Skip to content

شیر آیا ، شیر آیا

کہا جاتا ہے کہ بھلے وقتوں میں جب جھوٹ بولنا اتنا عام نہیں ہوا تھا، ایک شخص کو مذاق کی سوجھی۔ وہ جب لکڑیاں کاٹنے جنگل گیا تو ایک درخت پر بیٹھے بیٹھے اس نے شیر آیا شیر آیا کا واویلا کرنا شروع کر دیا۔

سادہ دل گاوں والے جب دوڑے دوڑے اُس کی مدد کو پہنچے تو علم ہوا کہ یہ شخص تو مذاق کر رہا تھا۔

بعد میں کیا ہوا، سب جانتے ہیں۔

کافی عرصے سے یہ کہانی مجھے یاد آ رہی ہے، اور اس کی یاد بالخصوص اس وقت تازہ ہو جاتی ہے جب ہمارے “عوامی، انقلابی” کالم نگار اپنے اپنے گھروں میں کافی پیتے یا سگار کا دھواں اڑاتے انقلاب فرانس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اس وقت کے فرانس کا آج کے پاکستان سے موازنہ کرتے ہیں یا پھر دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وجہ سے کسی حکومت کا تختہ الٹنے پر اُس “انقلاب ” کے ثمرات گنوانے لگ جاتے ہیں ۔

آج کل کرغیزستان کے سیاسی حالات بیان کر کے پھر پاکستان کا ذکر معنی خیز انداز میں ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں حقیقت میں وہاں کیا ہوا ہوگا ۔

اگر حقیقت میں شیر آگیا تو کیا ہمارے حفاظتی انتظامات ہمیں اس شیر سے بچا پائیں گے؟

2 thoughts on “شیر آیا ، شیر آیا”

  1. پرانے وقتوں میں کیا جھوٹ عام نہیں تھا؟
    ہاہاہاہا!
    تو اتنے سارے مذاہب کہاں سے امڈ آئے ہیں، اور وہ بھی ہزاروں سال پرانے جھوٹے مذاہب!

  2. انقلاب اور بھگدڑ میں بڑا فرق ہے ڈاکٹر صاحب۔۔ کوئی منزل ہو، کوئی لیڈر شپ دستیاب ہو کسی بات پر بڑی اکثریت کا اتفاق ہو۔۔ یہاں جو ماحول بنا ہے اس میں انقلاب آتا تو دکھائی نہیں دیتا ہاں انقلاب کے نام پر بھگدڑ مچنے کا پورا امکان ہے وہ بھی ایلیٹ کے لیے پردے کے خاص‌انتظام کے ساتھ۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں