Skip to content

دل زدہ یاد

دل زدہ یاد

امی کی وفات کے بعد مجھے بہت سی اچھی باتیں سُننے کو ملیں۔ ان میں سے ایک انسان پر آنے والے حالات کے بارے میں بھی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک وقت ایسا آتا ہے ہر اُس انسان پر جس کا کوئی عزیز بچھڑا ہو کہ وہ اپنے مرحوم عزیز کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے۔ خواہش کرتا ہے کہ وہ اپنے مرحوم عزیز کے بارے میں لوگوں سے بات کرے۔ مگر اب سُننے والا کوئی نہ ہوگا۔

یہ غم اپنا ہی رہے گا۔ کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوگی کہ وہ پاس بیٹھ کر دو چار الفاظ کہہ سُن لے۔

آج امی کی یاد آ رہی ہے۔ وہی ایک منظر آنکھوں کے سامنے بار بار آتا ہے جب ہسپتال کی پارکنگ میں میں سٹریچر دھکیلتا گاڑی کے پاس پہنچا اور میں نے سٹریچر روکنے کے بعد جب امی کو کار سے نکالنے کے لئے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا تو میں ہکا بکا ہو گیا تھا۔ امی ایسی پُرسکون لگ رہی تھیں جیسے ابھی سوئی ہوں۔ میں اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا اور اس شش و پنج میں مبتلا ہو گیا کہ امی کو جگاؤں یا نہیں۔ تب ہی ابو نے مجھے پکارا۔ میں واپس ہوش و حواس کی دنیا میں آیا تو ابو کو دیکھا۔۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے ۔۔ میں سُن نہ پایا۔  تھوڑی دیر بعد میں جب سننے اور سمجھنے کے قابل ہوا تو سُنا کہ ابو ، امی کو سٹریچر پر لٹانے کا کہہ رہے تھے۔

اُسی وقت مجھے سب کچھ یاد آ گیا۔ مجھے یاد آگیا کہ امی ایک حادثے کا شکار ہوئی ہیں اور ان کو ہسپتال لانے کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے سر پر چوٹ لگی ہے۔ میں تب بھی امی کو دیکھ رہا تھا۔ اُن کے چہرے پر جو سکون تھا وہ حیران کر دینے والا تھا۔ اتفاق سے کافی ایسے مریضوں کے چہروں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے جو میرے سامنے یا میری موجودگی میں ہسپتال میں وفات پا گئے۔ یہ چہرہ ان سب سے مختلف تھا۔ بالکل پر سکون ۔ جیسے کوئی اپنے تمام کام مکمل کر کے اطمینان سے سو جائے۔ میں یہی خواہش کر رہا تھا کہ شائد امی واقعی سو رہی ہوں۔

مجھے اس کے بعد جو یاد آتا ہے وہ ایمرجنسی میں ان لیڈی ڈاکٹروں کا سی پی آر کرنا ہے جو وہ امی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کر رہی تھیں۔ جتنی نفاست سے دونوں لڑکیوں نے یہ کام شروع کیا تھا اور جس نزاکت سے وہ سینے پر دباؤ ڈال رہی تھیں، اُس سے اندازہ ہو گیا کہ یہ سب کچھ وہ پہلی مرتبی یا دوسری مرتبہ کرر ہی ہیں۔ میں نے گلہ کرنے کی بجائے امی کی آنکھوں کی پھیلی ہوئی پتلیوں پر روشنی ڈال کر اُن کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ میں نے ان کو کہا کہ وہ یہ سب چھوڑ دیں کیونکہ امی ایکسپائر ہو گئی ہیں۔ ایکسپائر جیسا لفظ ہم کتنے دھڑلے سے ہر وفات پا جانے والے مریض کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ امی کے لئے استعمال کرنا کچھ عجیب سا لگا مگر ڈاکٹروں کو ایسے ہی بتایا جا سکتا تھا۔

ان کو بتایا کہ میں ڈاکٹر ہوں تا کہ وہ سمجھ جائیں کہ یہ کوئی عام اٹینڈنٹ نہیں ہے۔ ڈاکٹر حامد اور دوسرے سینئر ڈاکٹر آئے تو ان کو علم ہو چکا تھا کہ کیا ہوا ہے اور اب کیا ہو رہا ہے۔ انھوں نے امی کوسٹریچر سے بیڈ پر شفٹ کیا اور مجھے کہا کہ ان کی سانسویں ابھی چل رہی ہیں۔

ایسی خوشخبری؟ اللہ کرے درست ہو۔ میں نے پوچھا کوئی نیوروسرجن؟ سر پہ چوٹ لگی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ آ رہا ہے۔

میرے ذہن میں خیال تھا کہ شہباز کو بلاؤں گا۔ مگر بارش بہت طوفانی تھی اور وہاں تک جانا بہت رسکی تھا۔ لہٰذا انتطار کرنا پڑا۔

تقریبا پنتالیس منٹ بعد، جب کہ امیدیں کافی بندھ چکی تھیں، ڈاکٹر حامد نے مجھے بلایا اور صرف اتنا کہا کہ مجھے بہت افسوس ہے۔

جو ڈیتھ سرٹیفیکیٹ مجھے تھمایا گیا، اس پر لکھا تھا، براٹ ان ڈیڈ۔ یعنی مردہ حالت میں ہی ہسپتال میں لایا گیا۔ میں سمجھ گیا کہ بھائی کی وجہ سے یہ سب کچھ کیا گیا تا کہ ہمیں تسلی رہے۔ اُن کو بھی علم تھا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں ایک مردہ جسم پر کر رہے ہیں۔

مجھے اُس شام اُن ڈاکٹروں کی اس حرکت پر بہت غصہ تھا۔ مگر اب میں سوچتا ہوں کہ انھوں نے ٹھیک ہی کیا۔

آج ابو سے کہا کہ نہ جانے کیوں امی مجھ سے خوش نہیں گئیں۔ یہ نہ جانے بھی اپنے آپ کو خو ش کرنے کو بولا۔ مگر ابو نے کہا، کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ مرتے دم تک مجھ سے خوش تھیں۔

والدین بھی کیا کریں، مرتے دم تک اولاد کو دُکھی نہیں دیکھنا چاہتے۔

اللھم اغفر لھا، وارحمھا، ولا تعذبھا۔ آمین۔

2 thoughts on “دل زدہ یاد”

  1. اللہ کریم آپ کی والدہ محترمہ کو جوارِ رحمت مین جگہ دے اور آپ و دیگر پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین ۔ باقی ماں ماں ہی ہوتی ہے اور اس کی یاد کو دل سے مٹانا ناممکن ہوتا ہے ۔ میری والدہ کو فوت ہوئے 23 سال 5 ماہ گذر گئے مگر اُن کی یاد اُن کا اسلوب ہر وقت دماغ مین تازہ رہتا ہے ۔ آج میں جو کچھ ہوں یہ اُنہی کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ کہ میری ایک خالہ زاد بہن اس وقت اچانک فوت ہو گئیں جب اُن کی بچے چھوٹے چھوٹے تھے جن میں ایک چند ماہ کا تھا ۔ نانی یعنی میری خالہ نے پالنا شروع کیا ۔ 3 سال کا تھا کہ میری خالہ اچانک فوت ہو گئیں ۔ پھربڑی بہن جو خود بھی ابھی نابالغ بچی تھی نے پالا ۔ اُن کے باپ کا چھوٹا بھائی بھی اچانک فوت ہو گیا اور ان کے باپ کو اپنی بھابھی اور ننھے ننھے 3 بچوں کو بھی پالنا پڑا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی لیکن تبصرہ بہت لمبا ہو جائے گا ۔ اللہ بے نیاز اور بڑا کارساز ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور سب سے محبت کرتا ہے

  2. نصیر احمد عباسی

    آنکھوں میں آنسو آگئے پڑھ کر۔ ایسا کبھی مت سوچو کو امی نا خوش تھیں، ان کی زبان تو آپ کیلئے دعائیں کرتے نہ تھکتی تھی۔

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں