بولنے والوں کی کل آبادی 22 لاکھ سے چالیس لاکھ کے درمیان ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ہندکو بولنے والے خیبر پختون خوا ( بشمول ہزارہ) ، پشاور( کے مقامی لوگ)، پنجاب اور آزاد کشمیر میں بکھرے ہوئے ہیں۔
گویا خیبر پختون خوا کی دوسری سب سے بڑی زبان ہندکو صرف تین اضلاع میں مرتکز ہے۔ اگر زبان اور ثقافت کے اختلاف کو معیار بنا کر ہزارہ صوبہ بنا لیا جائے تو پھر اباسین ڈویژن تحریک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہزارہ صوبہ تحریک کے آغاز کے بعد مانسہرہ کے پختون علاقوں، بٹگرام، شانگلہ اور دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ چونکہ ہزارہ ڈویژن کا صدر مقام ایبٹ آباد بہت دور پڑتا ہے اور پھر ایبٹ آباد والوں سے زبان کا فرق بھی ہے تو اس بنا پر اباسین ڈویژن کا قیام عمل میں لایا جائے تا کہ علاقے کے مسائل جلد حل ہو سکیں۔
حوالہ
ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
He stressed that they had a genuine demand as the people of Battagram and Kohistan were facing immense hardships in coming to Abbottabad, the divisional headquarters of Hazara, as it was located at quite far away. Besides, the difference of language is also a major barrier in communication for the Pakhtuns of upper districts in the Hindko-speaking majority of Abbottabad.

یہ ربط بھی ملاحظہ فرمائیے۔ حوالہ
آفتاب احمد شیرپاؤ کا بیان جس میں انھوں نے اباسین ڈویژن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
میرے خیال میں ہزارہ صوبہ کا مطالبہ غیر منطقی ہے۔ بلا شبہ جس طریقے سے صوبے کا نام بدلا گیا وہ بذات خود متنازع ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لے۔ ہزارہ صوبے کی حمایت کرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ وہ ایک مرتبہ ٹھنڈے دل سے اپنے دلائل پر غور کر لیں، کیونکہ ہزارہ ڈویژن کے پشتو بولنے والے اگر انھی دلائل کا استعمال کر کے اگر دوسری جانب چلے گئےا تو تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اور جس طرح سے اب وہ لوگ متحرک ہو گئے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ ہزارہ صوبہ تحریک کے ہوتے ہوئے وہ کامیاب بھی ہوجائیں گے۔

8 thoughts on “صوبہ ہزارہ ۔۔ مشکل یا نا ممکن؟”

  1. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    جب صوبےکانام تبدیل کردیاگیاہےتواب یہ تحریک کیوں شروع کی گئی جبکہ یہ توکام پہلےہوناچاہیےتھابقول آپ کےعدادوشمارکےجونام صوبہ کارکھاگیاہےتووہی درست ہےتواب قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں اور لوگ الگ سےپریشان ہے۔ بس دعاہی کرسکتےہیں کہ یااللہ ہمارےملک پررحم کر۔ آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال

  2. ڈاکٹر راشد

    اسلام علیکم منیر بھائی! بہت اچھا تبصرہ کیا ہے آپ نے اس موضوع پہ۔ معلوم نہیں ہم بحیتیت قوم کب باشعور ہوںگے؟ حد تو یہ کہ ھمارے پڑھے لکھے اور ان پڑھ طبقے کی ذہنیت میں اس قومی شعور کے بارے میں کوءی خاص فرق نہیں۔ کب تک ان سیاسی گرؤں کے ھاتھون بےوقوف بنتے رہیں گے ہم؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

  3. گو خيبر پختون خواہ نام درست نہيں اور جس طريقہ سے نام رکھا گيا وہ بھی درست نہيں تھا مگر مزيد صوبے بنانے کا کوئی قومی جواز نہيں ۔ ہماری قوم کے خود غرض رہنما غيروں کے سکنجے ميں ہيں اسی لئے لسانی اور صوبائی تعصب کو ہوا دی جاتی ہے
    .-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اعلٰی معیار =-.

  4. صاحب اس وقت لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے کا مطلب ایک ایسی روش کو فروغ دینا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں ہر بندہ اپنے الگ صوبے کا مطالبہ کربیٹھے گا اور جسطرح سرحد کا نام بدلا گیا وہ اس جانب پہلا قدم ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ ہمارے سیاستدان اصل مسائل کا ادراک اور ان کو حل کرنے کی اہلیت نہیں‌ رکھتے چناچہ وہ ایسے ثانوی مسائل بلکہ اس کو مسئلہ کہنا ہی نہیں‌چاہیے میں عوام کو الجھا کر رکھتے ہیں۔ اب دس صوبے اور بنا لیں یا ہر صوبے کا نام بدل دیں کیا توانائی کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟‌ پہلے چار صوبے لڑتے ہیں‌پھر پانچ لڑیں گے۔

  5. آپ کی تحریر بہت عمدہ اور یکطرفہ نہیں ہے –
    خیبر پتنخواہ – (معذرت کے ساتھہ مجھے تو یہ نام بولنے میں ہی بہت مشکل ہے )
    مجھے نہیں پتہ کہ صوبوں کے نام کیسے رکھے گئے ہیں پر جناب میں یہ سمجھتاہوں اور ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں – پر پنجابی کو پنجابی یا سندھی کو سندھی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ سندھ اور میں رہتے ہیں
    اب سندھ کا سندھ اس لیے نہیں کہ یہاں سندھی بستے ہیں یا پنجاب کا اس لیے نہیں کہ یہاں پنجابی ہیں
    جناب نام کوئی آسان سادہ سا رکھتے اور پھر وہاں کے رہنے والے وہی کہلاتے
    اب میں پاکستانی ہوں – اس لیے کہ میں پاکستان میرا ملک ہے – پاکستان کا نام پاکستان اس لیے نہیں ہے کہ یہاں پاکستانی رہتے ہیں
    میں صرف سمجھنے کی کوشش کر رہاہوں کہ ہمارے قابل اور تجربہ کار سیاست دانوں نے کیوں یہ نام رکھا

  6. منیر بھائی مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے جذبات کو ایک طرف رکھ یہ تحیریر لکھی۔۔۔آپ نے انتہائی اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کیاہے، اللہ تعالٰی آپ کا حامی و ناصر ہو۔

    شیپر بھائی سندھی، پنجابی اور بلوچی بلاشبہ اپنے علاقے سے نہیں پہنچانے جاتے بالکہ یہ قومیں ہیں جن کی اپنی تہذیب و راویات ہیں اور اپنی زبان ہے۔ اب یہ قومیں جن علاقوں میں رہتی ہیں وہ علاقے ان اقوام سے پہچانی جاتی ہیں جیسے پنجاب میں پنجابی بستے ہیں سندھ میں سندھی اور بلوچستان میں بلوچی۔۔۔ اسی طرح پٹھان بھی ایک قوم ہے اس کی بھی اپنی تہذیب و راویات اور اپنی زبان ہے لیکن یہ قوم جس علاقے میں رہتی ہے اس کو این ڈبلیو ایف پی کہاجاتا تھا۔۔۔بس اسی غلطی کو درست کرنے کے لیے پختونخواہ کا نام تجویز کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے پختونوں کا علاقہ۔۔۔ خیبر کا اضافہ بعد میں کیا گیا ہے۔

    اب اس پر اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ کیا پختونخواہ میں صرف پختون ہی بستے ہیں؟ تو سمجھنے والوں کے لیے اس کا یہی جواب ہے پختونخواہ کا مطلب ہے پختونوں کا علاقہ اور یہ نام نیا نہیں ہے۔۔۔جس علاقے کو اب پختونخواہ کا نام دیا گیا ہے یہ صدیوں سے پختونوں کا علاقہ تھا اور رہے گا۔۔۔اور بلاشبہ اس میں باقی اقوام بھی صدیوں سے رہتی ہیں بالکل ویسے ہی جیسے پنجاب میں صرف پنجابی نہیں رہتے لیکن علاقے کی بنثبت وہ پنجابی کہلاتے ہیں۔

    میں خود صوبہ پنجاب اور پختونخواہ کی سرحد پر واقع علاقہ چھچھ کا رہنا والا پٹھان ہوں، لیکن علاقہ چھچھ پنجاب کا حصہ ہے اور اس علاقے کے 70-80 فیصد آبادی پٹھان ہے لیکن علاقائی بنثبت سے پنجابی کہلاتی ہے۔
    .-= خورشیدآزاد´s last blog ..گل بانو =-.

  7. منیر عباسی

    جاویداقبال: السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    جب صوبےکانام تبدیل کردیاگیاہےتواب یہ تحریک کیوں شروع کی گئی جبکہ یہ توکام پہلےہوناچاہیےتھابقول آپ کےعدادوشمارکےجونام صوبہ کارکھاگیاہےتووہی درست ہےتواب قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں اور لوگ الگ سےپریشان ہے۔ بس دعاہی کرسکتےہیں کہ یااللہ ہمارےملک پررحم کر۔ آمین ثم آمینوالسلام
    جاویداقبال  

    اگر آپ نے اس موضوع پر میری گزشتہ تحاریر پڑھی ہیں تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ سب کچھ سیاسی نقطہ نظر سے کیا جا رہا ہے۔ جن لوگوں کے پیٹ ‌‌میں‌‌اب صوبہ ہزارہ کا مروڑ اٹھا ہے، یہ ہزارہ کے عوام سے ہمدردی نہیں‌‌ بلکہ مسلم لیگ نواز گروپ کا ووٹ بنک تباہ کرنے کی ایک عمدہ کوشش ہے، جس میں‌‌وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔مسلم لیگ ق کے رہنماؤں‌‌نے گجرات میں‌‌انتخابی شکست کا بہت عمدہ انتقام لیا ہے۔

  8. راشد::::‌‌ تشریف آوری کا بہت شکریہ۔ جس طرح آپ نے لگن سے تیس منٹ میں‌‌تین سطور میں‌‌تبصرہ کیا ہے، میرے لئے صرف یہ کاوش ہی قابل فخر ہے۔

    افتخار اجمل صاحب:::::: حیرانی کی بات یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا میں‌‌سب کے سب ہزارہ صوبہ کے ھق میں‌‌بولے جا رہے ہیں، اس کے مضمرات کو گویا سب نے نظر انداز کر دیا ہے۔

    راشد کامران::::::‌‌لسانی یا علاقائی سیاست ہی تو آج کل ووٹ دلاتی ہے۔ حقیقی مسائل کے حل پہ کون کافر توجہ دیتا ہے۔

    شبیر::::‌‌معاف کیجئے ، میں سمجھ نہیں‌‌پایا کہ آپ نے میری تحریر کو سراہا ہے ہا تنقید کی ہے؟

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں