Skip to content

اجالے کے بعد

کراچی سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے۔ ایک لحاظ سے بلاواسطہ بھی ہے اور بالواسطہ بھی۔ 1994-1996 تک کے عرصے میں  کراچی میں قتل عام بہت عام تھا، میں نے تھوڑا بہت اپنی آ نکھوں سے ہوتے دیکھا۔ اس سے قبل میں ” جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے” کے بڑے بڑے بینرز بھی سڑکوں پر لگے دیکھ چکا تھا مگر اس وقت میں کم عمر تھا، مجھے علم، نہیں تھا کہ قائد، قائد اعظم کے علاوہ بھی کوئی ہے۔

اردو بولنے والوں اور پشتو بولنے والوں کے درمیاں جو لڑائیاں ایک لڑکی کے بس تلے آ کر ہلاک ہو جانے کے بعد ہوئیں، ان کے کچھ تذکرے بھی میں نے سُنے۔  اور بہت کچھ ہے جو کہ سُنی سنائی پر مشتمل ہے اور ظاہر ہے، سُنی سنائی کا ثبوت تلاش کرنا ناممکن کام ہوتا ہے۔

جب مرحوم نصیراللہ خان بابر صاحب نے کراچی میں آپریشن شروع کیا تو اس وقت ہمیں امید تھی کہ اب ہم پہلے کی طرح بغیر کسی روک ٹوک کے کہیں بھی آ جاسکیں گے۔ ایک دو مرتبہ تو میں خود ایسی بس میں پھنس چکا تھا جس کے سب مسافروں کو دو مسلح افراد اتار کر گلستان جوہر لے جا رہے تھے اور میں حالات سے بے خبر بیٹھا رہا۔ وہ تو ان مسلح افراد کی بھلائی تھی کہ انھوں نے مجھے کچھ نہیں کہا، رستے میں بس رکوائی اور مجھے اتار دیا۔ کیونکہ ڈرائیور، کنڈکٹر، ان مسلح افراد کے علاوہ میں ہی تھا جو اس بس میں بیٹھا تھا۔ اور وہ بھی اس وجہ سے کہ جب ناتھا خان گوٹھ پہ جب سب سواریوں کو اتارا گیا ، تو میں سمجھ نہ سکا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

اگر آج کل میں یہ واقعہ پیش آیا ہوتا تو شائد میرے ناک کان کاٹ کر میرے ہاتھ میں تھما دئیے جاتے۔ شائد میری آنکھوں میں ایلفی ڈال کر دھکا دے دیا جاتا ۔ شائد آسان ترین طریقہ رحم کا یہ ہوتا کہ سر میں گولی مار دی جاتی۔ مجھے یہ سوچ کر جُھرجھری سی آ جاتی ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تمام ازمائشوں اور تکالیف سے اب تک محفوظ رکھا ہے اور مجھ پر اپنے انعام و اکرام کی بارش کی ہے۔ الحمد للہ۔

کراچی میں جو کچھ ہو رہا، اس پر ایک مرتبہ ابو شامل نے مجھے کہا کہ آپ بھی لکھیں۔ میں کیا لکھوں؟ مجھے کچھ علم نہیں۔ بہت گہرا مسئلہ ہے۔ مگر جہاں تک میں سمجھا ہوں، یہ شناخت کی جنگ ہے۔ اور کسی حد تک جائز بھی ہے۔ اس سے پہلے میرا مؤقف یہ ہوتا تھا کہ ہم سب پاکستانی ہیں تو یہ لوگ، معذرت اگر میرا یہ طرز تخاطب کسی کو برا لگے، اپنے آپ کو پاکستانی کیوں نہیں کہتے۔ مہاجر کیوں کہتے ہیں۔

میں ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہوں ، جہاں گھر کی حد تک کبھی اس چیز کو حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، مگر ظاہر ہے گھر سے باہر جتنے بھی افراد ملتے تھے، ان سے یہ بات کسی نہ کسی طور پر ہو ہی جاتی تھی۔ اور ہم سب کا ، اُس وقت کی حد تک، یہ تإثر ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو پاکستان میں جگہ دی گئی اور الٹا یہ لوگ اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔  مگر اب میں سوچتا ہوں کہ یہ لوگ ایک حد تک درست بھی ہیں۔ بلال محمود کے بلاگ پر اردو زبان سے متعلق ایک تبصرہ کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ صرف اسی زبان نے ترقی کی ہے جس کی علاقائی جڑیں ہوتی ہیں اور بد قسمتی سے پاکستان کے کسی جغرافیائی خطے سے اردو کی جڑیں متصل نہیں۔ یہ سطور لکھتے ہوئے کراچی، حیدر آباد اور سکھر وغیرہ کا نام ذہن میں تو آیا، مگر میں نے اس لئے ذکر نہیں کیا کہ یہااں اردو بولنے والے بسائے گئے تھے۔ مقامی پھر بھی نہیں تھے۔ اب اردو بولنے والے مقامی نہیں۔ مقامی لوگ جو ہیں، پاکستان کے کسی بھی خطے میں رہنے والے مقامی، ان کا طرز بود و باش ان سے مختلف۔ کافی حد تک  مختلف۔ اس لئے تھوری بہت دوریاں ت وپیدا ہونی ہی تھیں۔ انسان اپنے لوگوں کی طرف کھچتا ہے اس لئے اگر یہ سب لوگ ایک جگہ کچھ شہروں میں جمع ہو گئے تو کیا برا کیا؟ سُنا تو یہ بھی تھا کہ لیاقت علی خان مرحوم نے اپنے ووٹوں کی خاطر  مہاجرین کو ایک ہی جگہ بسا ڈالا مگر وہ زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکے۔ بہر حال، اردو ہماری رابطہ زبان بن تو گئی، مگر شائد اس کو ہم سب نے اب تک قبول نہیں کیا۔ گئے برسوں کی بات ہے، شائد جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا، پنجاب اسمبلی کے ایک رکن نے کہا کہ اس خطے کے مسلمانوں پر باہر کی زبانیں مسلط کی گئی ہیں، اور، اگر میرا حافظہ ساتھ دے رہا ہے تو، مطالبہ یہ تھا کہ نماز وغیرہ پنجابی زبان میں ہونی چاہئیں۔ ماں بولی کے تحفظ کے لئے کافی لوگ پریشان ہیں، ہمارے دوست بلاگر شاکر عزیز نے تو ایک دوبلاگ پوسٹ پنجابی میں بھی لکھے۔ لسانیات سے وابستہ ہونے کے با وصف ان کو علم ہے کہ زبان کی کتنی اہمیت ہے۔

پشتو کی علاقائی اہمیت اپنی جگہ پر۔ اسی زبان کی وجہ سے اے این پی کی سیاست اب تک چل رہی ہے اور چلتی رہے گی، اگر کوئی اچھا راہ نما سامنے نہ آیا تو۔ مجھے گزشتہ دنوں معروف پشتو لکھاری سعداللہ جان برق کی ایک نئی کتاب کے بارے میں علم ہوا۔ بی بی سی اردو پر اس کا ایک ریویو پڑھنے کو ملا۔ سعداللہ جان برق روزنامہ ایکسپریس میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ اپ نے اپنی نئی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ محمود غزنوی سے پہلے پشتو ادب کا بہت سا حصہ دیوناگر رسم الخط میں موجود تھا۔ محمود غزنوی کی آمد، لوگوں کا مشرف با اسلام ہونا اور دوسری وجوہات کی بنا پر، جن میں اہم محمود غزنوی کی ایما تھی، پشتو کا رسم الخط دیوناگری سے تبدیل کر کے عربی/فارسی نسخ  کر دیا گیا یوں ہم پشتو ادب کے بہت بڑے حصے کو متروک کر بیٹھے۔

جہاں پر زبان اور جغرافیائی تعلق کے ایسے ایسے دعوےکئے جا رہے ہوں وہاں اردو اور قومی زبان جیسے نعرے کھوکھلے لگتے ہیں۔ اور پھر میں سوچتا ہوں ان لوگوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی جو اسلام کے نام پر، مذہب کے نام پر ایک نظرئیے کی خاطر اپنی جائیدادیں، رشتے اور مال املاک چھوڑ کر چلے آئے۔

اچھے بُرے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں، ہر قوم میں، ہر خاندان میں۔ بس یہ بات سمجھ نہیں آ تی تھی۔ ایسا نہیں کہ اب سب ٹھیک ہے۔ اب بھی بہت سی لوگ ایسے مل جائیں گے کہ وہ ایک جائز قسم کا گلہ کرتے سنائی دیئے جائیں گے۔ بہر حال انٹرنیٹ پر بہت سے ڈسکشن فورمز اور بلاگز پر میں اپنے خیالات کا دفاع کرتا رہا۔

کراچی میں اس وقت لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور اس لاقانونیت کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کسی ایک لسانی گرہ کو اس کا زمہ دار قرار دے کر اپنی جان چھڑا لینا اس مسئلے کا حل نہیں۔

اس لئے میں اس وقت کراچی میں متحرک تمام گروہوں کو اس کشت وخون کا برابر کا شریک سمجھتا ہوں۔ اور گزشتہ ماہ سے جاری حکومتی آپریشن پر کافی خوش بھی ہوں۔ اللہ کرے تمام مجرموں کو پکڑا جائے اور کسی کے ساتھ بھی کسی قسم کی کوئی رعایت نہ ہو۔ کسی کے ساتھ اس کے لسانی یا علاقائی پس منظر کی وجہ سے زیادتی نہ ہو اور یہ شہر دوبارہ امن کا گہوارہ بن جائے۔

دریں اثنا کچھ سوال ہیں جو مجھے تنگ کر رہے ہیں۔

اول:: کراچی کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے کرنے کا فیصلہ کس کا تھا۔ اور اگر یہ کسی قسم کا فیصلہ نہ تھا، تو کس کی غفلت سے ایسا ہوا؟ اور کیا اس فعل یا غفلت کے مرتکب کو سزا ملے گی؟؟

دوم: : اس دنیا میں جو کہ اسباب کی دنیا ہے، ہر قسم کا خلا پُر ہو جاتا ہے۔ یہ اس دنیا کی ریت ہے۔ اس سے مفر نہیں۔  ایک مثال یہ دینا چاہوں گا کہ اگر گلاس میں پانی ڈالیں تو پانی ہوا کی جگہ لے لیتا ہے اور ہوا نکل جاتی ہے۔ اب وہ گلاس جو کہ کچھ ثانیے پہلے ہوا سے بھرا تھا اب پانی سے بھرا ہے۔  اس گلاس سے پانی نکال دیں، یہ ہوا سے بھر جائے گا۔ خالی پھر بھی نہ ہوگا۔ ایک چیز کے جانے سے ، جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ کوی دوسری چیز ضرور پورا کرتی ہے۔

اب اگر کراچی میں جاری یہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کامیاب ہو جاتا ہے، اور بفرض محال، سب مجرم پکڑے جاتے ہیں تو ان کے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوگا اُس کو کون پورا کرے گا؟

کیا نئے ظالم پیدا ہوں گے؟ یا کیا حکومتی عملدار اپنی زمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ٹھیک ہو جائیں گے اور اپنے فرائض ایمان داری سے سر انجام دینا شروع کردیں گے۔ پولیس والے کسی سیاسی دباؤ کو خاطر میں  نہ لایا کریں گے۔ جج اور وکلا ایمانداری سے کام کریں گے وغیرہ وغیرہ

مجھے صرف یہ سوچ پریشان کررہی ہے کہ ,اجالے کے بعد , جو سحر آئے گی وہ کیا نوید لے کر آئے گی۔

اجالے کے بعد

2 thoughts on “اجالے کے بعد”

  1. جہاں تک میں سمجھتا ہوں، انسان کی ایک فطرت یہ بھی ہے کہ اگر اُسے اُس کے ساتھ ہونے والی (یا نہ ہونے والی) زیادتیوں کا احساس دلادیا جائے تو اُس کے غصے اور انتقام کے جذبے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر کسی طاقت کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ دہشت گرد کیوں پھٹنے کو تیار رہتے ہیں؟ کیوں کہ انھیں مخالف فریق کی زیادتیوں کا یقین دلادیا گیا ہے جس نے ان کی آنکھوں پر انتقام کی پٹی باندھ رکھی ہے۔
    ویسے ہی الطاف حسین نے مہاجر طبقے (قوم نہیں) پر ہونے والی (اور نہ ہونے والی) زیادتیوں کا احساس اُجاگر کرکے اُنھیں مخصوص قومیتوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دی۔ یوں، جو لوگ ایک عرصے سے ساتھ رہتے آئے تھے، اُن کے درمیان بے اعتباری کی فضا نے جنم لیا اور پھر نفرت نے۔
    جس خودساختہ تعریف کی بنیاد پر خود کو مہاجر کہلایا جاتا ہے، اس تعریف کے تحت تو میں بھی مہاجر ٹھہرتا ہوں لیکن الحمدللہ یہ میری پہچان نہیں اور نہ ہی میرے نزدیک اس پہچان کی کوئی اہمیت ہے۔ اور یہ سوچ کراچی کے دیگر رہنے والوں کی بھی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں متحدہ قومی موومنٹ کی عقیدت میں تو بعض لوگ دیگر کئی خطرات کے مقابلے میں ایک خطرے کو برداشت کرنے کی وجہ سے ایم کیو ایم کے فلسفے کی حمایت کرتے ہیں۔

  2. السلام و علیکم ….

    آپکے بلاگ پہ پہلا تبصرہ کر رہا ہوں ….

    ہم پاکستانیوں کے بارے میں کافی عرصۂ پہلے پڑھا تھا ….

    پاکستان کے قیام کی تحریک کے پیچھے … جو سوچ کارفرما تھی .. کہ ہندو کے غلبے سے چھٹکارا پانا ….

    ووہی سوچ یعنی مائنڈ سیٹ ابھی بھی قائم ہے ،،،، فرق یہ ہے کہ سب سے پہلے ہجرت کرنے والے نشانہ بنے ..پھر بنگالی … اور اب ہر کوئی دوسرے سے بر سر پیکار ہے …. کہیں دوسرا غالب نا آ جاۓ ….

    ویسے بھی جمہوریت کیا ہے “اکثریت کی آمریت ” (الله کرے یہ جملہ آپکی سمجھ آ جاۓ)

    خیال رہے قیام پاکستان میں مخلص لوگ بھی تھے لیکن اکثریت … صرف غلبہ کے ڈر سے تحریک پاکستان ک ساتھ تھی …

    رہی بات مہاجر کی تو جناب … یہاں پاکستانی ہے کون … کوئی پنجابی ہے کوئی پٹھان ، کوئی سندھی اور کوئی بلوچ … ہان کچھ سرائیکی اور براہوی بولنے والے بھی ہیں ….
    صرف کچھ لاکھ لوگ بچے…. سارے بھانت بھانت کے قوم پرست جو پاکستان میں رہتے ہیں وہ کسی بات پر متفق ہوں یا نہ ہوں اس بات پر ضرور متفق ہیں کے …”جو لوگ اسلام کے نام پر الو یعنی بیوقوف بنے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں آے انھیں ہم پاکستانی بنا کر رہیں گے ”

    ابھی ابن انشاء کا وہ مشہور آرٹیکل یاد آ رہا ہے کے پاکستان کیوں بنایا … آپ بھی پڑھیے

    ہمارا ملک

    ایران میں کون رہتا ہے؟ ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے؟ انگلستان میں کون رہتا ہے؟ انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے؟ فرانس میں کون رہتا ہے؟ فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے؟

    یہ کون سا ملک ہے؟ یہ پاکستان ہے اس میں پاکستانی قوم رہتی ہوگی؟ نہیں اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی ؟ اس میں سندھی قوم رہتی ہے اس میں پنجابی قوم رہتی ہے اس میں بنگالی قوم رہتی ہے۔

    اس میں یہ قوم رہتی ہے اس میں وہ قوم رہتی ہے لیکن پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ پھر یہ ملک الگ کیوں بنایا تھا؟

    غلطی ہوگئی معاف کردیجئے، آئندہ نہیں بنائیں گے؟

    ہاں میں یہ اضافہ ضرور کروں گا غلطی ہو گئی جی ہجرت کر لی ہمارے اجداد نے اس دفعہ معاف کر دن آئندہ تقدیر نے موقع دیا تو ہجرت نہیں کریں گے …. رہے نام الله کا ….

Comments are closed.

یہ تحریر کاپی نہیں کی جا سکتی ۔ آپ صرف اس تحریر کا لنک شئیر کر سکتے ہیں۔

زحمت کے لئے معافی چاہتا ہوں