Skip to content

بنام فارہہ از جون ایلیا۔

ساری باتیں بھول جانا فارہہ

تھا وہ سب کچھ اِک فسانہ فارہہ

ہاں محبت ایک دھوکہ ہی تو تھی

اب کبھی دھوکا نہ کھانا فارہہ

چھیڑ دے گر کوئی میرا تذکرہ

سن کے طنزاً مسکرانا فارہہ

میری جو نظمیں تمہارے نام ہیں

اب اُنہیں مت گنگنانا فارہہ

تھا فقط رُوحوں کے نالوں کی شکست

وہ ترنم وہ ترانہ فارہہ

بحث کیا کرنا بھلا حالات سے

ہارنا ہے ہار جانا فارہہ

پیشکش میں پھول کر لینا قبول

اب ستارے مت منگانا فارہہ

سوچتا ہوں کس قدر تاریک ہے

اب مرا باقی زمانہ فارہہ

سج کے وہ کیسا لگا ہوگا جو تھا

ایک خواب ِ شاعرانہ فارہہ

یہ جو سب کچھ ہے یہ شائدکچھ نہیں

روگ جی کو کیا لگانا فارہہ

2 thoughts on “بنام فارہہ از جون ایلیا۔”

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں