Skip to content

جمہوریت بمقابلہ خونی انقلاب

حفیظ نے جب برگہ ہوٹل چھتر پلین کے سامنے گاڑی روکی تو ہمیں صدیقی صاحب کی کالی کرولا بھی کھڑی نظر آگئی۔

ابھی ہم اترے بھی نہ تھے کہ صدیقی صاحب ہمارے پاس آئے۔ مجھ سے انھوں نے والدہ کی وفات پر تعزیت کے لئے نہ آسکنے پر معذرت کی۔ جو کہ میرے خیال میں نا مناسب تھی۔ وہ عمر اور تجربے میں مجھ سے بڑے ہیں ، مجھے شرم آئی کہ وہ مجھ سے اس طرح بات کر رہے ہیں۔ ویسے بھی میں ان رسموں پر یقین نہیں کرتا۔ میرا اس بات پر یقین ہے کہ جس نے جہاں بھی جس کسی کے لئے دعا کی، اللہ تعالیٰ سنتا اور قبول کرتا ہے۔

ہوٹل میں چارپائیوں پر بیٹھے ہی تھے کہ دوسرے صدیقی صاحب  یعنی طاہر صدیقی صاحب آ گئے۔ نوید بھی آ کر بیٹھ گیا اور یوں علیک سلیک شروع ہو گئی۔ بعد میں عبدالصبور اور اس کے ہمراہ آنے والے بھی اس گفتگو میں شامل ہو گئے اور یوں ہمارا جرگہ مکمل ہو گیا۔

حسب معمول میں نے صدیقی صاحب کی طرف دیکھا کہ وہ  اپنی گفتگو کا آغاز وہیں سے کریں گے جہاں پر انھوں نے اپنی گاڑی سے اترنے سے پہلے وقفہ کیا تھا۔ اس طرح ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج کس موضوع پر نوید، صدیقی صاحب اور طاہر صدیقی صاحب نے گفتگو کی ہو گی۔ مگر صدیقی صاحب خلاف معمول خاموش تھے۔

طاہر صدیقی صاحب نے کہنا شروع کیا کہ نوائے وقت میں مجید نظامی کا کالم چھپا ہے جس میں اس نے انقلاب پر بات کی اور بہت اچھا لکھا ہے۔ نوید نے بھی بات میں حصہ لیا اور اس کا مؤقف تھا کہ انقلاب ہی اس ملک کے موجودہ حالات کی بہتری کا واحد ذریعہ ہے۔  میں صدیقی صاحب کی طرف متوجہ ہوا تو وہ  بھی متفق نظر آئے اور پھر گفتگو شروع ہو گئی۔  ہم سب اس بات پر متفق تھے کہ اس ملک میں کوئی بھی ٹھیک سے کام نہیں کرتا۔ مکینک ہے، دکاندار ہے یا ٹرانسپورٹر، سب کی کوشش ہوتی ہے کہ اگلے کی جیب کاٹی جائے۔

جمہوریت بے معنی ہو کر رہ گئی ہے اور جمہوری نظام اس وقت نتائج دینے میں ناکام ہو گیا ہے۔ اور یوں ہمیں یاک متبادل نظام کی ضرورت ہے جو کہ صرف اور صرف انقلاب ہی ہے۔ بعض شرکاء نے تو خونی انقلاب کی اصطلاح تک استعمال کر ڈالی۔

میں نے ایک نکتہ اعتراض اٹھایا۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ انقلاب آتا ہے، لایا نہیں جاتا۔ اور ایک کامیاب انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ آئے، لایا نہیں جا سکتا۔ اس پر بحث چھڑ گئی۔

مجھے یاد آیا کہ کل مانسہرہ میں شام کے وقت ایک صاحب نے میری کسی بات پر ایک بلند قہقہہ لگایا تھا اور کہا تھا کہ ” ڈاکٹر صاحب، آپ بہت سادے ہو، یہ 2013 کا پاکستان ہے، یہاں غنڈے اور بدمعاش زیادہ طاقت ور ہیں اور ان کے ذریعے جو کام کروایا جائے وہ زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔” مجھے یہ بات ماننی پڑی کیونکہ سیاق و سباق کچھ ایسا ہی تھا۔

بہر حال ہم جانتے ہیں کہ اس جمہوری نظام میں کس قسم کے “عوامی” نمائیندے منتخب ہو کر آتے ہیں اور ان کی اخلاقی حالت کیسی ہوتی ہے۔ یہ نمائیندے جیسے بھی ہوں عوام نے ہی منتخب کئے ہوتے ہیں۔ اگر عوام نے ان کو منتخب نہیں کیا تو ہزارو ں کی تعداد میں ووٹ کس نے دئے ان کو؟ اور اگر عوام نے ان کو منتخب نہیں کیا، اور بقول کسے جُھرلو پھرا، تو پھر عوام ان نتائج پر احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ میں نے آج تک کسی کو احتجاج نہیں کرتے دیکھا، سوائے ہارنے والے امیدواروں کے۔

اب اگر انقلاب لایا جاتا ہے تو کون لائے گا؟ یہ سوال میں نے اس لئے نہیں پوچھا کہ ناشتہ کا وقت ختم ہورہا تھا اور ہم سب نے اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہونا تھا۔ ایک ہفتے بعد دوبارہ ناشتے پر ملنے کے لئے۔

مجھے یاد آیا کہ روزنامہ دنیا میں  محمد اظہار الحق صاحب کے 15 اکتوبر کے کالم کے شائع ہونے کے بعد ان سے کچھ برقی خط و کتابت کرنے کا موقع ملا مجھے۔  میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ جمہوریت کے مخالفین پر ضرور تنقید کریں مگر آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ وہ کیا وجہ ہے کو لوگ جمہوریت کو اب ایک سعی لاحاصل قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خلافت یا کسی اور نظام کی آوازیں کیوں اٹھ رہی ہیں۔ میں نے درخواست کی کہ اپ دیکھیں جمہوری نمائیندوں اور اس جمہوری نظآم نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔  جمہوریت بذات خود جتنی اچھی ہو، مگر اس کی جو تعبیر پاکستان میں ہو رہی ہے اس سے تو آمریت ہی بھلی۔

انھوں نے دو سطری جواب دیا کہ آپ حل بتائیں۔ میں نے دعویٰ تو نہیں کیا تھا کہ میں حل بتاؤں گا مگر پھر میں نے کوشش کی اور اپنا مؤقف بیان کیا جو کہ ایک مرتبہ اردو بلاگرز کے ہینگ آوٹ میں میں بیان کر چکا ہوں کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکمران کیسے بنا، اگرحکمران خوف خدا رکھتا ہے، حق حقدار کو دیتا ہے، اور ظالم کو سزا دیتا ہے۔ جب وہ اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرتا ہے تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکمران کا انتخاب کیسے ہوا۔ اگر حکمران اللہ سے نہیں ڈرتا، فسق و فجور میں مبتلا ہے، رعایا کے ساتھ ظلم کرتا ہے اور انصآف نہیں کرتا تو پھر کسی کو فائدہ نہیں۔ پھر وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہو یا آمریت کے راستے سے آئے، سب کچھ برا ہے۔ وہ انگریزی میں کہتے ہیں نا کہ اینڈ جسٹیفائیز دا مینز۔

ان کا جواب آیا کہ آپ نے ایک حل بتا دیا ہے۔ اب آپ ان کا 25 اکتوبر کو شائع ہونے والا کالم بھی پڑھ لیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عالمگیریت اور طالبانیت کا دوراہا کے عنوان تلے عرض کر چکا ہوں، ہم لوگ ایک کنفیوزڈ قسم کے سسٹم میں رہتے ہیں۔ ہم بیک وقت آئین اور شریعت پر عمل کرنے کوشش کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم دین اور شریعت کو چھوڑ نہیں سکتے۔ اور اگر آئین پر عمل کریں تو بہت سی جگہوں پر ابہام بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دو کشتیوں پر بیک وقت سواری کرنے کی کوشش کرنے والی یہ قوم پولارائز ہوتی جا رہی ہے۔

میں یہاں ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ جمہوریت کی جو لہر اس وقت اٹھی ہے، یہ بھی عالمگیریت کی وبا کا ایک جزو ہے۔ آپ اس سے بچ نہیں سکتے۔ اس نظام میں جاہل اور عالم، اندھا اور بینا، فاسق اور عالم سب برابر ہیں۔ مگر ہمارا قرآن ان سب کو برابر نہیں کہتا۔ اگر آپ نے دنیا والوں سے رابطہ رکھنا ہے تو اس نظام کو ہر حال میں اپنانا ہوگا۔ اس کی برائیوں سے ہر حال میں چشم پوشی کرنی ہوگی۔ آپ کسی بھی صورت اس نظام کے تناقص کو زیر بحث نہیں لا سکتے ، بصورت دیگر آپ طالبان ہیں، رجعت پسند ہیں یا پھر شر پسند۔

آپ اس وقت ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ سفر کا اگلا پڑاؤ آپ کس منزل پر کریں گے اور اس منزل کا تعین اس دوراہے پر آپ کے فیصلے سے ہوگا۔ آپ دائیں جانا چاہیں گے یا بائیں؟؟

  پس نوشت: مجید نظامی صاحب والا کالم دراصل قیوم نظامی صاحب کی تحریر ہے اور یہاں اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ میں قیوم نظامی صاحب سے بالکل متفق نہیں ہوں۔

انقلاب حکومت کا محتاج نہیں ہوتا۔ جو انقلاب حکومت کا محتاج ہوتا ہے وہ انقلاب نہیں ہوتا۔ حکومتی احکام کے ذریعے انقلاب لایا جا سکتا ہے ، آتا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی پیش کردہ تین شرائط میں سے کم از کم ایک کا انتخاب ضرور کرتے۔

جمہوریت بمقابلہ خونی انقلاب

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں