Skip to content

سب مایا ہے

میں نے جان کے سامنے کافی کا کپ رکھا اور اسے اس کپ کو اپنے فینٹم بازو سے اٹھانے کو کہا۔ جیسے ہی اس نے مجھے بتایا کہ وہ کپ کو چھونے والا ہے، میں نے کپ اس کے سامنے سے ہٹا دیا۔
” آؤچ” جان چلایا۔ ” ایسے مت کرو” ۔
“مسئلہ کیا ہے؟”
” ایسے مت کرو” اس نے دہرایا۔ “جیسے ہی میری انگلیاں کپ کو چھونے لگی تھیں، تم نے کپ اٹھا لیا، مجھے بہت تلکیف ہوئی۔
ایک لمحے کو رکئے۔ میں ایک انسان کی فرضی انگلیوں سے ایک کپ نکال لاتا ہوں اور اُسے تکلیف ہوتی ہے۔ فینٹم بازو کی انگلیاں ایک وہم تھا ، مگر اُس کا درد حقیقی تھا۔ بلکہ اتنا شدید تھا کہ مجھے یہ تجربہ دہرانے کی ہمت نہ ہوئی۔

راما چندرن کی کتاب Phantoms in the Brain: Probing the Mysteries of the Human Mindکے صفحہ 43 سے ایک اقتباس۔

فینٹم لمب ایک ایسا دلچسپ مرض ہے کہ جس نے بہت عرصے تک سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے رکھی ہے۔ اس مرض میں ایک انسان کو ، جس کے جسم کا کوئی عضو کسی وجہ سے قطع کر دیا جاتا ہے، اُسی عضو کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، اور اکثر متاثرین اس محسوس ہونے والے عضو میں ، جو کہ در حقیقت موجود نہیں، مگر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے، شدید درد کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔

اس مرض یا صورت حال کو بیان کرنے کے لئے کئی مفروضے پیش کئے جاتے رہے۔ مثلا کافی عرصے تک یہی یقین کیا جاتا رہا کہ یہ صورت حال در اصل قطع شدہ اعضا کے بقیہ حصوں پر موجود منقطع اعصابی نظام کی بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ منقطع حصے بلاوجہ دماغ کو سگنل بھیجتے رہتے ہیں کہ قطع شدہ عضو در اصل موجود ہے اور یوں مریض اس عضو میں درد اور دوسری علامات محسوس کرتا رہتا ہے۔

در حقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ ریسرچ نے ثابت کیا کہ اگر دماغ میں موجود تمام فعال حصوں میں سے کسی ایک کا اّصابی رگوں سے رابطہ منقطع ہو جائے تو آس پاس کے حصے اس جگہ کو کنٹرول کرنے لگتے ہیں اور یوں اس عضو کی زندگی کا احساس جنم لیتا ہے۔ حوالہ

گویا یہ سب احساس کا کھیل ہے۔ اب ایک اور منظر نامے کی طرف آجائیں۔ ہمارا اعصابی نظام تین حصوں پہ مشتمل ہے۔
ایک وہ حصہ جو حسیات سے متعلق ہے۔ اس کا کام تمام حسیات کے ذریعے پیدا کردہ سگنلز کو دماغ کے مناسب حصوں تک پہنچانا اور ان سگنلز کی تشریح میں مدد دینا ہے۔ اس کو سینسری سسٹم بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے اعصابی نظام کا یہ حصہ کچھ ایسے خوردبینی خلیوں پہ انحصار کرتا ہے جن کو ہم ریسیپٹر کہتے ہیں۔ تمام حسیات، خواہ وہ چھونے کی حس ہو، یا ذائقے کی، دیکھنے کی صلاحیت ہو یا سننے کی ، درد کو محسوس کرنا ہو یا کسی کے پیار بھرے لمس کو،، سب کچھ ان ریسیپٹرز کے ذریعے ہوتا ہے۔

فینٹم لمب میں ریسیپٹر یا سیسنری سسٹم کے دوسرے حصے بلاوجہ متحرک ہو کر کسی عضو کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ہمارے اعصابی نظام کا دوسرا حصہ حرکت سے متعلق ہے اور حرکت ، سینسری سسٹم سے حاصل کردہ معلومات کی محتاج ہوتی ہے۔ مثلا کسی گرم برتن سے ہاتھ چھو جانے پر ہاتھ کا بلا اختیار پیچھے ہٹ جانا، ایک ایسے خودکار عمل کی نشاندہی ہے جو بذات خود بہت پیچیدہ ہے۔
تیسرا حصہ خودکار ہے۔ اس حصے کے ذمہ بہت اہم کام ہیں، جن میں دل کی دھڑکن کا اختیار، سانس کا اختیار، فشار خون اور اس جیسی دوسری چیزیں شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں اکثر اوقات ہمارے شعوری اختیار میں نہیں ہوتیں۔

اب ایک ایسے منظر نامے کا سوچئے جس میں ایک انسان کے کچھ ریسیپٹر کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔ مثلا ایسے افراد جو دماغی چوٹ لگنے کے باعث اپنی بصارت کھو بیٹھتے ہیں، حال آنکہ ان کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہوتہی ہیں۔ یا پھر اس خاتون کی مثال لے لیجئے جسے ڈر نہیں لگتا کیونکہ اس کے دماغ میں ڈرکو محسوس کرنے والے حصے کسی وجہ سے اپنا کام چھوڑ چکے ہیں۔
تو کیا ایسی حالت میں، جب کوئی چیز محسوس نہ ہو رہی ہو، تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ چیز در حقیقت موجود ہی نہیں ہے؟

یہ دونوں منظر نامے متضاد ہیں۔ فینٹم لمب میں ایک عضو در حقیقت موجود نہیں ہے، مگر دماغ میں اعصابی نظام کی بنیاد یعنی نیورانز کے نئے کنکشنز کی وجہ سے اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ اور اگر ریسیپٹرز کام نہ کریں تو کسی چیز کے ہوتے ہوئے بھی وہ چیز موجود نہیں ہوتی۔

باقی آئیندہ، مگر پہلے فیصل لطیف کی آواز میں انشا جی کا کلام سن لیجئے۔

سب مایا ہے۔

3 thoughts on “سب مایا ہے”

  1. ڈاکٹر صاحب۔۔۔ مجھ جیسے جاہل کو جو تھوڑا بہت سمجہ آیا ہے۔۔۔ وہ اچھا ھے۔۔۔ شکریہ کچھ نیا سیکھانے کے لیے۔۔۔

  2. منیر صاحب!
    آپکا سمجھانے کا انداز خوب ہے گو کہ ہم “یک نیوران” لوگ ہیں۔ یک نیوران جو سارا دن اپنی نرگس بے نوری پہ شور کرتا رہتا ہے کہ میں یہاں ہوں ۔ ادہر ہوں۔ اور ہم اسے بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔
    خدا کرے کہ آپ کی طرح اور بہت سے لوگ بھی کوشش کریں اور ہمراے نیورانز میں اضافہ کریں اور ہمارے ریسپٹر بھی اشیاء اور واقعات کو اسکے درست پس منظر میں محسوس کر کے نیورانز سے درست نتیجہ پا سکیں۔
    آپ نے اسقدر محنت سے تفضیلی روشنی ڈالی ہے اور مضمون کو اردو میں ڈھالا ہے۔ اس پہ آپ کو داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔اردو زبان میں ہر قسم کے علمی مواد کی کمی ہے۔ آپ اپنی کوشیش جاری رکھیں، خلافت قرطبہ کے دور میں یوروپ نے مسلمانوں سے علم سیکھ کر ان کے سبھی علوم کو اپنی زبانوں میں ڈاھل کر مغرب کی موجودہ ترقی کی بنیاد رکھی۔کیا عجب کچھ فرزانے دیوانوں کو بھی ایسا شوق ہو اور ملک کر کوئی ایسا فلاحی ادارہ قائم کیا جاسکے جو ہر قسم کے علوم کو اردو کے قالب میں ڈھال سکیں ۔ جس پہ قومی ترقی کی جدید بنیاد رکھی جاسکے۔ ممکن ہے تب ہم نہ ہوں مگر ہماری آنے والی نسلیں محتاجی سے آزاد ہونگی – یہ صدقہ جاریہ کی عمدہ ترین قسم ہے۔
    اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں